صحافی غیرجانبدار نہیں‌ہوسکتا

علم ایک چراغ کی مانند ہے، چراغ اگر کسی مہذب شخص کے ہاتھ میں ہوتو وہ خود بھی اس کی روشنی میں سفر کرتا ہے اور دوسروں کو بھی راستہ دکھاتا ہے لیکن یہی چراغ اگر کسی غیر مہذب کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس چراغ کی روشنی میں لوگوں کے گھروں کو لوٹ لیتا ہے۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے قلم کے ذریعے علم کی روشنی کو عام کرتے ہیں۔ علم ہمیشہ تحقیق و جستجو کا مرہونِ منت ہے۔جو شخص تحقیق اور جستجو کا دلدادہ ہو اور مہذب انسان ہو وہ معاشرتی اندھیروں کے مقابلے میں خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا۔

آج جب ملک کے گوش و کنار میں نوجوانوں کو ماورائے عدالت لاپتہ کیا جاتا ہے اور کوئٹہ سے تفتان کا سفر کرنے والے طالب علم مسلسل یہ شکایت کررہے ہیں کہ ٹرانسپورٹر حضرات، ان سے ایک ہزار کے بجائے چار ہزار اور ساڑھے چار ہزار کرایہ وصول کرتے ہیں ، اور بھتہ خور سرکاری اہلکار انہیں راستے سے واپس کر دیتے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق طالب علموں کو سدا بہار ٹرانسپورٹ سروس والے اسی دن تو ٹکٹ بھی نہیں دیتے اور چار ہزار سے لے کر ساڑھے چار ہزار تک کرایہ وصول کرتے ہیں ، اسی طرح ولی ٹرانسپورٹ سروس والے دو ہزار کرایہ لیتے ہیں جبکہ سرکاری اعلان کے مطابق اصل کرایہ ایک ہزار روپے بنتا ہے۔

زائد کرایہ وصول کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ راستے میں سرکاری اہلکار ہم سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔ بہت سارے طالب علموں سے ساڑھے چار ہزار کرایہ وصول کرنےکے باوجود انہیں راستے سے واپس لوٹا دیا گیاہے۔

جب اس طرح کے عوامی مسائل سنتا ہوں کہ کہیں تو غیر قانونی طور پر نوجوان لاپتہ ہو رہے ہیں اور کہیں لوگوں کے ریاستی و آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالاجا رہا ہے اور ان سے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے تو ایسے میں مجھے شہید صحافت میاں عبدالرزاق کی شخصیت یاد آتی ہے۔

اپنی شہادت کے ایّام میں وہ مسلسل روحانیت کے موضوع پر قلم اٹھائے ہوئے تھے ، فنّی اعتبار سے وہ ایک کرائم رپورٹر تھے، شہادت کے وقت بھی وہ جرائم پیشہ افراد کا پیچھا کررہے تھے اور اسی دوران انہیں گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔

میاں عبدالرّزاق اگر چاہتے تو بڑے آرام سے موقع واردات سے غیر جانبدار بن کر گزر جاتے۔ وہ اپنی زندگی داو پر نہ لگاتے ، لیکن انہوں نے اپنی زندگی قربان کرکے قلمکاروں کے لئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں ، باشعور انسان غیر جانبدار نہیں رہ سکتا، ظالم کے ظلم کو دیکھ کر غیر جانبدار بن جانا در اصل ظالم کی ہی مدد ہے۔

کیا آج پورے ملک میں ایک میاں عبد الرزّاق بھی نہیں رہا جو منہ زور ٹرانسپورٹرز اور بھتہ خور مافیا کا پیچھا کرے ، کیا اب ہمارے درمیان کسی کے سینے میں بھی میاں عبدالرزاق کا دردمند دل نہیں رہا جو لاپتہ ہونے والے پاکستانیوں کے لئے آواز بلند کرے۔

یقیناً ہم سب اس وطن کے قلمی و علمی پاسبان ہیں اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے ہم سب کو مل کر اپنے اپنے فریضے کو انجام دینا ہوگا۔

صحافت ، ظالم و مظلوم کی جنگ میں غیر جانبدار بن جانے کا نہیں بلکہ مظلوم کی مدد و نصرت کا نام ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے