کردستان ریفرنڈم اورمستقبل کامنظرنامہ

پچھلے سو سالوں سے دنیا میں توڑ پھوڑ کا عمل بڑے زور و شور سے جاری ہے اور بیسیوں نئے ممالک مذہب ولسانیت کے نام پر وجود میں آ چکے ہیں ۔عالمی سطح پر جو سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے اس میں بڑے اور طاقتور ملکوں کی گنجائش بہت کم ہے کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کیلئے کسی وقت بھی چیلنج بن سکتے ہیں جب کہ چھوٹے ممالک کو کنٹرول کرنا ان سرمایہ د اروں کیلئے آسان ہے۔ سو جہاں کہیں سرمایہ دارانہ نظام کو معاشی مفادات ملنے کی توقع ہوتی ہے یا معاشی مفادات کو نقصان پہنچے کا احتمال ہو وہاں عدم استحکام اور داخلی انتشارکی کیفیت پائی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی جڑیں قرون وسطیٰ کے جاگیردارانہ نظام سے پیوستہ ہیں ۔

اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک علاقے کا جاگیر دار یا وڈیرہ اپنے زیر اثر علاقے میں شعور ، تعلیم اور سماجی ترقی کو محض اس لئے روکتا ہے کہ اس عمل سے اس کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو جائے گاسو اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کیلئے وہ استحصالی نظام کا محافظ بن کر منفی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے تاکہ اس کی طاقت اور اثرورسوخ برقرار رہے۔لوگوں کو مذہبی ، فرقہ وارانہ، لسانی ، نسلی ، قومیت پرستی اور جغرافیائی بنیادوں پر لڑانا اور تقسیم کرنا سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے۔

سادہ لوح مسلمان اکثر اسلام کو مسلمانوں کے درمیان قدر مشترک قرار دیتے ہوئے اسلامی ممالک کے اتحاد کی بات کرتے ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاستیں مذہب نہیں بلکہ مفادات کی بنیاد پر چلتی ہیں۔ اگر اسلام کے نام پر اتحاد مقصود ہے تو پھر مواخات مدینہ کی طرز پر اپنے محروم مسلمان بھائیوں کوحقوق دیں گے تو ہی ایسا اتحاد ممکن ہے ورنہ آپ لاکھ اسلام کا نعرہ لگاتے رہیں لیکن دوسری طرف اپنے مسلمان بھائی کا استحصال کرتے رہیں اور اس سے اتحاد کی توقع بھی رکھیں تو یہ محض حماقت ہو گی ۔

اس وقت مشرق وسطیٰ عالمی سیاست کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے جہاں مختلف عالمی و علاقائی دھڑے اپنی اپنی بالا دستی کیلئے برسرپیکار ہیں۔ شام کی مکمل تباہی کے بعد خطے کے دوسرے ممالک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے کردستان کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا ہے۔ کرد علاقے چار لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہیں اور کرد علاقوں کی آبادی 45 ملین افراد پر مشتمل ہے جبکہ بڑے شہروں میں دیار بکر، کرمان شاہ، کرکوک، سلیمانیہ اور وان شامل ہیں۔

اس وقت ترکی کی کل آبادی کا بیس فیصد، عراق کی کل آبادی کا بیس فیصد، ایران کی کل آبادی کا دس فیصد اور شام کی کل آبادی کا نو فیصد فیصد کردوں پر مشتمل ہے جبکہ کردوں کی کل آبادی کے 48فیصد لوگ ترکی میں ، 18فیصد عراق میں ، 24فیصد ایران میں ،چار فیصد شام میں جبکہ بیس لاکھ سے زائد کرد نسل کے لوگ مغربی ممالک میں رہتے ہیں جن کی اکثریت جرمنی میں آباد ہے۔کرد مسلمان ثقافتی ، تاریخی اور لسانی اعتبار سے ایرانی النسل ہیں۔ مذہبی اعتبار سے ان لوگوں کی اکثریت سنی عقائد رکھتے ہیں اور شافعی فقہ کے پیروکار ہیں۔سلطان صلاح الدین ایوبی بھی کرد نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔ کرد نسل کے لوگ اس وقت ایران، عراق ، شام اور ترکی میں پھیلے ہوئے ہیں اور کئی دہائیوں سے ان کی یہ خواہش ہے کہ انکی مختلف ثقافت ،زبان اور قومی شناخت کی بنیاد پر مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے کرد علاقوں پر مشتمل ایک الگ آزاد ریاست قائم کر دی جائے۔

اس مہم کا باقاعدہ آغاز سیاسی عدم استحکام کے شکارعراق سے کر دیا گیا ہے جہاں 25 ستمبر کو عراق سے آزادی کیلئے ریفرنڈم کرایا گیا جسے عراق، ایران،ترکی اور شام کی طرف سے مسترد کر دیا گیا ہے اور بظاہر امریکہ نے بھی ریفرنڈم کی مخالفت کی ہے۔عملی طور پر عراقی کردستان اس وقت عراق سے تقریباالگ ہو چکا ہے جہاں ریفرنڈم کے نتیجے میں نوے فیصد کردآبادی نے آزاد کردستان کیلئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔ کرد علاقوں پر قابض ممالک کی طرف سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں عرصہ دراز تک ایک معمول رہی ہیں دوسری طرف خود کرد بھی اپنے علاقوں میں موجود اقلیتوں اور اقلیتی لسانی گروہوں کے خلاف جارحیت پسندی کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔

عراق اور شام میں جاری عدم استحکام اور دولت اسلامیہ یا داعش کی جانب سے کی جانے والی تباہی اور دوسری طرف شام میں دہشت گرد تنظیم النصرۃ فرنٹ کی طرف سے کرد مرد، خواتین اور بچوں کے قتل کی حمائیت میں جاری ہونے والے فتوے نے کردوں کو آزادی کیلئے جواز مہیا کر دیا ہے ۔ کرد علاقے تیل اور دیگر معدنی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں چنانچہ انکی مکمل علیحدگی اور آزادی کا خواب اتنا آسان نہ ہو گا اور مستقبل میں اس علاقے کے اندر مزید شورش کی توقع کی جاسکتی ہے۔

اس وقت باقی عراق کی نسبت کردستان میں امن اور استحکام ہے۔کرد قیادت کی طرف سے منعقدہ حالیہ ریفرنڈم دنیا کو اپنے مسائل کی طرف متوجہ کرنے اور ہمدردیاں سمیٹنے کی ایک کاوش قرار دیا جاسکتا ہے۔بہر حال عراق کی حد تک کرد علاقوں کووسیع خود مختاری ملنے کے امکانا ت ہیں کیونکہ عراق اور عراقی کردستان دو الگ ممالک کی حیثیت سے کنفیڈریشن قائم کرنے پر رضامند نظر آرہے ہیں اور کردستان کے صدر مسعود بارازانی اور عراقی حکومت نے اس پر رضامندی کا اظہار بھی کیا ہے۔

سردست اگر ایسا ہو جاتا ہے تو کئی دہائیوں کی جدو جہد کے بعد کردوں کیلئے یہ ایک عظیم پیش رفت ہو گی جو آگے جا کر ان کی مکمل آزادی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ کنفیڈریشن کی صورت میں کرد اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں بغداد کی اجازت کے بغیردیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کی آزادانہ تجارت کر سکیں گے۔عراق کو اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس کی وحدت بھی متاثر نہیں ہو گی اور خطے میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف اسے کردستان کی حمائت حاصل ہو گی، نیز عراق کو کردستان سے متصل سمندر اورکردستان کے راستے یورپ کی طرف زمینی رسائی حاصل ہو سکے گی۔موجودہ صورتحال میں کنفیڈریشن عراق اور کرد مسئلے کا بہترین حل ہے اور اگر کنفیڈریشن پر اتفاق نہ ہوا تو یہ علاقہ شدید بد امنی کا شکا ر ہو سکتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے