توکل یا خود فریبی؟

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے میری ون ٹو ون ملاقات ساڑھے چار سال کے طویل وقفے کے بعد ہوئی۔ لندن میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تازہ ترین حالات اور شریف خاندان کے خیالات جاننے کا یہ سنہری موقع تھا۔ میاں صاحب سے میری آخری ون ٹو ون ملاقات جاتی امرا میں 2013کے انتخابات سے پہلے ہوئی تھی۔ وہ وزیراعظم بنے تو اتنے مصروف رہے کہ کبھی علیحدہ ملاقات کاموقع نہ مل سکا۔ ہاں دو تین سرسری صحافتی ملاقاتیں ہوئیں اور وہ بھی پریس کانفرنسز کے موقع پر یا پھر ایک بیرون ملک سفر کے دوران۔ ساڑھے چارسال کےوقفے میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کا عروج اورپھرنااہلی کے عدالتی فیصلے پر ان کا استعفیٰ،یہ سب موضوع گفتگو رہا مگر پابندی یہ ہے کہ انہوں نے اس ساری گفتگو کو آف دی ریکارڈ قراردے دیا۔میرا مسئلہ یہ ہے کہ گھوڑا گھاس نہ کھائے تو کیا کھائے؟ صحافی خبر نہ دے، تبصرہ نہ کرے تو کیا کرے؟ اس لئے آف دی ریکارڈ کی پابندی سے بچ بچا کر اپنے تاثرات بیان کرتا ہوں۔ ایجویر روڈ لندن میں حسن نواز کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں میاں صاحب کے دونوں بیٹے حسین اور حسن موجود رہے اور سیاسی گفتگو میں اپنا مکمل حصہ ڈالتے رہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ دونوں بھائی جنہیں قصداً سیاست سے دور رکھاگیا تھا اب مکمل طور پر عملی سیاست میں آچکے ہیں۔
بطوروزیراعظم طیارے میں ان سے ہونے والی سرسری ملاقات اور لندن میں دو گھنٹے طویل گفتگو کے دوران میں نے میاں صاحب میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی ہے (یہ تبدیلی دو اور اہم ترین صحافتی شخصیات نے بھی نوٹ کی ہے اور ہم نے اس کو آپس میں ڈسکس بھی کیا) اور وہ تبدیلی ہے کسی انہونی کا انتظار، کسی معجزے سے حالات کےبدلنے کی توقع، یا پھر یوں کہئے کہ یہ ایقان کہ آخری فتح ان ہی کی ہوگی۔ نوازشریف کا کوئی بھی مخالف اسے خودفریبی قرار دے گا جبکہ ان کا حامی اسے توکل اور تیقن قرار دے گا۔ مثال کےطور پر تاجکستان جاتے ہوئے انہو ںنے میرے ایک کالم ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ پر اعتراض کیا تھا کہ اس میں غلط تجزیہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے میں نے اس کالم میں میاں صاحب کی حکومت کے اگست میں رخصت کئے جانے کی بات کی تھی۔ تبصرہ کرتے کرتے میاں صاحب نے بڑے تیقن سے کہا تھاکہ ان کے خیال میں فیصلہ ان کے خلاف نہیں آئے گا اور ان کی حکومت کے جانے کاکوئی چانس نہیں۔ خیریہ معاملہ تو ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور فیصلہ ان کے اندازے کے مکمل طور پر خلاف آیا۔ اب بھی وہ دلیل اور مکالمے کےبعد بار بار یہی کہتے رہے کہ آپ دیکھئے گا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ان کا خیال ہے کہ بہت جلد سب کچھ بدل جائےگا۔ ان کی رائے ہے کہ ان کاپارٹی صدر بننا اسی طرح کا ایک معجزہ ہے جس کی انہیں توقع نہیں تھی مگر قدرت نے ایسا کرکے ان کےموقف کو فائدہ پہنچایا۔
جو لوگ میاں نوازشریف کو ’’بھولا‘‘ سمجھتے ہیں وہ بہت غلطی پر ہیں۔ ان کے چہرے کی معصومیت ان کے اندر کی سمجھداری کو چھپائے رکھتی ہے۔ وہ اس خطے کے سینئر ترین اور تجربہ کار ترین سیاستدان ہیں۔ مودی ہوں یا چینی صدر یا سابق افغان صدر کرزئی سیاسی کیرئیر کے اعتبار سے ان سے جونیئر ہیں لیکن ملنے ملانے میں اکثر لوگ انہیں ’’سادہ‘‘ قرار دے دیتے ہیں حالانکہ وہ بہت گہرے انسان ہیں۔ سیاست میں فتح اور شکست تو ہوتی رہتی ہے لیکن ان کی سمجھداری کا کیا یہ ثبوت کافی نہیں کہ وہ پاکستان کے واحد شخص ہیں جو تین بار وزیراعظم بنے ہیں۔ ملاقات میں جو بات مجھے بار بار محسوس ہوئی کہ انہیں اپنی نااہلی سے بہت گہرا گھائو لگا ہے۔ اس لئے وہ مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے سیاسی فتح سے اپنا یہ زخم بھرنا چاہتے ہیں۔ وہ دل اور دماغ کی گہری کشمکش میں گرفتار لگتے ہیں۔ دل کہتا ہے کہ لڑو اور اپنے آپ کو صحیح ثابت کرو۔ دماغ مصلحت کا سبق دیتا ہے کہ چوٹ اس وقت مارو جب لوہا گرم ہو اور یہ وقت انتخابات کے قریب آئے گا۔
نواز شریف مشورے تو سب کے سنتے ہیں۔ فیصلہ اپنی مرضی کا کرتے ہیں۔ مجھے بتایا کہ جی ٹی روڈ پر سفر کا فیصلہ ان کا ذاتی تھی۔ خطرات تھے ،سب ساتھیوں نے منع بھی کیا تھا۔ مگر درست راستہ جی ٹی روڈ کے ذریعے ہی جانے کا تھا۔ نواز شریف کو اندازہ تو ہو گا کہ وہ مزاحمتی سیاست کی طرف جاتے ہیں تو ان کے چند جانثاروں کے علاوہ ن لیگ کے اقتدار پسند اور مصلحت پسند گرو ہ بہت بدمزہ ہوں گے۔ ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ الیکشن تک وقت گزارا جائے۔ ن لیگ الیکشن جیتے گی تو حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ مگر اس گروہ کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ الیکشن تک کا طویل عرصہ کیسے پر امن طور پر گزرے گا۔ یہاں تو شاہد خاقان عباسی حکومت کا ایک ایک دن اور ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو تا جا رہا ہے۔
شریف خاندان ایک طرف تو بیگم کلثوم کی تیمار داری میں مصروف ہے تو دوسری طرف انہیں یہ بھی اندازہ ہے اگر میاں نواز شریف عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے لندن سے بار بار لاہور آتے رہے تو کسی بھی دورے کے دوران انہیں گرفتار کر کے جیل ڈالا جا سکتا ہے۔ مشورہ بینوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کا جیل سے باہر رہنا ن لیگ کیلئے فائدہ مند ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر پارٹی کو گائیڈ لائن دیتے رہیں گے اور گاہے بگاہے برطانیہ کی آزادیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی بیانات بھی دیتے رہیں گے۔ وہ اگر جیل جاتے ہیں تو پھر شاید یہ سب کچھ نہ ہو سکے۔ دوسری طرف مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کی صلاح دینے والوں کا خیال ہے کہ نواز شریف جیل جاتے ہیں تو ان کا جیل میں ہر دن مخالفوں پر بھاری ثابت ہو گا اور ان کے جیل میں رہنے سے انتخابات کے دوران ہمدردی کی لہر اٹھے گی اور یوں ن لیگ کو بھرپور سیاسی فائدہ ہو گا اور نواز شریف دوبارہ سے ہیرو بن کر ابھریں گے۔ مصلحت پسندوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کے جیل جانے سے مسلم لیگ ن کے کمزور ہونے کا تاثر ملے گا اور یوں اقتدار پرست ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جا سکتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ابھی نواز شریف ان دونوں آپشنز پر غور و فکر کر رہے ہیں۔
نواز شریف کی 35سالہ سیاست میں ان کے حالات کبھی بھی اتنے خراب نہیں تھے مگر اب بھی ان کی حس مزاح اور آنکھوں کی چمک میں فرق نہیں آیا۔ وہ قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہتے ہیں مگر اتنی مصلحت پسندی بھی نہیں کرنا چاہتے کہ سیاست میں بہادری کا تمغہ ان سے چھن جائے۔
مجھے یوں لگا کہ نواز شریف اقتدار سے باہر نکل کر کئے جانے والے اپنے سیاسی فیصلوں پر خوش ہیں مگر اقتدار کے دوران کئے جانے والے کئی سیاسی فیصلوں پر مطمئن نہیں۔ ان کے پاس انکشاف انگیز کہانیوں اور خبروں کا ایک خزانہ ہے۔ اپنے سیاسی مخالفوں کی منصوبہ بندی اور ان کے معمولات کا انہیں مکمل علم ہے۔ پاناما کیس میں ان کے خلاف پس پردہ کیا ہوا، اس کے بارے میں بھی انہیں معلومات حاصل ہیں۔ ان کے پاس بہت بڑی بڑی شخصیات کے ایک دوسرے سے رابطوں اور کئی اداروں کی اپنے کردار سے بڑھ کر کام کرنے کی تفصیل بھی موجود ہے۔ فی الحال یہ سب کچھ ان کے سینے میں دفن ہیں مگر کوئی دھماکہ، کوئی تبدیلی یا کوئی واقعہ یہ راز باہر بھی لا سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ سربستہ راز ایسے ہیں کہ ان کے امین کی زندگی کو ہر وقت خطرہ ہے۔ میاں صاحب توکل پر یقین رکھتے ہیں یا بقول ان کے مخالفوں کے وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ دونوں صورتوں میں ان پر شدید دبائو ہے دیکھیں وہ کب اس سے آزاد ہوتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے