بھارت میں میڈیا کی درگت

2014ء کے عام انتخابات کی کوریج کے دوران میں بھارت کی مشرقی ریاست بہار کے ایک قصبہ سمستی پورکے چائے خانے میں ایک مقامی سیاسی کارکن کے ساتھ محو گفتگو تھا کہ اس نے کہا کہ اگر نریندر مودی ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو یہ میڈیا کی جیت ہوگی۔ یہ جہاندیدہ کارکن ویسے تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ہی ہمدر د تھا، مگر دہلی سے آئے ایک جرنلسٹ کے سامنے اس نے دل کے پھپھولے کھول کر رکھ دیئے۔ اس نے دلیل دی، کہ یہ انتخابات تو زمین کے بجائے ٹی وی اسٹوڈیوز اور کارپوریٹ کمیونیکیشن کی فرموں کے دفاتر میں لڑے جارہے ہیں۔ مغربی ریاست گجرات کی ترقی کے ماڈل کا ذکر کرتے ہوئے، اس نے مزید کہاکہ مبالغہ آرائی کو حقیقت کا روپ جس طرح میڈیا نے اس بار دیا ہے ، اسکی نظیر شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ خیر ایک ماہ بعد جب انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا، میڈیا واقعی کامیاب ہوگیا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور نریندر مودی میں گو کہ خاصی مماثلتیں ہیں، مگر میڈیا پر گرفت کے حوالے سے مودی امریکی صدر سے بازی لے گئے ہیں۔

کانگریس کے زیر قیادت متحدہ ترقی پسند اتحاد کے 10سالہ دور میں بدعنوانیوں کے ایک طویل سلسلے اور کانگریس کی خاندانی سیاست سے عوام اور خاص طور پر مڈل کلاس کی بے زاری نے بھی مودی کیلئے راہ ہموار کردی۔ میڈیا نے گجرات (جہاں مودی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز تھے) کو ترقی اور خوشحالی کیلئے ماڈل قرار دیکر ایسی خوشنما تصویر پیش کی کہ کارپوریٹ اور مڈل کلاس کے علاوہ پسماندہ اور دبے کچلے عوام کو بھی مودی ہی نجات دہندہ نظر آئے۔میڈیا کا پروپیگنڈہ اس قدر تھا، کہ بہار کے ہی دربھنگہ ضلع کے ایک دوردراز علاقہ پالی کے ایک گاوٗں کے مکین صرف اسلئے مودی کو ووٹ دے رہے تھے، کہ وہ انکا دودہائیوں سے خراب پڑا بجلی کا ٹرانسفارمر ٹھیک ہو جائیگا۔

مگر اقتدار میں آتے ہی مودی نے میڈیا کی جو حالت کردی، شاید ہی بھارت کی تاریخ میں کبھی ہوئی ہو۔ نیوز رومز میں ایک غیر اعلانیہ سنسرشپ اور نوکری سے نکالنے کا خوف اس قدر طاری ہے، کہ صحافی جس کا کام ہی حکومت کا احتساب کرنا تھا، اب تقریباً حکومت کا ہی عضو بن گیا ہے۔ وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالتے ہی فرمان جاری کیا، کہ غیر ملکی دوروں پر سرکاری میڈیا کے کیمرہ مین کے علاوہ کوئی بھی صحافی ان کے ہمراہ نہیں جائیگا۔ حال ہی میں نو منتخب صدر اور نائب صدر نے بھی مودی کی تقلید کرتے ہوئے دہاےؤں سے چلی آرہی اس روایت کو بند کردیا۔ میڈیا ویسے بھی رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات خود ہی برداشت کرتا تھا، مگر چونکہ وزیر اعظم کے دیو پیکر ایئرانڈیا ون میں سییٹیں خالی ہی ہوتی تھیں، اسلئے صرف کرایہ نہیں دینا پڑتا تھا۔ واپسی سفر پر صدر، نائب صدر یا وزیر اعظم میڈیا کے چیمبر میں آکر حالا ت حاضرہ پر گفتگو کرتے تھے۔ ایک طرح سے میڈیا کیلئے حکومت کا موقف جاننے اور اعلیٰ سطح پر رابطے کا نایاب موقع ملتا تھا۔ کئی مواقع پر یہ گفتگو آف ریکارڈ بھی ہوتی تھی اور اسرار سے پردے اٹھتے تھے۔ مودی نے نہایت چالاکی کے ساتھ وزیراعظم دفتر کیلئے میڈیا ایڈوائزر یا آفیسر ہی مقرر نہیں کیا۔اس لئے اب انتظامی امور کے اس سب سے بڑے دفتر سے خبر لانا ہی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔

عموماً اخباروں کے دفاتر میں سینئر ترین صحافی وزیر اعظم دفتر کو کور کرتا تھا۔ اب صور ت حال یہ ہے، کہ جس دن وزیر اعظم کوئی ٹویٹ نہیں کرتا ہے یا پریس انفارمیشن بیورو پریس ریلیز جاری نہیں کرتا ہے، تو اس سینئر ترین صحافی کے پاس خبر ہی نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کی سالانہ پریس کانفرنس کی روایت کو بھی ختم کردیا گیا ۔ میڈیا کے ساتھ وزیر اعظم اور ان کے دیگر کابینی رفقا کا انٹر ایکشن برائے نام ہے۔ لگتا ہے کہ 2002ء کے مسلم کش گجرات فسادات کے بعد میڈیا نے جس طرح مودی کو آڑے ہاتھوں لیاتھا، وہ اس کا بدلہ چکا رہے ہیں۔

بھارت میں مین اسٹریم میڈیا کارپوریٹ اداروں کی ملکیت میں ہے، اسلئے بھی ان کو کنٹرول کرنا حکومت کیلئے آسان ہو جاتا ہے۔ ایک بڑے اخبار ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر بوبی گھوش کو جس طرح حا ل ہی میں برخاست کیا گیا وہ اس کی ایک مثا ل ہے۔ گھوش نے اخبار اور اسکی ویب سائٹ پر ہندو انتہاپسندی کے خلاف ایک طرح سے جنگ چھیڑی ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی وزیروں نے اخبار کی مالکن شوبھنا بھارتیہ سے شکایت کی تھی۔ مگر اسنے اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی میں مداخلت کرنے سے انکار کیا۔مگر جب وہ وزیر اعظم کو ہندوستان ٹائمز سمٹ میں مدعو کرنے کی غرض سے ملی، تو ذرائع کے مطابق ان کو بتایا گیاکہ مودی تب تک شرکت نہیں کریں گے، جب تک بوبی گھوش ہندوستان ٹائمس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ اس سے قبل ملک کے سب سے بڑے میڈیا ادارے ٹائمز آف انڈیا گروپ کو بھی مودی نے ایسی خفت کا سامنا کروایا، جو اس کے مالکان چبا گئے۔اکنامک ٹائمز کے گلوبل بزنس سمٹ شروع ہونے سے محض ایک گھنٹہ قبل مودی نے شرکت کرنے اور افتتاحی تقریر کرنے سے انکار کردیا۔ ان کی دیکھا دیکھی سمٹ کے دیگر سیشن میں مدعو کابینہ کے وزراء نے بھی شرکت کرنے سے معذوری ظاہر کی۔جس کی وجہ سے بیشتر بزنس ہاوسز سمٹ کی اسپانسرشب سے دستبردار ہوگئے۔ بعد میں ایک نجی محفل میں ایک سینئر وزیر نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ٹائمز آف انڈیا اور اس کے مالکان کو ایک مسیج دینا ضروری تھا۔ کیونکہ اس سال کے اوائل میں بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں اس اخبار نے سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کومودی سے زیادہ کوریج دی تھی۔

مجھے یاد ہے، کہ دیگر میڈیا اداروں کو اس اخبار کے مالکان کے خلاف کچھ ڈاکومنٹ بھی فراہم کئے گئے ، جس میں بتایا گیا، کہ کس طرح اکھلیش یادو نے بطور وزیر اعلیٰ بینٹ کولمین کو ایک عالمی یونیورسٹی بنانے کیلئے دہلی سے متصل 60ایکڑ کی زمین رعایتی نرخوں پر فراہم کی۔ معروف نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے خلاف تو مرکزی تفیشی بیورو اور دیگر ایجنسیوں نے تو مورچہ کھولا ہی ہے۔ یہ بھی خبر آرہی ہے کہ اس کے مالکان کو ڈرادھمکا کر چینل کو بیچنے کیلئے مجبور کرایا جا رہا ہے۔

حال ہی میں بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے جس دن گجرات سے ایوان بالا کیلئے نامزدگی داخل کی، اسی دن ٹائمز آف انڈیا اور ڈی این اے نے اپنی ویب سائٹ پر جائیداد سے متعلق ان کے ذریعے دائر کیا گیا حلف نامہ اپ لوڈ کیا اور اس کا موازنہ ان کے پچھلے حلف نامہ سے کیا۔ جس کے مطابق ان کی جائیداد میں پچھلے کئی سالوں میں 300 گنا اضافہ ہو ا ہے۔ اس نیوز کے اپ لوڈ ہوتے ہی ٹرولز اور گالی گلوچ کا ایسا سیلاب آیا، کہ ایک گھنٹہ کے اندر دونوں میڈیا اداروں کو اس کو ویب سائٹ سے ہٹانا پڑا۔صوبائی دارلحکومتوں میں تو سرکاری اشتہار کی فراہمی کو درباری صحافت سے جوڑا گیا ہے۔ جوں ہی کسی چینل یا اخبار نے حکومت کے خلاف شور مچایا تو اشتہار روک دیا۔ اب ادارے کا دَم گھٹنے لگا تو مالک، ایڈیٹر بھاگ کر حکومت کے پاس گئے ۔ سرکار نے اشارہ دیا کہ اگر اشتہار چاہیے تو نکتہ چینی بند کیجیے اور قصیدہ گوئی کیجیے۔ اس طرح کچھ مالکان سرمایہ داروں کے پاس گئے کہ ہماری مدد کر دیجیے۔ سرمایہ دار نے تھیلی کھول دی۔ جب ادارہ قرضہ میں ڈوب گیا تو مٹھی بند کر دی۔ اب جب سانس لی تو مالک یا ایڈیٹر نے فریاد کی تو جواب ملا کہ حکومت سے ہمارا یہ کام کرواوتو اور پیسہ مل جائے گا۔

اینکر اور صحافی بھی لاکھوں کی تنخواہ کے عادی ہو چکے ہیں ۔بس اب کیا تھا زمینی حقیقتوں کو بھول کر گلا پھاڑ پھاڑ کر سرکار کی قصیدہ گوئی یا ایجنڈا نافذ کرنے لگ گئے۔شاید ہی کوئی میڈیا کا ادارہ اس وقت صحافیوں کیلئے گراؤنڈ رپورٹنگ کیلئے بجٹ فراہم کرتا ہو۔ بصد افسوس کہ صحافت کے میدان میں نوکریاں اب صلاحیت پر نہیں بلکہ اس بنا پر ملتی ہیں کہ کون اینکر یا کون صحافی کس وزیر یا وزیر اعظم سے کتنا قریب ہے۔مگر تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے چند برس قبل ایک کارپوریٹ کمیونیکیٹر نیرارادیا کی افشا شدہ ٹیلی فون ریکارڈنگ نے بھارتی میڈیا کے مقتدر افراد کے مکروہ چہروں سے نقاب اتاری۔ یہ واضح ہوگیا کہ کس طرح یہ صحافی کارپوریٹ اداروں کی لابی کا کام کرتے تھے اور ان کے کہنے پر حکومت میں وزیروں اور افسروں کی تقرریوں میں بھی مداخلت کرتے تھے۔اس اسکینڈل میں ملوث سینئر صحافیوں نے جرنلزم کو جو دھبہ لگایا شاید ہی کبھی دھل جائے۔ مودی نے ان سمیت سبھی صحافیوں کو اپنی اوقات دکھلا کر حکومت تک ان کی رسائی ہی بند کروادی اور یہ بھی ثابت کردیا کہ عوام تک رسائی کیلئے وہ ان کا مرہون منت نہیں ہے۔

پچھلے تین سالوں میں تقریباً دس صحافیوں کو بھارت میں اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔ مدھیہ پردیش میں مسابقتی امتحانات کے ایک اسکیم کی تفتیش کررہے ایک ٹی وی جرنلسٹ کی بھی پچھلے سال پراسرار حالات میں موت ہوگئی تھی۔ کہنے کو تو بھارت میں پریس کو پوری آزادی حاصل ہے۔ مگر صحافیوں کی ایک عالمی انجمن Reporters without borders کے مطابق صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے 136 ویں مقام پر ہے۔ حالیہ برسوں میں صحافیوں کے تحفظ کا ریکارڈ مزید خراب ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ ملک میں ہندو قوم پرستی کا ابھار ہے۔

ریکارڈ کے مطابق فلسطین میں بھی صحافیوں کے حالات بھارت کے صحافیوں سے بہتر ہیں ۔حتیٰ کہ قطر، متحدہ عرب امارات، جنوبی کوریا اور اسرائیل کا ریکارڈ بھی بھارت سے اچھا ہے۔ حال ہی میں سینئر خاتون صحافی اور ہفت روزہ ’’گوری لنکیش پتریکے‘‘کی ایڈیٹر گوری لنکیش کے وحشیانہ قتل نے صحافی برادری کو بری طرح جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں تجزیہ کرنے والے صحافی بھی ، جو ناک پر مکھی کو بھی بیٹھنے نہیں دیتے تھے، 2 اکتوبر کو مہماتما گاندھی کے جنم دن کے موقع پر سڑکوں پر آگئے۔ بھارتی میڈیا کو ناز برداری کی اتنی لت لگی ہوئی ہے کہ مشکل سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سینہ سپر ہونے کا کردار نبھانے کا ہنر جانتا ہو۔

1975ء سے 1977ئتک جب آنجہانی اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرکے سینسرشپ کا قانون نافذ کیا، تو بجائے مزاحمت کرنے کے میڈیا نے ہتھیار ڈال دیئے۔ بی جے پی کے معمر لیڈر ایل کے ایڈوانی کا مشہور مقولہ ہے کہ’’ میڈیا کو جھکنے کیلئے کہا گیا تھا، مگر وہ پیٹ کے بل لیٹ گیا۔‘‘ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں میڈیا پر دراصل ’’ پیدائشی مراعات یافتہ طبقات کا غلبہ ہے جنہیں عرف عام میں’’ اعلی ذاتیں ‘‘ کہا جاتا ہے جنہیں اس کے لئے مذہبی جواز بھی حاصل ہے ۔

میڈیاسٹڈیز گروپ نے طبقاتی نمائندگی کے جاننے کا ایک سروے کرایا تھا جس میں معلوم ہوا کہ مین اسٹریم اخباروں اور نیوز چینلوں میں برہمن ، بنیوں ، کائستھوں دیگر اعلی ذاتوں کا مکمل غلبہ ہے جن کی مجموعی آبادی 15فی صد بھی نہیں ہے لیکن وہ زندگی ہر شعبہ میں حاوی ہیں اسی لئے کسی بھی ادارہ کا کوئی نمائندہ کردار سامنے نہیں آتا ۔ 37میڈیا اداروں کے سروے میں بتایا گیا کہ ایڈیٹر یا نیوز رومز میں فیصلہ سازی کی سطح پر 315صحافیوں میں کوئی دلت نہیں تھا، جبکہ مسلمانوں کی تعداد 3فی صد تھی۔ برہمن جو کل آبادی کا 3.5فی صد ہیں ان چنیدہ اداروں کے نیوز رومز میں ان کا تناسب 49فیصد پایا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے