افغانستان کی نانی

پورا نام تھا۔ Nancy Hatch Dupree دس ستمبر کو 89 سال کی عمر میں جہان فانی اور اپنے محبوب افغانستان سے رُخصت ہوئیں۔ اگر تو اپنے پیچھے یادوں کے جو نقوش چھوڑ گئی ہیں وہ انسانی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ نوے کی دہائی میں ایک کمزور سی بڑھیا پشاور کے بازاروں میں چلتی پھرتی نظر آتی تھی۔ سفید فام امریکی خاتون۔ روایتی شلوار قمیض میں ملبوس۔ بکھرے ہوئے سفید بال جیسے پرندوں کا گھونسلا۔ بچوں والا معصوم چہرہ۔ مگر بولے تو گرجدار۔ بلند آہنگ۔ پشاور کے بازاروں میں مارے مارے پھرنے کا مقصد؟ کاغذات کی تلاش۔ ہر قسم کے کاغذات کی تلاش۔ رسالے۔ اخبارات۔ سرکاری رپورٹیں۔ پوسٹر، پمفلٹ۔ تصاویر۔ اُسے کچھ غرض نہ تھی کہ یہ کاغذات آگ جلانے کے لئے اکٹھے کئے گئے یا گوشت لپیٹنے کے لئے۔ صرف دو شرائط کو پورا کرنا درکار تھا۔ ایک یہ کہ کی تحریر پڑھی جا سکے اور دُوسری شرط یہ کہ اُن کا تعلق افغانستان کی جدید تاریخ سے ہو۔
مذکورہ بالا کام اس بے چاری خاتون سے پتھر کی سِل بن کر اس طرح چپک گیا کہ مرتے دم تک وہ سوتے جاگتے اسی کام میں ہل چلانے والے محنتی بیل کی طرح جُتی رہیں۔ اسے عبادت سمجھ کر کیا۔ خشوع و خضوع کے ساتھ جس کا مطلب ہے سو فیصدی توجہ اور انہماک۔ دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ۔ Nancy کا تحقیقی مقصد یہ تھا کہ 1979 کے بعد (جب افغانستان میں رُوسی افواج داخل ہوئیں) اُس ملک کی حالیہ تاریخ کو دستاویزات کی مدد سے محفوظ کر لیا جائے۔امریکی فوجی مداخلت۔ طالبان کا دور اقتدار۔ مقامی جنگجو سرداروں (War Lords)کا عروج۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس قدر ابتری پھیلی اور امن و امان کے اتنے پرُزے اُڑے کہ بڑے بڑے سخت جان لوگ کابل چھوڑ کر پشاور (یااس سے کہیں زیادہ دور یعنی امریکہ) جا بسے مگر افغانستان کی نانی نے کابل میں پکے ڈیرے ڈال دیئے۔
Nancy پشاور سے جو ہزاروں کاغذات اکٹھے کرتی تھی۔ وہ بوریوں میں بند کر کے اور گھوڑوں پر لاد کر درہ خیبر کے ذریعہ کابل یونیورسٹی میں اُن کے بنائے ہوئے ادارہ کی عمارت تک پہنچائے جاتے تھے۔ہر ہفتہ۔ ہر ماہ۔ ہر سال۔ درختوں کے جھنڈ میں گھری ہوئی اور ہرات کے سفید سنگ مرمر سے بنی ہوئی قلعہ نما عمارت جو اس بلند حوصلہ اور اپنی دُھن کی پکی خاتون نے خود بنوائی تھی۔ ظاہر ہے کہ ہتھیلی پر تو سرسوں نہیں جمائی جا سکتی۔ مطلوبہ دستاویزی مواد اکٹھا کرنا جوئے شیرلانے سے کم مشکل اور صبر آزما اور دقت طلب نہ تھا۔ وہ افغانستان حکومت کے ہر سرکاری محکمہ سے مستقل برسر پیکار رہتی تھی۔ عام سرکاری افسروں کا تو کیا ذکر وہ افغان حکومت کے وزیروں پر بھی بے دریغ لاٹھی چارج کرتی تھیں اور غصہ بھرے لہجہ میںپوچھتی تھیں کہ یہ کام کیوں ہوا؟ وہ کام کیوں نہیں ہو سکتا؟ نینسی کی لڑائی جھگڑے نے اتنا طول پکڑا کہ ان کے تند و تیز جملوں کا نشانہ بننے والے یہ بھول گئے کہ ”حملہ آور‘‘ نہ صرف غیر ملکی ہے بلکہ ایک خاتون بھی ہے جسے افغان معاشرے میں جو مرتبہ دیا جاتا ہے اُس کے بارے میں مروتاً کچھ نہ لکھا جائے تو مناسب ہوگا۔ یہ نتیجہ اخذ کرناہر گز مشکل نہ ہوگا کہ افغان حکومت اُنہیں نہ ختم ہونے والی درد سر اور اپنے پہلو میں مستقل چبھنے والا تیز دھار کانٹا (انگریزی زبان میں Nuisance ) سمجھ کر برداشت کرنے کی عادی ہو گئی۔ اُن کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ اُسامہ بن لادن جیسے شخص کو بھی کابل میں سُرنگیں کھودنے کی اجازت طلب کرنے کی ضرورت پڑی تو Nancy سے رابطہ قائم کیا اور اُن سے سفارش کروائی۔
ظاہر ہے کہ مذکورہ تحقیقی مرکز کے قیام کے لئے بھاری رقم درکار تھی۔ اس خاتون کا دست سوال شمالی یورپ کے دو ممالک Estonia اور ناروے کی حکومتوں کے عطیات تک بھی جا پہنچا۔ 25 لاکھ ڈالرز کی ضرورت تھی اور اس رقم کے حصول میں افغانستان کے اُس وقت کے صدر حامد کرزئی نے بھی Nancy کی ہر ممکن مدد کی۔یہ محض اتفاق تھا کہ Nancy افغانستان جا پہنچی اور اُسے اپنا دل دے بیٹھی۔ 1962 ء میں وہ ایک امریکی سفارت کار کی بیوی کی حیثیت میں کابل آئی اور اُس کا ایک دلفریب مگر تباہ حال ملک کے ساتھ عمر بھر کی دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔ وہ رشتہ وقت گزرنے کے ساتھ اور مضبوط اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ Nancy کا پہلا کارنامہ یہ تھا کہ اُس نے Bamiyan کے مقام پر گوتم بدھ کے بڑے مجسموں،جو پہاڑوں کو تراش کے بنائے گئے تھے ،کے بارے میں کمال کا تعریفی کتابچہ لکھا۔ جس کا مقصد سیاحوں کی راہنمائی کرنا تھا۔ Nancy یہ جملہ بار بار دُہراتی تھی کہ جو قوم اپنی تاریخ سے واقف نہ ہو۔ اپنی ثقافت کا احترام نہ کرے۔ اپنے تہذیبی سرمایہ (Heritage) کی حفاظت کرنے کا ہنر بھول جائے وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہتی۔ افغانستان سے محبت اُن کے ازدواجی رشتہ پر غالب آئی۔ انہوں ے اپنے خاوند سے طلاق لے کر افغانستان کے دفن شدہ تہذیبی سرمایہ کی کھدائی کرنے والے ہر Archaeologist (جس کا نام پہلے Louis Dupree تھا) سے شادی کر لی۔ دُوسرے شوہر کے کارنامے اپنی جگہ مگر ہماری ہیرو خاتون نے افغانستان کی تاریخ (یونانی۔ بدُھ مذہب سے وابستہ اور اسلامی)پر پانچ اتنی اچھی کتابیں لکھیں کہ وہ اُن کا نام ابد تک زندہ رکھیں گی۔ بدقسمتی سے آنے والے واقعات نے نہ صرف کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی آخر میں بلکہ اس نیک دل خاتون کا دل بھی توڑ دیا۔ طالبا ن نے گوتم بدھ کے مجسموں کو توپوں کی گولہ باری سے اُڑا دیا۔ قومی عجائب گھر پر پھر راکٹ برسا کر اُسے تباہ و برباد کر دیا ۔ جو نودرات بچ گئے وہ لٹیروں کے ہاتھ لگ گئے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ Nancy کی توجہ کا مرکز افغان عوام تھے۔ وہ پڑھے لکھے نہ ہوں تو نہ سہی وہ ذہین اور سمجھدار تو ہیں اور سارا وقت اپنی صلاحیت کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ Nancy کا مرکز اُنہیں صحت، خوراک اور زراعت کے بارے میں کتابیں اور پمفلٹ ارسال کرتا رہتا تھا۔ نہ ٹوٹنے والی قطار کی طرح۔ 1989 میں اُن کا شوہر وفات پا گیا تو اُس کا مشن اس بی بی نے سنبھال لیا اور اس فرض کی ادائیگی کا حق اس طرح ادا کیا کہ جب وفات پائی تو برطانوی اور یورپی اخبارات میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے۔ اُنہیں افغانستان کے دیسی ٹوٹکوں پر اتنا بھروسہ تھا کہ جو بچہ آشوب چشم کے مرض کا شکار دیکھتی تھیں۔ تو اُس کی آنکھوں میں تازہ بنائی ہوئی تگڑی چائے کے قطرے ڈال کر اُسے صحت یاب کر لیتی تھیںاور بچہ اپنی جڑی ہوئی آنکھیں کھول دیتا تھا۔ المیہ ہے کہ آنکھیں کھولنے والی نانی نے اب اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اب افغانستان کے بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی بند آنکھیں کون کھولے گا؟ افغانستان میں نرگس کے پھول تو اب بھی کھلیں گے اور کھلتے رہیں گے مگر وہ ہزاروں برس اپنی بے نوری پر روئیں گے۔ افغانستان کے سر سے نانی کا مہربان سایہ اُٹھ گیا۔اب ہم کس طرح اور کہاں سے اِن خوبیوں کی مالک خاتون کو لائیں۔ جسے Nancy جیسا کہہ سکیں۔
Nancy کا تحقیقی مقصد یہ تھا کہ 1979 کے بعد (جب افغانستان میں رُوسی افواج داخل ہوئیں) اُس ملک کی حالیہ تاریخ کو دستاویزات کی مدد سے محفوظ کر لیا جائے۔امریکی فوجی مداخلت۔ طالبان کا دور اقتدار۔ مقامی جنگجو سرداروں (War Lords)کا عروج۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس قدر ابتری پھیلی اور امن و امان کے اتنے پرُزے اُڑے کہ بڑے بڑے سخت جان لوگ کابل چھوڑ کر پشاور (یااس سے کہیں زیادہ دور یعنی امریکہ) جا بسے مگر افغانستان کی نانی نے کابل میں پکے ڈیرے ڈال دیئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے