الوداعی کلمات

میرے سامنے گیارہ سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہے اور اس پر دوسرے فاضل دوستوں کی طرح مجھے بھی کچھ کہنا ہے، لیکن اتنی ضخیم کتاب کا عطر دس منٹ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ عمران کامیانہ قابلِ داد و مبارکباد ہیں کہ انقلاب روس کی پہلی صدی مکمل ہونے پر انھوں نے اس ضخیم اور مشکل کتاب کا ترجمہ کر کے، ان طبقات کو بھی اس سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا جو انگریزی سے ناواقفیت کے سبب، انقلابِ روس کی بہت سی سچائیوں اور باریکیوں سے واقف نہ تھے۔ جناب لال خان اور طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز نے اس کتاب کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا اوراس مشکل کام کو پار لگایا۔ انھیں بھی دل کھول کر مبارکباد دینی چاہیے۔
’انقلاب روس کی تاریخ‘ پر نظریاتی اور فلسفیانہ باتیں آپ ابھی سن چکے لیکن میرے خیال میں ہمیں اس شخص کی زندگی کے بارے میں بھی گفتگوکرنی چاہیے جس نے دوسری کتابوں کے علاوہ اس نہایت اہم کتاب کو قلم بند کیا۔
ٹرا ٹسکی، نسلاً یہودی اور اعتقاد کے اعتبار سے دہریہ تھا۔ زندگی کی ابتدا میں ہی اپنا نام بدلا اور ٹراٹسکی رکھا ۔ اسے انقلاب سے عشق تھا۔ وہ اس انقلاب کی تعبیر کے خواب دیکھتا تھا، جسے اس نے لینن اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دیکھا اور پھر لاکھوں کسانوں، سپاہیوں، جہازیوں اورکان کنوں کی آنکھوں میں رکھ دیا اور پھر ان محنت کشوں نے اپنی ہمت اور طاقت سے اسے حقیقت بنا دیا۔
ٹراٹسکی کی قوت ارتکاز کی داد دیجیے کہ یہ تاریخ اس نے اپنی جلا وطنی اور دربہ دری کے دور میں لکھی ۔ ابھی سائبیریا میں ہے تو ابھی الما آتا میں، ابھی قسطنطنیہ اور 5 کلو میٹر کا دائرہ رکھنے والے ترک جزیرے پرکھڑا ہے۔ ترک مرد آہن مصطفیٰ کمال پاشا کے جاسوس اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتے ہیں ۔ وہ صبح سویرے بحیرہ مرمر پر چلتی ہوئی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتا ہے، سمندری چڑیوں کی چہچہاہٹ سنتا ہے اور ان کی آزادانہ پرواز کا نظارہ کرتا ہے۔ وہاں سے پیرس، ناروے اور آخر کار میکسیکو پہنچتا ہے۔
اپنے دشمنِ جانی کے بھیجے ہوئے اجرتی قاتلوں کی گولی کا اسے ہر لمحہ انتظار ہے، اس کے باوجود اس کا قلم، کاغذ سے جدا نہیں ہوتا اور وہ لکھتا چلا جاتا ہے، اگر اسے قتل کرنے کی خدمت انجام دینے والے پھرتے ہیں تو اس کے جاں نثار محافظ بھی ہیں جو اس کی زندگی کی حفاظت کرتے ہیں لیکن تابکہ آخرکار قاتل جو دوست بن کرآتا ہے اور اس کے اس کی بیوی کے لیے چاکلیٹ لے کر آتا جاتا رہتا ہے۔ وہ ایک سہ پہر آتا ہے اور برف توڑنے والا سُوا اپنی پوری قوت سے اس کی پشت میں اتار دیتا ہے۔ ٹراٹسکی 24 گھنٹوں تک جاں کنی کے عالم میں رہتا ہے اور پھر دنیا سے وہ شخص رخصت ہوجاتا ہے جس نے انقلاب روس کو برپا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
اس کے قتل کو 77 سال گزر چکے ہیں لیکن اس کا نام تاریخ کے صفحوں سے کھرچ کر مٹایا نہ جاسکا۔ حالانکہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ لینن کے کئی جلسوں کی تصویریں جن میں وہ موجود ہے، اس میں سے ان کی تصویر کھرچ دی گئی۔ لینن اس وقت دنیا سے رخصت ہو چکا تھا ورنہ وہ اس اقدام کی مزاحمت کرتا۔
1917 کا انقلاب روس، انسانی تاریخ کا ایک ایسا تہلکہ خیز واقعہ تھا جس نے 1300 برس سے سوتے ہوئے روس کو اور پھر دنیا کے ایک بڑے حصے کو جھنجھوڑ کر جگا دیا تھا۔ یوں جیسے زیرِ زمین بھیانک زلزلہ آیا ہو، اور سوتی ہوئی زمین کی مہیب پر تیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی، انھیں کچلتی ہوئی ایک دوسرے کے اندر گھستی چلی گئی ہوں۔ زیرِ نظر کتاب اسی انقلاب کا ایسا چشم دید بیان ہے جس کا راوی پہلے دن سے اس انقلاب کو برپا کرنے میں شامل تھا لیکن لینن کی موت کے بعد وہ برسراقتدار طبقے کی طرف سے یوں رد کیا گیا جیسے وہ کبھی موجود ہی نہ رہا ہو۔
انقلاب روس نے صرف زار شاہی اور قدیم اشرافیہ کا ہی ستھراؤ نہیں کیا۔ اس نے روس کے سماجی ڈھانچے، معیشت، ثقافت ، بین الاقوامی تعلقات اور صنعتی ترقی، غرض ہر معاملے پر اپنے اثرات مرتسم کیے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس انقلاب میں اشرافیہ کے نمایندوں کے بجائے ملک کے دانشور اور محنت کش طبقات ہمیں شامل نظر آتے ہیں۔
ایک ایسا ملک جہاں صرف کھیت لہلہاتے تھے اور جس کی اکثریت لکھنے اور پڑھنے سے ناواقف تھی، جہاں حروف اور ہند سوں سے آگاہی صرف اشرافیہ کا حق سمجھی جاتی تھی، وہیں انقلاب کے اصولوں نے کُھل جا سِم سِم کا آوازہ بلند کر کے تعلیم کے خزانے نادار انسانوں پر کھول دیے۔ یہ وہی انقلاب ہے جس نے ایک طرف ساری دنیا کو لبھایا اور دوسری طرف جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کی شکست میں کلیدی کردار ادا کیا۔
’روسی انقلاب کی تاریخ‘ محض اس عہد کے واقعات کا بلا کم و کاست بیان ہی نہیں ہے، وہ اپنی ایک ادبی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ تب ہی مجھے Dickman کا لکھا ہوا یہ جملہ یاد آتا ہے کہ ارسطو نے بوطیقا میں بیان کیا ہے کہ استعارے کو برتنے کی صلاحیت ادبی خلاقی کا اہم ترین ثبوت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ٹراٹسکی میں یہ صلاحیت شیکسپیر، ہومر اور ملٹن کی مانند تھی۔ جس سے اس کا بیانیہ، بلندیوں پر پہنچ جاتا تھا۔
انقلاب روس کو یاد کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد کرنا چاہیے کہ جہاں اس انقلاب نے کسانوں، مزدوروں، جہازیوں اور جاروب کشوں کو ان کے حقوق عطا کیے، وہیں اس کا احسانِ عظیم دنیا کی عورتوں پر ہے۔ انقلاب روس کے وہ دن جو فروری کی تاریخوں سے جڑے ہوئے تھے۔ وہی عورتوں کے عالمی دن کی یاد بھی دلاتے تھے ۔ انقلاب روس نے ان پر تعلیم، روزگار اور مساوی حقوق کے در کھول دیے۔ یہ وہی انقلاب ہے جس نے یورپ اور امریکا میں اپنے حقوق کی جدوجہد کرتی ہوئی عورت کو بڑھاوا دیا اور وہ لب و رخسار کی آرایش سے نکل کر ویلنیتنا ترشکووا اور ایسی ہی دوسری متعدد باہمت عورتوں کی پیروی کرنے لگی۔
لینن اور ٹراٹسکی نے روسیوں کو یہ نعرہ دیا کہ ’ امن، روٹی اور زمین کا ایک ٹکڑا‘ یہ جملہ ان کی آزادی کا نعرہ بن گیا۔ ٹراٹسکی نے ایک نہایت مشکل اور تھکادینے والی زندگی گزاری جو خطروں سے بھری ہوئی تھی۔ آخری دنوں میں اس نے لکھا کہ میرے لیے سب سے بڑی خوشی یہ تھی کہ میں زندگی بھر سوشلزم کے لیے لڑتا رہا اور دوسری مسرت اس بات کی تھی کہ میں نتالیا کا شوہر تھا۔
چالیس برس کے اس ساتھ کے دوران اس کی بے پایاں محبت اور ناقابلِ فراموش شفقت میری حیات کا سرمایہ رہی۔ اپنی شعوری زندگی کے 43برسوں میں سے 42 برس میں ایک انقلابی رہا اور مارکسزم کے جھنڈے تلے لڑتا رہا۔ مجھے اگر پھر سے زندگی گزارنے کا موقع ملے تو یقینا میں غلطیاں نہیں دہراؤں گا لیکن لازماً زندگی کو اسی ڈھب سے گزاروں گا جیسی میں نے گزاری۔ میں ایک پرولتاری انقلابی، ایک مارکسی اور ایک دہریے کے طور پر زندگی بسرکروں گا۔ میں اپنے ان ہی خیالات کے ساتھ مرنا پسند کروں گا۔ انسانیت کے لیے ایک کمیونسٹ مستقبل پر میرا ایمان پختہ اور غیر متزلزل ہے۔ میں یہ کہوں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اپنی جوانی میں مجھے کمیونزم پر جتنا راسخ ایمان تھا، اب اس سے کہیں زیادہ ہے۔
میری محبوب بیوی کمرے میں آئی ہے اور اس نے کھڑکی کے پٹ پورے کھول دیے ہیں تاکہ کمرے میں تازہ ہوا زیادہ فراوانی سے آسکے۔ میں نیلے آسمان کو اور سامنے پھیلے ہوئے سبزے کو دیکھا ہوں اور دھوپ کو جو سبز رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ زندگی حسین ہے۔ مجھے امید ہے آنے والی نسلیں دنیا سے کمینگی، شیطانیت، ظلم اور تشدد کا نام مٹا سکیں گی اور زندگی سے لطف اٹھائیں گی۔‘‘
ٹراٹسکی کے یہ الوداعی کلمات 77برس بعد بھی ہم سے بہت کچھ کہتے ہیں، بے حساب جدوجہد کے طلب گار ہیں اور 21 ویں صدی کی اس مختلف دنیا میں اس خواب کی تعبیر کے لیے نئے امکانات تلاش کرنے پر اُکساتے ہیں۔ اسے خراجِ عقیدت ادا کرنے کے لیے اس سے موزوں بات کیا ہوسکتی ہے۔
(لیون ٹراٹسکی پر ہونے والے ایک سیمینار میں پڑھا گیا)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے