علاج معالجہ

میرے دوستوں میں تین معالج بھی شامل ہیں اور میں گپ شپ کے لئے اکثر ان کی ’’ہٹی‘‘ پر جا بیٹھتا ہوں اور پھر تماشائے اہل کرم دیکھتا ہوں۔ان دوستوں میں سے ایک حکیم ہے ، ایک ہومیو پیتھ ہے اور ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے ۔ان معالجوں میں سے میرے دوست حکیم صاحب ہیں وہ تشخیص کے ماہر ہیں بس مریضوں کی نبض دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں تمہارا جگر خراب ہے ۔ایک دفعہ میری موجودگی میں انہوں نے بیس مریضوں کو یہی بتایا کہ تمہارا جگر خراب ہے ۔بلکہ اب تو یہ عالم ہے کہ انہیں تشخیص کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔مریض ان کے پاس آتا ہے اور ان کے کچھ کہنے سے پہلے خودکہتا ہے کہ حکیم صاحب میرا جگر خراب ہے ۔ ایک دفعہ میں نے ان حکیم صاحب سے پوچھا کہ حکیم صاحب آپ کو علم ہے کہ انسانی جسم میں جگر کہاں واقع ہے ؟ بولے نہیں ! میں نے کہا جب آپ جگر کے حدود اربعہ سے بھی واقف نہیں ہیں تو مرض کی تشخیص اور علاج کس طرح کرتے ہیں ۔یہ سن کر اپنے گردے کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے میاں یہ دماغ اللہ نے آخر کس لئے دیا ہے ؟

میرا دوسرا دوست ہومیو پیتھ ڈاکٹر ہے ۔ یہ بیماری کو پہلے عروج پر لے کر جاتے ہیں پھر اس کا علاج کرتے ہیں۔ مثلاًان کے پاس کوئی نزلے زکام کھانسی کی شکایت لیکر جائے تو یہ پہلے اسے ٹی بی لگاتے ہیں اور پھر اس کا علاج کرتے ہیں ۔ تاہم میں نے انہیں اکثر علاج کے پہلے مرحلے میں کامیاب ہوتے دیکھا ہے ۔ایک دفعہ ان کے پاس ایک خوبرو نوجوان آیا جس کے چہرے پر چند کیل مہاسے تھے جو ایسےبرے بھی نہیں لگتے تھے مگر چند روز بعد اس کی شادی ہونے والی تھی چنانچہ وہ ان سے نجات چاہتا تھا۔ میرے دوست نے اسے ایک شیشی میں دوا دی اور کہا دس من پانی کسی چوبچے میں جمع کرکے اس میں دوا کے تین قطرے ڈالنے ہیں اور پھر اس پانی سے ایک گھونٹ پینا ہے ۔ اگلے روز وہ نوجوان دکان پر آیا تو اس کے سر سے پائوں تک دانے ہی دانے نکلے ہوئے تھے ۔ڈاکٹر صاحب یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا تیر نشانے پر بیٹھا چنانچہ اس کے بعد انہوں نے علاج شروع کیا ۔چند مہینوں کے بعد اس نوجوان کے سارے جسم سے دانے ختم ہو گئے مگر وہ نوجوان اب شادی کرانے کا خواہشمند نہیں ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی دکان پر اس کا آنا جاناان دنوں بھی ہے مگر اب وہ ان سے علیحدگی میں کچھ کھسر پھسر کرتا رہتا ہے ۔

میرے تیسرے دوست ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں یہ اگر ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہ ہوتے تو ادب کے ڈاکٹر عبادت بریلوی (مرحوم و مغفور) ہوتے کیونکہ یہ نسخہ بڑا لمبا لکھتے ہیں ۔ ایک دفعہ ایک مریض نے پیٹ میں درد کی شکایت کی تو انہوں نے پانچ صفحے کا مفصل اور جامع نسخہ تحریر فرمایا۔جس میں انہوں نے کوئی بیس پچیس دوائیں تجویز کی تھیں۔جب وہ مریض اٹھ کر گیا تو میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ نے تو اس مریض کے پیٹ میں ایک چھوٹا سا میڈیکل سٹور کھول دیا ہے ۔حالانکہ سیون اپ کی بوتل سے بھی اس کے درد کا مداوا ہو سکتا ہے ۔کہنے لگے ’’دیکھو بھائی اتنا لمبا نسخہ لکھنے کی دو وجوہ ہیں پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جس برابر والے میڈیکل سٹور سے اس نے دوائیاں خریدنی ہیں وہ میڈیکل سٹور میرا ہے ۔دوسری وجہ یہ کہ پیٹ میں درد کینسر سمیت جتنی بھی بیماریوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے ان سب بیماریوں کی ادویات میں نے نسخے میں لکھ دی ہیں جن میں سے ایک آدھ تو کام کر جائے گا ‘‘۔ میں نے کہا ’’وہ تو صحیح ہے کہ ایک آدھ دوا ان میں سے کام کرے گی مگر باقی کام تمام بھی تو کر دیں گی‘‘۔ کہنے لگے ’’ لمبا نسخہ لکھنے کی تیسری وجہ جو میں بھول گیا تھا وہ تم نے خود بیان کر دی ہے۔یعنی باقی ادویات کے ردعمل میں جو بیماریاں جنم لیں گی مریض ان کے علاج کے لئے ایک دفعہ پھر میرے پاس آئے گا ‘‘۔ایک دفعہ ان کی عدم موجودگی میں چند روز کے لئے ان کا نوجوان ڈاکٹر بیٹا کلینک میں بیٹھا ڈاکٹر صاحب واپس آئے تو انہوں نے بیٹے سے کارکردگی کی تفصیل پوچھی ۔ بیٹے نے فخر سے بتایا کہ لال کوٹھی میں جو ایک مریض بڑھیا رہتی ہے میں نے اس کی برسوں پرانی پیچش دور کر دی ہے یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے دونوں ہاتھ سے سر تھام لیا اور کہا کم بخت اس بڑھیا کی پیچش نے تمہاری ڈاکٹری کی تعلیم کے سارے اخراجات برداشت کئے تھے تم نے اسے ٹھیک کر دیا ابھی تو اس بڑھیا کی پیچش سے تمہاری شادی ہونا تھی !
ان تین ڈاکٹروںکا ذکر کرکے میں اپنا بیان ختم کرنے والا تھا مگر مجھے یاد آیا کہ ابھی ’’وڈے ڈاکٹر صاحب ‘‘ کا ذکر تو میں نے کیا ہی نہیں ۔یہ ’’وڈے ڈاکٹر صاحب ‘‘ دن میں ایک چھوٹے ڈاکٹر صاحب کے پاس کمپونڈری کرتے ہیں اور شام کو اپنی ذاتی کلینک میں بیٹھتے ہیں۔ کمپونڈری کا کورس کرنے اور اس کے بعد خودبخود ڈاکٹر بن جانے سے پہلے یہ حق حلال کی روزی کماتے تھے یعنی اکبری منڈی میں بوریاں ڈھویا کرتے تھے ۔ان دنوں انہوں نے اپنے بعض پرانے کولیگ اپنے کلینک پر ملازم رکھے ہوئے ہیں ۔ ’’ڈاکٹر صاحب مریضوں کو ٹیکا لگاتے ہیں اور ان کے یہ پرانے کولیگ اس دوران بیہوش یا فوت ہو جانے والے مریضوں کو بوریوں کی طرح کاندھوں پر ڈال کر ان کے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے باوجود ان ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ کی پریکٹس بہت زوروں پر ہے کیونکہ جس علاقے میں ان کا کلینک ہے وہاں کے غریب لوگ کم پیسوں میں زندگی بلکہ موت کے بھی طلب گار ہوتے ہیں اور یہ جعلی ڈاکٹر صاحب ان کا یہ مسئلہ حل کر دیتے ہیں اور اب آخر میں ایک ضروری وارننگ ! اور وہ وارننگ یہ ہے کہ جن لوگوں کا احوال ہم نے بیان کیا ہے وہ ہمارے گھر پر دھاوا بولنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ اس صورت میں وہ اپنا شمار عطائیوں میں کروا بیٹھیں گے ۔کیونکہ متذکرہ حکیم ، ہومیو پیتھ اور ایم بی بی ایس سند یافتہ ہونے کے باوجود عطائی ہیں ۔کیونکہ وہ پیشے سے مخلص نہیں ہیں اور جن صاحب کا ہم نے آخر میں ذکر کیا ہے وہ تو باقاعدہ اور گزٹیڈعطائی ہیں ۔ اب اگر آپ پوچھیں کہ میں اگر کبھی بیمار پڑوں تو علاج کس سے کراتا ہوں تو بات یہ ہے کہ معترف تو میں طب مشرق اور ہومیو پیتھی کا بھی ہوں مگر احتیاطاً علاج ایلوپیتھک کراتا ہوں شاید اس لئے کہ میں افورڈ کر سکتا ہوں مگر اس ملک میں لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہیں سستے علاج بلکہ انصاف کی بھی ضرورت ہے اور وہ جس ملک میں سستا علاج اور انصاف چاہتے ہیں وہ گزشتہ تیس برسوں سے مجھ سے اور آپ سے یہی پوچھ رہے ہیں کہ وہ علاج کے لئے کس کے پاس جائیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے