برسوں سے بنتی سرحد

ن لیگ ‘ جنرل ضیاء الحق کے منتشر‘ مبہم اور بکھرے ہوئے اتفاقات کا مجموعہ تھی۔ بنانے والوں کے پاس کوئی خاکہ تھا اور نہ ہی اس بکھرتی ہوئی پارٹی کا مستقبل‘ کسی کے ذہن میں ہے۔میں اس وقت بھی حیران تھا” جب یہ پارٹی منظم کی جارہی تھی؟‘‘۔ پھر اس میں طرح طرح کے لوگ جمع ہوئے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے ‘آخر ایک لیڈر بھی دستیاب ہو گیا۔ آج حالت یہ ہے کہ اوٹ پٹانگ تصورات اور نظریات کے ٹکڑے جمع کر کے‘ پارٹیاںجیسے تیسے چلائی جا رہی ہیں۔ اب پارٹیوں کے ٹکڑوں سے اکٹھے کر کے‘جو کھچڑی یا نہاری پکائی جا رہی ہے‘ کسی کو نہیں معلوم کہ وہ اب کیا کرنے والے ہیں؟ فی الوقت یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ وہ پارٹیاں بنائیں گے یا اچانک متحدہ محاذ بن کر سامنے آجائیںگے۔انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کون‘ کس کے ساتھ ہو گا؟ اور کون‘ کس کا مخالف؟ زرداری صاحب‘ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا نو ا ز شر یف کے؟ ایک منفرد ترکیب سے نواز‘شہبازکو ایک ہی پیالے میں گھولنے کی ترکیب سوچی جا رہی ہے؟ دوسری ترکیب ان دونوں بھائیوں کو لڑانے کی ہے؟کچھ پتہ نہیں کیا ہو گا؟ سال کے اندر ہو گا یا مہینے کے اندر؟ شاید دس بارہ برسوں میں؟ بہت بڑے کڑاھے میں حلیم کے اجزا ڈال کر‘ بیلوں کو ایک ساتھ چھوڑ دیا جائے گا؟ آگے اللہ کی مرضی کہ کیا بنتا ہے؟کیسے بنتا ہے؟ اور کیوں بنتا ہے؟
جس طرح برصغیر کی تقسیم کے بعد‘ دو ملک بنائے گئے تھے اور پھر تین بن گے۔ اسی طرح اب افغانستان اور پاکستان اپنی سرحدوں پر تصوراتی لکیر کو پکا کر رہے ہیں۔یہ لکیر کیسے پکی ہو گی ؟ وقت بتائے گا۔ پاکستان میں ن لیگ اور دوسری لیگیں‘ کیسا سیاسی نقشہ بنا ئیں گی؟ یہ بھی وقت ہی بتائے گا۔ پاکستان‘ بھارت اور افغانستان ” کھانے پکانے‘‘ کی کون سی نئی ترکیبیں ایجاد کر تے ہیں؟ یہ بھی وقت ہی بتائے گا۔ پاکستان‘ افغانستان سے باہمی تعلقات کو کیسے استوار کرتا ہے؟ یہ دیکھنا ہو گا۔ فی الحال ڈیورنڈ لائن کی تصوراتی لکیر کا وہ خاکہ نقل کر رہا ہوں ‘جو برطانوی راج کے ایک افسر‘ سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے 125 سال پہلے کاغذی نقشے پر کھینچا تھا۔
”برطانوی راج کے ایک افسر سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے 125 سال پہلے‘ کاغذ ی نقشے پرایک تصوراتی لکیر کھینچی تھی۔شاید انہیں بھی اندازہ نہ ہوگا کہ سنگلاخ پہاڑوں اور دشوار گزر گاہوں میں‘ انہی کے نام سے منسوب یہ لکیر‘ ڈیورنڈ لائن‘اگلی صدی میں کن مشکلات کو جنم دے گی۔ہیلی کاپٹر کی نیچی پرواز کے دوران‘ اس سرحدی لکیر کے ارد گرد علاقوں کا فضائی جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ یہاں کہیں بنجر پہاڑی چوٹیاں ہیں اور کہیں چلغوزوں کے جنگلات‘ ان پہاڑوں پر پھیلے ہیں مگر ان سب میں بین الاقوامی سرحد کہاں ہے؟ کچھ ماہ پہلے تک اس کا اندازہ نہ تو فضا سے ممکن تھا اور نہ ہی زمین سے ۔ زمین پر آبادی کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں۔ کہیں ایسے مکانات ہیں جن کی چھتیں ہیں اور نہ مکین ۔ جہاں کہیں آبادیاں دکھائی دیتی ہیں‘ وہاں کئی عمارتوں کی چھتیں سبز اور سفید رنگ میں رنگی ہیں۔ یہ رنگ یہاں آنے والوں کے لیے پیغام ہیں کہ ان علاقوں میں ریاستِ پاکستان کی رِٹ قائم ہو گئی ہے۔ایسے میں دور سے ہی بل کھاتی خاردار تاروں میں لپٹی‘ 12 فٹ اونچی دو رویہ باڑ نظر آتی ہے۔ اب یہی باڑ وہ لکیر ہے جو 1893ء میں سر ڈیورنڈ نے کھینچی تھی۔افغانستان نے تقسیمِ ہند کے بعد ‘ اس بین الاقوامی سرحد‘ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ۔ پاکستانی فوج تقریباً ساڑھے بائیس سوکلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن پر بظاہر ناقابل عبور باڑ لگا رہی ہے اور اب تک 43 کلومیٹر طویل حساس علاقے میں باڑ لگ گئی ہے۔
یہ باڑ دکھانے پاکستانی فوج‘ میڈیا کے نمائندوں کو سرحد پر لے گئی‘ جہاں دوسری جانب خوست اور پکتیکا کے دیہات پھیلے ہیں۔فوجی حکام کے مطابق‘ سرحد پر باڑ لگنے سے شدت پسندوں کی نقل و حرکت رک جائے گی‘ جس سے
دونوں ملکوں میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی۔عسکری حکام کے مطابق ‘باڑ نصب کرنے کے علاوہ یہاں ہر ایک سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر 750 قلعے تعمیر کیے جائیں گے‘ جن میں سے 92 مکمل ہو چکے ہیں۔علاقے کے کمانڈنگ افسر نے بتایا کہ باڑ مکمل ہونے کے بعد سرحد پر ”ہماری مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکے گا‘‘۔ ڈیورنڈ لائن پر23 ایسے دیہات اور قبائل موجود ہیں‘ جو سرحد کی دونوں جانب تقسیم ہیں۔ افغانستان کا موقف رہا ہے کہ سرحد پر بٹے یہ خاندان‘ باڑ لگنے سے متاثر ہوں گے تاہم پاکستانی فوج کا دعویٰ ہے کہ باڑ کی تنصیب میں شدت پسندی سے تنگ‘ ان قبائل کے عوام کی حمایت بھی شامل ہے۔انگور اڈہ میں قائم ایک قلعے کے گرد‘ بارودی سرنگوں کے حوالے سے حکام نے بتایا کہ”سرحدی علاقے میں کسی بھی مقام پر یہ نصب نہیں کی جا رہیں‘ تاہم انتہائی حساس علاقے میں موجود‘ اس قلعے کی حفاظت کے لیے ماضی میں یہ بارودی سرنگیں نصب کی گئی تھیں‘‘۔سرحد پر پاکستانی فوج کے مقامی کمانڈر سمجھتے ہیں کہ یہ باڑ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر کرے گی۔”افغان سرحد پر کبھی بھی سکیورٹی اہلکاروں کی مناسب تعداد نہیں رکھی جا سکی اوریوں شدت پسندوں کی نقل و حرکت پر قابو پانے میں مشکل رہی ہے‘‘۔
مقامی حکام کے مطابق پاکستانی سات فوجی پوسٹوں کے مقابلے میں سرحد کی نگرانی کے لیے افغانستان کی صرف ایک پوسٹ ہے اورباڑ کی تعمیر سے افغان افواج پر بھی بوجھ کم ہو جائے گا ۔ تاہم یہ ایک پیچیدہ منصوبہ ہے اور یہ بات فوجی افسران بھی تسلیم کرتے ہیں۔ماضی میں یہاں عسکریت پسندی نے باڑ کی تعمیر روکے رکھی مگر اب یہاں کا دشوار گزار علاقہ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ مقامی کمانڈر کے مطابق ”ایک کلومیٹر باڑ کے لئے‘ سامان سے لدے 30 ٹرک اس مقام تک پہنچائے جاتے ہیں مگر انفراسٹرکچر کا نہ ہونا اس ترسیل کو نہایت مشکل بنا دیتا ہے۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ پہلے ہم سڑک بناتے ہیں‘ پھر وہاں سامان پہنچاتے ہیں‘‘۔طویل سرحد پر باڑ لگنے کا کام فاٹا کی دیگر ایجنسیوں میں بھی جاری ہے۔ مگر یہ کب مکمل ہوگا؟ اس بارے میں فی الحال کوئی بھی معلومات دینے سے قاصر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے