یہ ہیں آپ کے اراکین پارلیمان ، پڑھتا جا شرماتا جا

National Assembly Pakistan

زارا قاضی

اسلام آباد

Zara qazi

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جو رپورٹرز قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس کی کوریج کرتے ہیں وہ اجلاسوں کے دوران روزانہ اپنے چینلز کے لیے ایک خصوصی رہورٹ بھی تیار کر تے ہیں جس میں وہ کسی اہم موضوع یا مسئلے پر اراکین پارلیمان کی رائے لیتے ہیں ۔ اس رپورٹ کا نام پوائنٹ آف آردڑ رکھ دیا گیا ہے ۔

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی مجھے بھی اپنے چینل کی طرف سے کہا گیا کہ اراکین پارلیمان سے پاکستان کے حوالے سے سوالات کئے جائیں اور ان کے جوابات لیے جائیں ۔

میرا تجربہ ہے کہ  اراکین پارلیمنٹ ایسے سوالوں پر آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آتے ہیں. ہمارے منتخب نمائندے
جی وہی منتخب نمائندے جن کے لیے ہم دن رات لڑتے جھگڑتے ہیں
ان کی عیب پوشی کرتے ہیں
ان کی پاکستان کے حوالے سے معلومات کا یہ حال ہے کہ ان کی معلومات پر ایک نئی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے
میں نے صرف یہ سوال پوچھا تھا کہ قومی ترانے کے خالق کا نام بتائیے؟

چونکہ میں اراکین پارلیمنٹ کی استانی تو تھی نہیں جو معاشرتی علوم کے سوالات کرتی سو گھما پھرا کر پھر وہی سوال کیا کہ قومی ترانے کے خالق کو کن الفاظ میں خراج تحسین پیش کریں گے
اب زرا اراکین پارلیمنٹ کے جوابات ملاحظہ ہوں
ایک صاحب فرمانے لگے
قومی ترانے کے خالق جو بھی تھے اللہ ان کو خوش رکھے(شاید وہ جلدی میں ہوں گے ورنہ قبر میں کہنا کبھی نہ بھولتے)
ایک اور صاحب نے کہا میں نالائق سا بندہ ہوں مجھے کیا پتہ وہ کون تھے
ایک بی بی نے تو حد ہی کر دی قومی ترانے کے خالق کا نام لیے بغیر ان کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر ڈالے
میں نے بھی ہلکا سا کہہ ہی دیا وہ سب تو ٹھیک ہے اگر نام لے کر تعریف کر دیں تو زیادہ بہتر ہو گا
ایک دم ان کی طبیعت خراب ہو گئی میرا سوال پر اپنا سا منہ لیکر کہنے لگیں کہ میری طبعیت بہت خراب ہے میں چلتی ہوں پھر وہ ایسا چلیں کہ مڑ کر کسی رپورٹر کو دیکھا تک نہیں۔ امید ہے کرسی پر بیٹھ کر لمبے سانس لے کر گوگل ضرور کیا ہو گا
ایسے جوابات سن کر طبیعت تو میری بھی خراب ہو گئی تھی مگر خیر مجھےتو پیکج مکمل کرنا تھا
ایک صاحب پڑھے لکھے دکھتے تھے ،سوچا ان کو تو ضرور ہی معلوم ہو گا ،ان سے پوچھا انہوں نے بھی اعتماد کے ساتھ خوب تقریر شروع کر دی ،
قومی ترانے کی اہمیت سے بات شروع کرتے پاکستان کا ماضی حال اور مستقبل میں بھی ترانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی.
خالق ترانہ کو جنت الفردوس میں جانے کی دعائیں بھی دے ڈالیں
میں نے بیچ میں ٹوکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ”نام” پوچھنے کی کوشش کی مگر چونکہ ناکام کوشش تھی سو انہوں نے سنی ان سنی کر ڈالی
ان کی فراٹے سے چلتی زبان کے سامنے میں ”نام” ”نام” کرتی رہ گئی اور وہ تقریر کر کے چلے بھی گئے
پھر ایک اور رکن قومی اسمبلی نظر آئے میں ان کی جانب لپکی
ساتھ کھڑے رپورٹر نے ان کو بتا دیا کہ
یہ قومی ترانے کے خالق کا نام جاننا چاہ رہی ہیں اور وفاداری کرتے ہوئےکان میں نام بھی بتا ڈالا
میں نے سوچا چلو کم از کم کوئی تو نام بتا ہی دے گا
مگر صد افسوس یاداشت کے ساتھ ساتھ ان کی سماعت بھی عین وقت پر دھوکہ دے گئی میرا سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ چمک کر بولے
حفیظ پلندری
اور ساتھ ہی وہ ہنس دیئے
ہم بھی ہنس دیئے کیونکہ ہمیں بھی ان کا پردہ منظور تھا
آگے بڑھے ایک اور صاحب نظر آئے
ان سے بھی یہی سوال کیا اور آخر کار منتخب پارلیمان کے ایک رکن نے مجھے قومی ترانے کے خالق کا نام بتا ہی دیا
حفیظ جالندھری
وہ صاحب مجھے اس وقت ہیرو لگے
پیکج تو مکمل ہو گیا مگر پارلیمنٹ سے آفس آتے آتے میں یہی سوچتی رہی کہ
یہ ہیں ہمارے ارکین پارلیمان
جو اس قوم پر قوم کی مرضی سے مسلط ہیں
جو بات گھمانا جانتے ہیں
جو شعور خاص تو درکنار، شعور عام سے بھی محروم ہیں
یہ ہمارا انتخاب ہے
انہیں برا کہنے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے
خود شیشے کے سامنے کھڑا ہو جانا چاہیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے