الجھن کی سلجھن ،ایسی تحریر جو آپ کا ذہن کھول دے

328994,xcitefun-independence-day-wallpapers-pakistan-7

ڈاکٹر جمیل اصغر جامیؔ

297492_1900184670775_4858974_n

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ انگریزی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد

. . . . . .
امریکہ کے غلاموں کو برطانیہ سے آزادی مبارک ہو
ڈرون حملوں اورایبٹ آباد آپریشن  کے بعد کونسی آزادی؟
آئی ایم ایف کے غلاموں کو یوم آزادی مبارک
یہ اور اس نوع کے کئی اور جملے ہر یوم آزادی پر ہماری سماعتوں سے ٹکراتے رہتے ہیں۔

یہ جملے ایک مخصوس ذہنی اور نفسیاتی بحران کی نشاندہی تو کرتے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ تاریخ اور زمینی حقائق کی خاطرخواہ معلومات کی بھی نفی کرتے ہیں۔

ایسے لوگ جو ان جملوں کے ساتھ یوم آزادی کا استقبال کرتے ہیں اُن سے بہت سے سوالات پوچھے جا سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ نے اس ’’غلامی ‘‘ کو دُور کرنے کے لیے کیا انفرادی کردار ادا کیا؟ کیا آپ پورا سال ہاتھ پر ہاتھ دھرے یوم آزادی کا انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے ، آپ کا ’’جذبہ حریت‘‘ بیدار ہو جاتا ہے اور  یہ جملے فوراً آپ کی زبان پر جاری ہو جاتے ہیں؟

در حقیقت اصل مسلہ ہماری قومی اور شخصی نفسیات کا ہے۔ آزادی کبھی بھی قوموں کو کسی سونے یا چاندی کے طشت میں رکھ کرپیش نہیں کی جاتی۔ بلکہ قومیں ہمیشہ آزادی ’’حاصل ‘‘کرتی ہیں۔ یہاں لفظ ’’حاصل‘‘ بہت اہم ہے اور اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ لفظ ’’آزادی‘‘ کے ساتھ جو فعل سب سے زیادہ مستعمل ہے وہ ’’حاصل ‘‘ ہی ہے۔

یعنی ہم یہی کہتے ہیں کہ پاکستان نے 1947 میں آزادی حاصل کی۔ چین نے 1949 میں آزادی حاصل کی۔فن لینڈ نے 1917 میں آزادی حاصل کی۔ وغیر ہ ، وغیرہ۔

اب یہی فعل ہم بعض دوسرے اسموں کے ساتھ بھی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً علم حاصل کرنا، شہرت حاصل کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اب لفظ ’’حاصل‘‘ کے اس وسیع اطلاقی تناظر میں ہم بات کو زیادہ واضح کر سکتے ہیں۔

جس طرح علم یکدم حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی مکمل تحصیل علم کا دعوی کر سکتا ہے یہی حال آزادی کا ہے۔

جس طرح شہرت آناً فاناً انسان کا مقدر نہیں بن سکتی، بالکل یہی معاملہ آزادی کا ہے۔ اگر غور کیا جاۓ تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ علم ، آزادی اور شہرت، تینوں ایسی چیزیں ہیں جو مسلسل جدوجہد، تحرک، فعالیت، لگن اور جذبے کی متقاضی ہیں۔

علم کی طرح آزادی کی بھی کوئی حد نہیں۔ جس طرح کوئی شخص مکمل علم حاصل کر لینے کا دعوی نہیں کر سکتا اسی طرح کوئی شخص ’’مکمل اور بے عیب‘‘ آزادی حاصل کر لینے کا دعوی بھی نہیں کر سکتا۔ بلکہ آزادی ، علم ، شہرت اور اس طرح کی دوسری چیزیں اُسی تناسب کے ساتھ انسان کو ملتی ہیں جس سے وہ ان کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ اگر کسی کے آباو اجداد نے علم میں نام پیدا کیا تو وہ شخص بھی محض اپنے آبأ سے نسبت کی بنیاد پر صاحب ِ علم بن جاۓ۔ بلکہ اس کے لیے ہر نسل کو الگ سے محنت کر نا پڑتی ہے اور یہ محنت ایک عمل پیہم کا نام ہے یعنی جہاں یہ عمل رکا وہیں علم کی موت واقع ہونا شروع ہو گئی ۔ یہی حال آزادی کا ہے۔

ہمارے آباو اجداد نے آگ و خون کے دریا عبور کیے، استعمار کو پوری قوت سے للکارا، جلیانوالہ  باغ سے لیکر کالے پانی تک عزم اور ہمت کی داستانیں رقم کیں، پس دیوارِ زنداں عمریں کاٹ دیں، دارورسن کے رشتہ وفا نبھایا اور ہمارے لیے اس آزاد مملکت خدادار کا اہتمام کیا۔ اب اس سے بعد کی ذمہ داری تو ہمارے کاندھوں پرتھی۔
ہم تحصیل آزادی کی جدوجہد جاری و ساری کیوں نہ رکھ سکے؟
کیا ہم نے یہ فرض کر لیا کہ قومیں ایک بار آزادی کی دہلیز پار کر کے ہمیشہ کے لیے ایک ’’آزاد کلب‘‘ کی ممبر بن جاتی ہیں پھر چاہے وہ خوب خرگوش میں چلی جائیں یا تن آسانی کا شکار ہو جائیں؟

اگر ایسا ہی ہے تو ہم نےآزادی کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں چہ جائے کہ ہم اس پر تنقید کریں۔

لیونارڈ کرٹنی ایک معروف برطانوی سیاستدان کا قول اس ضمن میں بہترین مشعل راہ ہے۔

کرٹنی نے کہا تھا ’’مستقل نگرانی کرتے رہنا ہی آزادی کی قیمت ہے
(Eternal vigilance is the price of freedom)

اس کا مطلب ہے کہ آزادی محض ایک وقتی  اور واقعاتی کامیابی نہیں بلکہ اس کے لیے مستقل کوشش ضروری ہے۔

آزادی کے حصول سے بھی بڑا چیلنج اس کی حفاظت اور اس کی توسیع ہے۔

کسی بھی قوم کے بانیان نے جب بھی  اپنی قوم کو آزادی دلائی تو وہ اپنے لوگوں کو محض آگ و خون کی ایک دہلیز ہی پار کروا پاۓ جس میں وہ خود کام آگئے۔

آگے کا سفر قوم نے خود طے کرنا تھا۔ میں یہاں تسلسل کے ساتھ لفظ ’’قوم‘‘ استعمال کر رہا ہوں نہ کہ ’’حکومت‘‘ اس لیے کہ حکومت اُسی حد تک فعال، غیور اور محترک ہوتی ہے جس حد تک یہ خوبیاں قوم میں پائی جائیں۔

آخر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی قوم کس حد تک اپنے دعوٰۓ آزادی میں سچی ہے۔اُس قوم کا یوم آزادی ایک بے پناہ نفسیاتی، علامتی اور تاریخی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

اگر بالفرض کوئی قوم اغیار کی دست نگر بن کر رہ گئی ہے یا اپنی خود مختاری کے حوالے سے بے حس ہو چکی ہے ، تب بھی اس کا یوم آزادی منانے کا جذبہ  اس کو ایسی چنگاری مہیا کر سکتا ہے جو اس  کےغیرت و حریت کے الاؤ کو پھر سےزندہ کردے۔

ہاں البتہ اس دن مایوسیاں پھیلانے اور قنوطیت کو فروغ دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

آخری بات ، ایسے لوگ جو  یوم آزادی پر اس لیے  گرمجوشی نہیں دکھاتے کہ اُن کے بقول پاکستان ایک آزاد ملک نہیں ہے اُن کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو سکے تو کچھ روزغزہ میں محصور فلسطینیوں کے ساتھ گزار کر آئیں
یا
اگر اتنا دُور نہیں جاسکتے تو ہو سکے تو چند روز مقبوضہ کشمیر میں گزار آئیں
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے
یوم آزادی مبارک!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے