خاموشی بھی اظہار کا ایک طریقہ ہے!!

حال ہی میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے دوران اُن سے جب چند روز قبل منعقد ہونے والی کور کمانڈر میٹنگ کے حوالے سے سوال پوچھا گیا کہ اس میٹنگ کے بعد پریس ریلیز کیوں نہ جاری کی گئی جس پر میجر جرنل غفور نے کہا کہ خاموشی بھی اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران نامور سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی نےاپنے ٹی وی پروگرام کے بارے میںاپنے ٹوئیٹر کے ذریعے جواب دیا کہ ’’خاموشی بھی اظہار کا ایک طریقہ ہے‘‘۔اسی دوران دی نیوز انویسٹی گیشن ونگ کے سینئر رپورٹر احمد نورانی نے اپنا ٹوئیٹر اکائونٹ معطل کر دیا جس پر ہر طرف سے سوال اٹھنے لگے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس پر دی نیوز انویسٹی گیشن ونگ کے ہی وسیم عباسی نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے احمد نورانی کی خیریت کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ نورانی ٹوئیٹر اس لیے استعمال نہیں کر رہے کیوں کہ خاموشی بھی اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ یہ سب کچھ میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ انہی دنوں ہمارے ہی ایک رپورٹر فخر درانی نے سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کی ہائوسنگ سوسائٹی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے چند ججوں کے متعلق ایک تشویشناک خبر دی جس پر نہ متعلقہ جج حضرات کی طرف سے کوئی جواب آیا اور نہ ہی سپریم کورٹ رجسٹرار نے اس سے متعلق کوئی بات کی۔ اگرچہ بار ایسوسی ایشن نے اس خبر پر دی نیوز کواپناسخت جواب بھجوایا جو شائع بھی ہوا لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے اس معاملہ پر اب تک مکمل خاموشی برقرار ہے ۔ یہ خاموشی بھی اگر اظہار کا ہی ایک طریقہ ہے تو پھر مجھے تو کم از کم نہیں معلوم کہ یہ خاموشی کیا کہہ رہی ہے۔ ویسے یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر خاموشی کے اظہار کی بجائے بات کی جاتی۔ یا تو فخر درانی کی خبر کی تردید کی جانی چاہیے تھی ورنہ اگرجو لکھا گیا وہ سچ ہے تو پھر سپریم کورٹ کو اس معاملہ پر غور کرنا چاہیے کہ جو اخبار کے ذریعے سامنے آیا وہ کہیں مس کنڈکٹ کے ذمرے میں تو نہیں آتا۔درانی کی اس خبر پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ذمہ دار کافی ناراض ہیں۔ اُن کا الزام ہے کہ درانی نے یہ خبر ججوں اور ایسوسی ایشن کو بدنام کرنے کے لیے شائع کی۔ اس الزام کو درانی نے رد کیا اور کہا کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہے۔ فخر درانی کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ کے کم از کم چار حاضر سروس جج حضرات، ایک حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جج سمیت ہائی کورٹ کے کم از کم اکیس جج ایک ایسے وقت میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ہائوسنگ اسکیم میں پلاٹوں کے حصول کی دوڑ میں شامل ہیں، جب عدالت عظمیٰ حکومت سے اس نجی ادارے کی ہائوسنگ اسکیم کے لیے زمین کے حصول اور ڈیولپمنٹ کے لیے حکم صادر کر رہی ہے۔ خبر کے مطابق اس کیس میں جو بات پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات جنہوں نے اسی اسکیم میں پلاٹ لینے کے لیے درخواستیں دی اور پیسہ بھی جمع کرایا اور اس کیس کی سماعت بھی کی۔ عمومی طور پر نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے لیے حکومتی ادارے نہ تو تمام زمین ایکوائر کرتے ہیں اور نہ ہی ان سوسائٹیوں کی ڈیولپمنٹ کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ خبر کے مطابق جس جگہ بار ایسو سی ایشن اپنی ہائوسنگ اسکیم بنانا چاہتی ہے وہاں تقریباً بارہ ہزار مقامی افراد سے جبری طور پر زمین خالی کرانے کے لیے اس قانون کا سہارا لیا جا رہا ہے جس کا اطلاق سرکار کے لیے ضرورت زمین کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایک ٹی وی چینل نے مقامی افراد کی طرف سے اُن کی زمین کے حصول کی کوششوں کے خلاف احتجاج دکھایا تو وہاں موجود ایک شخص نے تو یہ تک الزام لگا دیا کہ اُسے تو سپریم کورٹ میں داخل بھی نہیں ہونے دیا جاتا۔ یہ سارا معاملہ جب فخر درانی نے چند ریٹائرڈ جج حضرات کے سامنے رکھا تو انہیں یقین نہیں آیا کہ ایسا ممکن ہے۔ معزز جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد نے کہا کہ حکومت صرف سرکاری مقاصد کے لیے زمین حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ اس معاملہ میں عدالت عظمیٰ نے کس طرح ایک نجی اسکیم کے لیے زمین کے حصول کے لیے سرکاری مقاصد کی تعریف کی ہے۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد کا کہنا تھا کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ انہیں جو فخر درانی نے بتایا وہ درست ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی اپنے کاز کیلئےجج نہیں ہو سکتا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی پرکشش مراعات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ججوں کو حکومت بھی قیمتی پلاٹ دیتی ہے اس لیے جو انہیں بتایا جا رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے، اُسے رکنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے