دوکزنز کا سیاسی مکالمہ

یہ سراسر ایک فرضی سیاسی مکالمہ ہے اگر اس میں حالات حاضرہ یا حقیقت کا شائبہ نظر آ ئے تو اسے تحریر کا نقص سمجھئے گا ۔
بھائی ایچ :باجی ! آپ مجھ سے بڑی ہیں لیکن سیاست میں مجھ سے جونیئر ہیں میں پچھلے سترہ سال سے عملی سیاست میں ہوں جب سب جلاوطن ہوئے میں تب بھی یہیں رہا۔جیل کاٹی ۔آج تک کوئی عہدہ نہیں لیا ہمیشہ پارٹی اور قیادت کے لئے خاموشی سے کام کیا۔مگر آپ نے جو جارحانہ سیاسی روش اختیار کی ہے اس سے نہ ہمارے خاندان کی سیاست بچے گی اور نہ وقار ….
باجی ایم :بھائی !آپ مجھ سے چھوٹے ہیں میں پچھلے سترہ سال سے اپنے والد کی سب سے قریبی ساتھی ہوں ہر سیاسی فیصلہ میں شریک کار رہی ہوں آپ پنجاب میں حکمرانی کر رہے تھے جبکہ میں والد کا میڈیا میں دفاع کر رہی تھی والد کی سیاسی زندگی کاسب سے مشکل مرحلہ پاناما آیا تو آپ بولے تک نہیں حتیٰ کہ حمایت میں بیان تک نہیں دیا۔
بھائی ایچ :سچ بولوں تو غصہ نہ کرنا پچھلے ڈیڑھ سال سے آپ نے ہمیں مشاورتی عمل سے مکمل طور پر باہر رکھا ہوا تھا ہم سے مشورہ کیا جاتا تو یہ پاناما والا معاملہ ہی نہ ہوتا توسیع دے دی جاتی تو معاملات بگڑتے ہی نہ،آپ نے تو ہمیں آئوٹ سائڈر بنا دیا تھا۔
باجی ایم :آپ جان بوجھ کر ہم سے دور رہے تاکہ آپ صاف ستھرے رہیں اور ہمارا خاندان مقدمات میں پھنس جائے ہم پھنسے ہیں تو آپ کیسے بچ سکتے ہیں ؟
بھائی ایچ :یاد کریں دھرنے کے مشکل ترین دنوں میں تایا کے ساتھ والے کمرے میں، میں سوتا تھا 22ضمنی انتخابات کی نگرانی تو میں نے کی لیکن لاہور کے ضمنی انتخاب میں مجھے کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی میں نے کیا نہیں کیا؟لیکن جانشینی ،اعتماد اور محبت آپ کو ملا کیوں؟
باجی ایم :بات نظریات کی ہے آپ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں باقی تو سب بہانے ہیں لیکن ہم اس ناانصافی پر خاموش نہیں رہیں گے آپ اقتدار چاہتے ہیں جبکہ ہم انصاف چاہتے ہیں ۔
بھائی ایچ :آپ کا سیاسی تجربہ بالکل نہیں آپ کی جارحانہ حکمت عملی سارے خاندان کو مشکل میں ڈال دے گی میرے اور میرے خاندان کے کاروبار اور اثاثے پاکستان میں ہیں جبکہ آپ کے اور آپ کے بھائیوں کی جائیدادیں بیرون ملک ہیں آپ کے دونوں بھائی برطانوی شہری ہیں ہم وہ نہیں کر سکتے جو آپ کرنا چاہتے ہیں ۔
باجی ایم :میرے بھائیوں کو تو مجبوراً بیرون ملک کاروبار کرنا پڑا آپ کی وجہ سے میرے والد بھائیوں کو سیاست میں نہیں لائے ہمیشہ آپ کو سیاسی جانشین کہا مگر آپ تو ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے کوئی نیا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔
بھائی ایچ :پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں ن لیگ کے اکثریتی اراکین چاہتے ہیں کہ قومی ڈائیلاگ شروع ہونا چاہئے پارٹی کے صدر نواز شریف ہیں لیکن اگلا وزیر اعظم چھوٹے میاں صاحب کو ہونا چاہئے اداروں سے تصادم کی پالیسی ختم ہونی چاہئے آپ کے خاندان کے خلاف مقدمات کا منصفانہ ٹرائیل ہونا چاہئے ۔یہی وہ راستہ ہے جو سب کے لئے اچھا ہے جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اکثریت کی خواہش کا احترام کیا جائے ۔
باجی ایم :سقراط کو پھانسی جیوری کی اکثریت ہی نے دی تھی ہر معاملہ میں اکثریت کی رائے درست نہیں ہوتی اراکین اسمبلی نے تو پہلے بھی ق لیگ بنالی تھی اب بھی بدل سکتے ہیں لیکن اس سے نہ صرف ہمیں نقصان ہو گا بلکہ آپ کو بھی فائدہ نہیں ہو گا بڑے بھائی کو اس لئے نہیں نکالا گیا کہ اس کی جگہ چھوٹے بھائی کو لایا جائے اگر کوئی طاقت یہ کرنا بھی چاہے تو عمران خان، زرداری، سراج الحق اور چودھری کیونکر مانیں گے؟
بھائی ایچ :لڑائی اور جھگڑے سے ملک ہماری پارٹی اور خاندان سب کا نقصان ہو گا ذاتی انا کی خاطر سب کچھ ختم کرنا ٹھیک نہیں ہے عدالتی فیصلے پر غصہ بجا مگر اس غصے میں سالوں کی محنت سے بنی پارٹی کو اڑا دینا ٹھیک نہیں۔ آپ نے خادم اعلیٰ سے ملاقات میں مانا تھا کہ آپ بڑے ہیں جو کہیں گے وہی کرونگی لیکن پھر محاذ آرائی کی بات شروع کر دی ۔
باجی ایم : لوگ باتیں کر رہے ہیں کہ کچھ لوگ بڑے میاں کی سیاسی لاش پر شاندار مزار بنا کر وہاں قوالی کروانا چاہتے ہیںان لوگوں کو ہر صورت میں اقتدار چاہئے ۔یہ لوگ اپنے ضمیر کو کیا جواب دینگے روز قیامت بڑے بھائی کا سامنا کیسے کریں گے۔
بھائی ایچ :چھوٹے بھائی نے تو وہ قرض بھی اتار دیئے ہیں جو اس کا فرض بھی نہیں تھے 2013ء میں اقتدار کو ڈش میں رکھ کر بڑے بھائی کو پیش کیا یاد ہے کہ نہیں؟ ن لیگ کو پنجاب سے باہر چند ہی سیٹیں ملی ہیںچھوٹے بھائی نے ساری زندگی سر جھکا کر گزار دی ۔خاندانی اثاثے تقسیم ہوئے تو زیادتی کی گئی پارٹی صدر بنانے کا معاملہ تھا تو پھر زیادتی کی پانچ بار کوشش کی کہ بڑے بھائی کو مشورہ دیں کہ محاذ آرائی کا راستہ ٹھیک نہیں مگر چھوٹے بھائی کی بات سنی ان سنی کر دی گئی ۔
باجی ایم :بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے جتنا پیار کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی خود اقتدار سے باہر رہے لیکن بھائی کو وزیر اعلیٰ بنائے رکھا انہیں پارٹی صدر بنایا اپنی اولاد سے کہیں زیادہ پیار بھائی سے کیا مگر چھوٹے بھائی ہر مشکل میں اورہر لڑائی میں مخالف فریق سے ملنے کی بات کرتے ہیں یہ تو جنرل مشرف سے بھی صلح کا مشورہ دیتے تھے جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے کی بات کرتے تھے ان کا تجزیہ کبھی صحیح نہیں نکلا ۔
بھائی ایچ :باجی آپ کو کچھ علم نہیں ہے پاکستان میں دانیال عزیز اور چند لوگوں کے سوا آپ کے ساتھ ہے کون؟ وقت آیا تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ پرویز رشید اور طلال چودھری کے علاوہ آپ کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہو گا سب چاہتے ہیں کہ محاذ آرائی نہ کی جائے 30سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد اب جیلوں میں جانا بیوقوفی ہو گی سب کو پھنسانے کی بجائے اسحاق ڈار کو استعفیٰ دے دینا چاہئے ۔
باجی ایم :انکل ڈار کو جب میں کہونگی تو وہ فوراً استعفیٰ دے دیں گے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں باقی بات یہ ہے کہ ا گر کوئی ڈائیلاگ کرنا چاہتا ہے تو وہ ہم سے کرے آپ کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات مناسب نہیں ۔
بھائی ایچ :آپ کے شوہر کیپٹن صفدر نے اسمبلی کے اندر اور باہر جو بیانات دیئے ہیں وہ پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں آپ ان سے کہیں کہ وہ استعفیٰ دیں ۔
باجی ایم :صفدر میرے شوہر ہیں بڑا نازک رشتہ ہے ، بڑے میاں صاحب صفدر سے استعفیٰ لینا چاہیںتو وہ بخوشی دے دے گا لیکن یہ بات میری طرف سے کی جانی مناسب نہیں ۔
بھائی ایچ :باجی ! چینی فلاسفر سن زو نے کہا تھا کہ جنگ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے دشمن سے لڑے بغیر اس کو زیر کر لو ۔اب بھی ضرورت ہے کہ دانشمندی اور عقل سے اس مشکل مرحلے سے نکلا جائے اور کوشش کی جائے کہ احتساب عدالت منصفانہ ٹرائل کرے ۔
باجی ایم :بھائی ! گومگو سیاست میں نہیں چلتی میں نے ایک جلوس میں مظاہرین کو پولیس کی لاٹھیاں پڑتے دیکھیں مخلص کارکن لاٹھی پڑنے پر نعرے مارتے تھے اور تماش بین لاٹھی پڑنے پر معافی مانگتے تھے ۔نتیجہ ایک ہی ہے لاٹھیاں تو دونوں کو پڑیں گی اچھا معافی مانگنے والا رہے گا یا نعرہ مارنے والا، آپ خود فیصلہ کرلیں ۔
بھائی ایچ :تیسری دنیا کی سیاست میں مثالیت پسندی کی سیاست نہیں ہوتیعملیت پسندی کی سیاست ہوتی ہے لوگ قربانیاں دینے کے لئے آپ کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ مفادات کے لئے آپ کا ساتھ دیتے ہیں ۔آپ کو خیالی دنیا سے نکل کر عملی دنیا میں آنا ہو گا وگرنہ ہم سب سراب کی نظر ہو کر گڑھے میں گر جائیں گے ۔
باجی ایم :آخری فیصلہ تو تاریخ کرتی ہے عملیت پسند جیت جاتے ہیں مگر تاریخ میں ان کا کوئی مقام نہیں ہوتا عالم گیر اپنے بھائی دارالشکوہ کا سر کاٹ کر تخت شاہی کا وارث تو بن گیا مگر صوفیوں، ملنگوں اور عوام نے کبھی اس کو شاہ مانا اور نہ بقول شیکسپیئر ’’عرب کے ہزاروں عطر اس کے خون آلود ہاتھوں کو دھو سکے ‘‘
بھائی ایچ :اصل میں اقتدار کی امنگ نے آپ کی عقل پر پردہ ڈال دیا ہے اس کے نتائج خطرناک ہو نگے آپ تو ڈوبیں گے ہی ہمیں بھی ڈبو دیں گے …..(نامکمل )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے