اورکشمیرتقسیم ہوگیا

(پہلی قسط)

بی بی سی کے الیاس خان نے کشمیر کی جبری تقسیم کے دردناک دنوں کی کہانی بیان کی ہے ۔ اس کے بعض حصے مصلحتاً حذف کرنا پڑے۔ مضمون پیش خدمت ہے۔
”پاکستان میں شامل شہر گڑھی حبیب اللہ کے مغرب اور کشمیر کے شہر مظفر آباد کے مشرق میں‘ 18 سو فٹ بلندی پر واقع‘ ڈب گلی اکتوبر کی صبح خاموش اور پر امن نظر آ رہی تھی۔کشمیر اور پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے میں قائم حفاظتی رکاوٹوں پر‘ سڑک کے دونوں اطراف‘ تقریباً دو درجن دکانیں ہیں۔اس بات کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے کہ جن عسکریت پسند پٹھان قبائلی جنگجوؤں نے‘ 70 سال قبل کشمیر پر حملہ کیا تھا‘ وہ اسی جگہ سے خطے میں داخل ہوئے تھے۔ یہ حملہ بعد میں دنیا کا سب سے زیادہ گمبھیر علاقائی تنازعہ بن گیا ۔لیکن 86 سالہ مقامی دیہاتی محمد حسن قریشی کو وہ طوفانی دن اچھی طرح یاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ”پٹھانوں کے آنے سے ایک ہفتہ قبل‘ یہ افواہیں تھیں کشمیری سکھ (جن کی علاقے میں خاصی آبادی تھی) مظفر آباد پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد ہم نے سنا کہ پٹھان آ رہے ہیں‘‘۔ افواہیں اڑنا قدرتی بات تھی کیونکہ وہ ان پریشانیوں کے دوران سنائی دے رہی تھیں جو تین جون کے منصوبے کے اعلان کے بعد پیش آ رہی تھیں اور ان سے کشمیر جیسی شاہی ریاست ہل کر رہ گئی تھی۔اس منصوبے کے تحت‘ ہندو اکثریتی علاقے یعنی برطانوی انڈیا کو تقسیم کرکے مسلمان ریاست پاکستان بنائی جانی تھی۔نوابی ریاست کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ابھی ہوا میں تھا جہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن حکمران ہندو تھے۔ریاست کے مغربی اضلاع میں موجود مسلمانوں نے‘ حکمران مہاراجہ کے خلاف جون میں بغاوت کی اور پھر ستمبر میں جنوبی کشمیر میں مسلم کش فسادات شروع ہو گئے۔افشا کئے جانے والے پاکستانی منصوبے کی بھی اطلاعات تھیں ۔ جن میں 20 ہزار قبائلی جنگجوؤں کو کشمیر پر حملہ کرکے اس کے الحاق کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔محمد حسن قریشی کو 21 اکتوبر کی شام یاد ہے‘ جب وہ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ ایک چوٹی پر چڑھے تاکہ مغربی وادی کی صورتحال کا جائزہ لے سکیں۔ انہوں نے دیکھا کہ پٹھان ٹرکوں پر سوار ‘بتراسی پہاڑیوں کے راستے گڑھی حبیب اللہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ان کے مطابق ”ہم نے وہاں ساری رات انتظار میں گزاری۔ وہ علی الصبا ح وہاں پہنچے۔ وہ سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ زیادہ تر کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں اور تلواریں تھیں۔ چند کے پاس مشکیں تھیں دیگر کے پاس لاٹھیاں۔ حفاظتی رکاوٹوں پر موجود مہاراجہ کے محافظ غائب ہو چکے تھے‘‘۔سب سے پہلے جھڑپیں مظفر آباد کے راستے میں ہوئیں جو آٹھ کلومیٹر طویل ‘اتھاہ ڈھلوان ہے۔گڑھی حبیب اللہ سے 80 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع بٹاگرام سے تعلق رکھنے والے گوہر رحمان جنگ عظیم دوئم کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ ان جنگجوؤں میں شامل تھے جو ڈب گلی پار کرکے کشمیر میں داخل ہوئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ”ہم اس علاقے کو بہت اچھی طرح جانتے تھے لہٰذا ہم نے ایک گروپ کی رہنمائی کی اور ایک مختصر راستے سے پیدل عبور کیا۔ زیادہ تر سرحدی قبائلی جن میں وزیر‘ محسود‘ طوری‘ آفریدی‘ مہمند اور مالاکنڈ کے یوسف زئی شامل تھے‘ بسوں اور ٹرکوں کے ذریعے لوہار گلی والے لمبے مگر آسان راستے سے گئے تھے‘‘۔
تقریباً دو ہزار قبائلیوں نے علی الصبا ح مظفرآباد پر دھاوا بولا اور وہاں تعینات ریاستی کشمیری فوج کو آسانی سے بکھیر کر رکھ دیا۔ فوجی تاریخ دانوں کا اندازہ ہے کہ وہ صرف پانچ سو سابق فوجی تھے جنہیںمسلمان فوجیوں کی بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ فتح حاصل کرنے کے بعد قبائلیوں نے نیچے جا کر آگ لگائی اور لوٹ مار کی۔گوہر رحمان کا کہنا ہے کہ ”انہوں نے ریاستی اسلحہ خانے کو لوٹ لیا۔ پورے بازار کو آگ لگا دی اور سامان بھی لوٹ لیا‘‘۔ان کے مطابق ”قبائلی جنگجوؤں نے ہر اس شخص کو گولی مار دی جو کلمہ نہ پڑھ سکا۔ باقیوں نے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی‘‘۔گلیاں تباہی کا نشان بن گئی تھیں۔ تباہ شدہ عمارتیں‘ دکانوں کا ٹوٹا سامان‘ نذز آتش کیے جانے والے سامان کی راکھ اور قبائلی جنگجوؤں سمیت ریاستی فوجیوں اور مقامی افراد کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ دریا میں بھی لاشیں تیرتی دکھائی دے رہی تھیں۔چھاپہ ماروں نے مظفر آباد میں تین دن گزارے اور اس سے پہلے کہ حواس بحال ہوتے ‘رہنماؤں نے ان پر زور دیا کہ وہ سری نگر کی جانب سفر شروع کریں جو کہ ریاست کا دارالحکومت ہے اور 170 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔یہاں سے ایک گروپ ٹرکوں میں نیچے دریائے جہلم کی جانب روانہ ہوا۔ سکون سے اوڑی پار کیا اور بارہ مولا پہنچ گئے‘ جہاں ایک بار پھر آگ لگائی اور لوٹ مار کی گئی۔گوہر رحمان قبائلیوں کے اس گروپ میں تھے جس نے پیدل دو سو کلومیٹر کا سفر طے کیا اور بغیر کسی رکاوٹ کے سری نگر کے مضافات تک پہنچ گئے۔انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مہاراجہ کی فوج بکھر چکی تھی ۔ ہندووں اور سکھوں نے اپنے گاؤں خالی کر دیئے تھے۔ راستے میں ان کی ملاقات صرف مسلمانوں سے ہوئی تھی۔گوہر رحمان کا کہنا ہے کہ’ ‘مسلمان خواتین نے کئی بار ہمیں کھانے کی چیزوں کی پیش کش کی لیکن پٹھان انہیں قبول کرنے سے اس خیال کے تحت ہچکچا رہے تھے کہ کہیں اس میں زہر نہ ہو۔ اس کے بجائے وہ مویشیوں کو قبضے میں لے کر ذبح کر کے‘ گوشت بھون کرکھانا چاہتے تھے‘‘۔ (جاری)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے