اور اب ٹیپو سلطان سے کھلواڑ

اور اب بھارت کے وزیرِ مملکت آنندکمار ہیگڑے نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ ریاست کرناٹک کی کانگریس حکومت کی جانب سے سلطان فتح علی ٹیپو کی سالگرہ تقریبات ( دس نومبر) میں شریک نہیں ہوں گے کیونکہ ٹیپو لاکھوں ہندؤوں کا قاتل ہے اور کرناٹک کی کانگریس سرکار کو ٹیپو سلطان کی سالگرہ منا کر ہندوؤں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑکنا چاہیے۔
ٹیپو سلطان کوئی سیکولر، فراغ دل حکمران نہیں بلکہ غدار تھا۔اس پر کرناٹک حکومت نے وضاحت کی ہے کہ یہ دعوت نامے پچھلے تین برس کی طرح ہر وی آئی پی کو بھیجے جاتے ہیں۔اگر وزیرِ موصوف نہیں آنا چاہتے تو ان کی مرضی مگر اس قدر ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی۔

کانگریس جیسی جماعتوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ بھلے ایک سو بتیس برس کی ہی کیوں نہ ہو جائیں انھیں کچھ بنیادی باتیں کبھی سمجھ میں نہیں آتیں۔جیسے یہ کہ کسی بھی فسطائی نظریے کی عمارت جھوٹ اور سچ کے گارے پر استوار ہوتی ہے اور دلیل کے مقابلے میں دلیل نہیں بلکہ بلند آہنگی اور دشنام طرازی کا ہتھیار استعمال ہوتا ہے۔اور جب یہ ہتھیار بھی کند ہو جاتا ہے تو نوبت ہاتھا پائی پھلانگتی ہوئی قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔

فسطائی اپنی تاریخ اپنے ساتھ لاتے ہیں، وہ اپنا سچ اپنی لیبارٹری میں ایجاد کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ پوری قوم کے کان میں قیف لگا کے اپنا سچ ان کے کانوں میں انڈیل دیں۔جو مزاحمت کرے، وہ قوم اور نظریہ دشمن کہلائے۔ایسے میں فسطائیوں کے آگے دلائل کی بین بجانا خود کو ہلکان کرنا ہے۔ان کے نزدیک سچ اور حقیقت وہی ہے جو ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے اور جو اس ایجنڈے کی راہ روکے وہ دشمن پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔

اب جو وزیرِ اعظم ( مودی ) پورس اور سکندر کی لڑائی گنگا کنارے کروا دے اور لاکھوں لوگ تالیاں بجائیں۔جب وہ اعلی ترین دانشور ادارے انڈین اکیڈمی آف سائنسز سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہے کہ پہلی پلاسٹک سرجری لاکھوں سال پہلے بھارت میں ہوئی تھی جب ایک دیوتا کا سر اتار کر اس پر ہاتھی کا سر لگایا گیا تھا جسے دنیا گنیش کے نام سے جانتی ہے۔سب سائنسداں دم سادھے سنتے رہیں اور کوئی بھی نہیں جو کھڑا ہو کے کہہ سکے کہ آدرنئے پردھان منتری جی آپ یہ کیا بکواس کر رہے ہیں ؟

فاشزم کا تعلق علم و تحقیق سے نہیں طاقت سے ہے۔یا مٹ جاؤ یا مٹا دو۔خیریت چاہتے ہو تو دماغ لاکر میں بند کر دو اور چابیاں ہمارے حوالے کردو۔ اگر دماغ اپنے پاس ہی رکھنے پر بضد ہو تو پھر یہ کنٹوپ پہن لو تاکہ دولے شاہ کے چوہے بن جاؤ۔
جو لوگ تاج محل کو بھی اپنی دھرتی سے کھرچنا چاہتے ہیں۔انھیں آپ کیسے سمجھا سکتے ہیں کہ ابھی تین برس پہلے ہی تمہارے اقتدار میں آنے سے پہلے تک ٹیپو مسلمان یا ہندو نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف برصغیر کے باشندوں کی تحریکِ آزادی کا پہلا مجاہد تھا۔ٹیپو ان چند شخصیات میں سے ہے جن کی سامراج دشمنی پر بھارتیوں اور پاکستانیوں کی اکثریت آج بھی متفق ہے۔

ٹیپو سلطان کس قدر متعصب تھا اس کا اندازہ اس کی کابینہ سے ہی ہو جاتا ہے۔صوبہ راؤ وزیرِ دربار ، شمایا آئینگر وزیرِ داخلہ ، مول چند اور دیوان رائے دلی کے مغل دربار میں میسور کے نمایندے ، اور سب سے بڑھ کر ٹیپو کا وزیرِ اعظم دیوان پورنیا۔اس پر ٹیپو کو اتنا اندھا اعتماد تھا کہ اپنی راکٹ فورس کا نگراں بھی بنا دیا اور انگریز سے لڑتے لڑتے شہید ہونے سے پہلے پورنیا کے ہاتھ میں بیٹے کا ہاتھ دیتے ہوئے کہا دیوان اب یہ تیرے حوالے۔

ٹیپو نے اگرچہ زندگی بھر چومکھی لڑی۔پانچ جنگیں مرہٹوں اور نظام کے اتحاد سے اور چار جنگیں انگریزوں سے۔مگر معیشت کا یہ عالم تھا کہ ریاست میسور کی فی کس آمدنی باقی ہندوستان کی فی کس آمدنی سے پانچ گنا تھی اور میسور کی برآمدات فرانس تک جاتی تھیں۔فرانس جس نے انگریز دشمنی میں نہ صرف ٹیپو کو فوجی مشیر بلکہ اس زمانے کی ایسی جدید راکٹ ٹیکنالوجی بھی فراہم کی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھی نصیب نہ تھی۔جب سرنگا پٹم کا سقوط ہوا تو انگریزوں نے ٹیپو کی تلواروں اور نوادرات کے ساتھ ساتھ قلعے میں سے ملنے والے راکٹوں کے ذخیرے میں سے دو انگلستان بھجوا دیے۔بقول اے پی جے عبدالکلام ٹیپو دنیا کا پہلا حکمران تھا جس نے دو سو برس پہلے میدانِ جنگ میں راکٹوں کا استعمال کیا۔

میں بالکل ماننے کو تیار ہوں کہ ٹیپو نے کورگ کے ہندوؤں اور مالاباری نائروں کو بڑی تعداد میں قتل کیا۔لیکن منگلور کے عیسائیوں اور مہادیوی کے مسلمانوں اور موپلا مسلمانوں کو بھی نہیں چھوڑا مگر کیوں ؟ کیونکہ ان پر اسے انگریزوں کی جاسوسی کرنے کا شک تھا۔اگر یہ جھوٹ ہے تو مجھے امید ہے کہ بی جے پی اگلے برس سے لارڈ کارنوالس کی سالگرہ منانا شروع کرے گی کہ جس نے ٹیپو جیسے موذی سے بھارت کی جان چھڑا دی۔مگر فسطائیت میں اتنی اخلاقی جرات کہاں۔
بھارت میں پچھلے تین برس سے جو نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے اس کے مطابق ٹیپو نے میسور میں آٹھ ہزار مندر گرا دیے۔مگر عجب ہے کہ اپنے ہی محل کے بازو میں کھڑا رنگا ناتھ سوامی مندر ڈھانا بھول گیا۔کیا ’’ کمال قاتل ’’ تھا کہ ہندوؤں سے اتنی نفرت بھی تھی اور قلعے میں دس روز تک دسہرہ بھی مناتا تھا۔

ریاست میسور کے ریکارڈ کے مطابق ایک سو اٹھاون بڑے مندروں کو ٹیپو سرکار سالانہ گرانٹ دیتی رہی اور انھیں زمینیں بھی الاٹ کیں۔جب سترہ سو اکیانوے میں پیشوا مادھو راؤ کی مراٹھا سینا نے ٹیپو سے پہلی جنگ کے دوران درجنوں ہندو عبادت گاہیں بشمول سرنگیری کا مندر اجاڑ دیا۔وہاں کے شنکر اچاریہ نے ٹیپو کو تیس خط لکھے اور ٹیپو نے سرنگیری کے مندر سمیت دیگر لٹنے والے مندروں کو بحال کرنے کے لیے پیسوں اور کاریگروں کا انتظام کر کے دیا۔ یہ تمام خط انیس سو سولہ میں سامنے آئے اور ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی میسور نے محفوظ کر لیے۔سوال یہ ہے کہ مراٹھا بھی ہندو تھے تو پھر انھوں نے ٹیپو سے لڑائی کے غصے میں مندر کیوں اجاڑے۔وجہ سیاسی تھی۔مراٹھا ٹیپو کے گن گانے والے ہندؤوں کو بھی دشمن ہی سمجھتے تھے۔مگر آر ایس ایس اور بی جے پی ان حقائق کے بارے میں بالکل انجان ہیں۔

کرناٹک کے ضلع کولور میں پاروتی دیوی کے موکمبیکا مندر کی ویب سائٹ پر آج بھی لکھا ہے کہ اٹھارویں صدی کے مراٹھا حملہ آور سب سونا چاندی جواہرات لوٹ کے لے گئے۔وہاں آج بھی شام ساڑھے سات بجے ٹیپو کے نام کی پرارتھنا پچھلے دو سو برس سے منعقد ہوتی ہے۔ٹیپو کنڑا لوک داستانوں اور گیتوں میں آج بھی پایا جاتا ہے۔اور ٹیپو کی لاونیاں ( لوک گیت ) گانے والی کنڑا دادیوں نانیوں کو آج بھی ٹیپو اپنا ہیرو لگتا ہے۔

وہ جو کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔آج جو آر ایس ایس ٹیپو سلطان کو غدار اور قاتل کہہ رہی ہے۔ ستر کی دہائی میں کرناٹک کی آر ایس ایس نے بھارتئیے مہاویروں ( بہادر سپوتوں ) کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کنڑا زبان میں ’’بھارتیا بھارتی ’’ کتاب سیریز چھاپی۔ اس میں ایک کتاب ٹیپو سلطان کے کارناموں اور شخصیت پر بھی تھی۔

چلیے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ دو ہزار آٹھ میں کرناٹک کے پہلے بی جے پی وزیرِ اعلی بی ایس یادی رپا نے جب دو ہزار بارہ
میں کرناٹکا جنتا پکش کے نام سے اپنی پارٹی بنا لی تو مسلمان ووٹروں کے جلسے میں ٹیپو سلطان جیسی پگڑی باندھ ہاتھ میں تلوار پکڑ ’’ لاکھوں ہندؤوں کے قاتل ’’کو مہان ویر (قوم کا عظیم بیٹا) قرار دیا۔اور جب دو ہزار چودہ میں شری یادی رپا پھر سے بی جے پی میں لوٹے تب سے وہ ٹیپو سلطان کا نام سننے کو بھی تیار نہیں اور آج بی جے پی کرناٹک کے صدر کی حیثیت سے ٹیپو سلطان کو مقامی تاریخ سے بھی کھرچ دینا چاہتے ہیں۔ آج تاریخ کے ساتھ پہلے سے زیادہ کھلواڑ اس لیے ممکن ہے کیونکہ تاریخ بھی ایک نقد آور جنس میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اور منڈی کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کل کون سا سودا کتنے میں بیچا یا خریدا جائے گا۔

(یہ تو تھی بھارت کی مثال۔دیگر خطوں کے لوگ اپنے اپنے نظریے اور مقامی حالات کے آئینے میں اس مضمون کو دیکھ سکتے ہیں)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے