اے کارکنان جمعیت

اے کارکنان جمعیت……….آئیں قائد جمعیت پر لگے الزمات کو زمین بوس کرتے ہیں

یادرکھیں جس دن جے یو آئی انتخابی جدوجہد سے دستبرادر ہوگئی تب سے خیر خیریت ہوگی، نہ کوئی الزام ہوگا ، نہ تنقید ہوگی نہ کرپشن ہوگی ،حب صحابہ کے سرٹیفیکیٹ بھی ملیں گے اور امت کے سب سے بڑے بہی خواہاں ہونے کے ٹائٹل بھی

جمعیت علماء کے کارکن یہ بات تو پلے باندھ لیں کہ جب تک جے یوآئی انتخابی،جمہوری اورآئینی جدوجہد سےوابستہ رہےگی تب تک قائدین کی کردارکشی مختلف انداز میں کی جاتی رہےگی اگر کسی کو اس بابت کوئی ادنی سا شک وشبہ بھی ہے تو اس کے لئے عافیت اسی میں ہےکہ وہ خدمت دین کے کسی اور شعبے سے وابستہ ہوکر اس راہ دشت وبیاباں سے دامن بچالے

اس تنقید ، تنقیص، توہین میں شدت کس کی طرف سے اور کب آتی ہے اصل اس کو پہچاننے کی ضرورت ہے لیکن اس سے پہلے ایک اور بات بہت اختصار سے

مولانا صاحب آج سیاست میں جس مقام پر ہیں اس مقام پر پہنچنے میں انہیں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جو سب سے بڑی رکاوٹ اس راہ میں پیش آئی وہ اپنے مکتبہ فکر کو اس بات پر راضی کرنا تھا کہ سیاست ، آئین ، انتخابات اور جمہوریت کوئی زہر قاتل نہیں نہ ہی شجرہ ممنوعہ ہے …1980 سے قبل جمہوری قوتوں کو زیادہ موقع نہیں دیا گیا لیکن اس کے باوجود مفکر اسلام مفتی محمود ، شیخ الحدیث مولانا عبد الحق مرحوم ، مجاہد اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی اور حکیم ملت مولانا عبدالحکیم ہزاروی ایسے سلاطین علم وعمل اس میدان میں موجود تھے اوران شاندار کارنامے ریکارڈ میں موجود ہیں تاہم ان بڑے اکابر پر فتوے لگنے کے باوجود ان کے سامنے کسی کو روڑے اٹکانے کی ہمت نہیں ہوئی …1980 میں مفتی محمود رح کی وفات ہوئی اور 27 سالہ مولانا فضل الرحمان قیادت کے منصب پر فائز ہوئے….جنرل ضیاء کا سخت ترین دور آمریت ، جماعت میں اختلافات ، کئی بزرگ علی الاعلان مخالفت پر کمر بستہ .. جماعت سنھبالیں ، آمریت کا مقابلہ کریں ، بزرگوں کو منائیں…جہاد افغانستان کا طوطی بول رہا تھا ، نئی دیوبندی مذہبی جماعتیں وجود میں آگئیں ….ان سب کا مقابلہ کرتے کرتے آج مولانا صاحب اس مقام پر پہنچے ہیں

اب آتے ہیں ا صل موضوع کی طرف کہ جے یو آئی پر ہونی والی تنقید اور الزامات میں شدت کس کی طرف سے اور کب آتی ہے اصل اس کو پہچاننے کی ضرورت ہے

جمعیت علماء پر تنقید اور الزمات ہمیشہ ان لوگوں کی طرف سے آئیں گے جو ہمارے ہم شکل ،ہم عقیدہ ،ہم مسلک اورہم مشرب ہونگے،وہی نعرہ لگائیں گے جو ہم لگاتے ہیں،انہی اساتذہ کے شاگرد ہونگے جن کے ہم شاگرد ہیں ، مرکز عقیدت بھی ایک ہوگا،ایسے دوستوں کی طرف سے لگنے والے الزامات عوام میں جلدی جگہ بناتے ہیں،جن پر الزامات اثر نہ کریں وہ کنفیوژ ہوجاتے ہیں کہ کیا کریں ، ووٹ دیں یا نہ دیں کیونکہ دونوں طرف علماء ہیں ، مذہب سے وابستہ لوگ ہیں

اور ان حضرات کی طرف سے تنقید اور الزامات کا سلسلہ تب زیادہ شدت سے آتا ہے جب انتخابات قریب ہو کہ یہی وقت الزامات کے لئے زیادہ سود مند ہوتا ہے .

اب جبکہ انتخابات کا زمانہ قریب ہے ہمارے یہ کرم فرما شد ومد سے میدان میں ہیں یقین جانئے مولانا پر کرپشن کا پہلا الزام آج سے 25 سال پہلے سنا اور اب سن سن کے اور سن سن کے گھسے پٹے الزمات کے سوا کچھ نہیں لگتے اسلئے کہ 1988 سے اب تک جو مولانا جس حالت میں ہمارے گھر آرہے ہیں اس میں صرف اسی قدر تبدیلی آئی ہے جتنی تبدیلی 30سے 35 سال اسلام آباد میں سرکاری نوکری کرنے والے ملازم کی ہوتی ہے کہ جس دن ملازمت سے ریٹائرڈ اس دن رات اسلام آباد میں گذارنی مشکل .یہی حال مولانا صاحب کا کہ جس دن ایم این اے شپ ختم .سرکاری گھر کے علاوہ پھر اسلام آباد میں شب بسری کےلئے کوئی ٹھکانہ نہیں اسلئے اب ان الزامات پر کان نہ دھریں اور نہ ہی الزام لگانے والے کا پیچھا کریں .

مفتی ابرار صاحب اور ہمارے والد صاحب کہتے ہیں کہ ہم کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی شخص اپنی مجلس میں اپنے دوستوں کے ساتھ گپیں ہانک رہا تھا اس دوران اس نے کسی پلازے کے بارے دعوی کیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کا ہے . انکے کان میں یہ بات پڑی تو چونکے اور اس سے اس دعوے کے بابت تصدیق چاہی اس نے اگلے دن کا وعدہ کیا ، اگلے دن پھر ملاقات ہوئی تو بات اس سے اگلے دن پرچلی گئی کرتے کرتے پانچ سے چھ ملاقاتیں ہوئیں اور کوئی ثبوت نہیں،آخر میں سوائے ٹائم ضائع کرنے کے کچھ ہاتھ نہیں آیا سو آج بھی الزامات لگانے والوں سے ثبوت مانگنے کے چکر میں ٹائم ضائع نہ کریں. اطمینان اور خوب اطمینان کا مظاہرہ کریں .

اور ان تمام الزامات ، تنقید کو زمین بوس کردیں انتخابات میں بہترین نتیجہ حاصل کر کے انتخابات میں اچھے نتائج کے لئے برادرم سمیع سواتی کی کسی پوسٹ میں صوبہ سندھ کے ایک ضلع کے حوالے سےنظر سے گذرا کہ وہاں جماعت کے ساتھیوں نے پولنگ اسٹیشن کی بنیاد پر تنظیم سازی کر کے الیکشن کی تیاری شروع کی یہ اور اسطرح کے اور فیصلے کر کے بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں
لیکن سر دست الزام لگانے ، تنقید کرنے والوں کو سلاما
انتخابات تک کے لئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے