بھارتی پارلیمانی خارجہ امور کمیٹی کی پاکستان پر رپورٹ

بھارتی پارلیمان کی خارجہ امور سے متعلق قائمہ کمیٹی نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے 133 صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے، جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات اور بھارتی حکومت کے اپروچ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور کانگریسی رکن پارلیمان ششی تھرور کی قیادت میں کانگریس کے نائب صدر اور ولی عہد راہول گاندھی اور ان کے کزن فیروز ورون گاندھی (جو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن ہیں) سمیت سبھی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے 31 اراکین اس کمیٹی میں شامل ہیں۔ تھرور کے بقول غالباً پہلی بار کسی بھی ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو کسی پارلیمانی کمیٹی نے موضوع بحث بناکر اس کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کیلئے نہ صرف متعلقہ محکموں کے افسران کو طلب کیا، بلکہ اکیڈمک سے وابستہ غیر سرکار ی افراد سے بھی استفادہ کیا۔ نیز کئی علاقوں کا دورہ کرکے زمینی حقائق بھی معلوم کئے۔مگر حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تیز رفتار میڈیا نے اسکو قابل التفات نہ سمجھ کر درکنار کردیا۔رپورٹ بھارتی حکومت کے نقطہ نظر‘ اسکی سفارتی اور دیگر کاوشوں کا خاصی تفصیل سے احاطہ کرتی ہے۔ اس میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کو 11زمروں میں بانٹا گیا ہے۔ جس میں امن و سلامتی اور اعتماد سازی (فوجی و نیوکلیئر)، جموں و کشمیر، سیاچن گلیشیئر، سرکریک، ولر بیراج، اقتصادی اور تجارتی تعاون، انسداد دہشت گردی، منشیات پر کنٹرول، انسانی مسائل، سفر و ویزا اور عام لوگوں کے روابط، اور مذہبی مقامات کی زیارت سہل بنانا شامل ہیں۔وزارت داخلہ نے اپنی پریزنٹیشن میں کمیٹی کو بتایا کہ سات ایسے ایشوز ہیں ، جن سے دونوں ملکوں کے تعلقات مکدر ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے بھارت کی داخلی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔

یہ ایشوز کچھ اس طرح کے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کی مبینہ حمایت اور سرپرستی، دراندازی، کراس بارڈر فائرنگ اور جنگ بندی کی خلاف ورزی، مفرور ملزمان کو جائے پناہ دینا، دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت، جعلی کرنسی بھیج کر بھارتی معیشت کر زک پہنچانے کی کوشش، ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے سلسلے میں غیر اطمینان بخش پیش رفت، اس معاملے میں ملوث ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت ، پٹھانکوٹ حملہ کی تفتیش کے سلسلے میں پاکستان کی غیر سنجیدگی۔ آخری نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے، وزارت داخلہ کے نمائندے نے بتایا کہ پاکستان کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے جب پٹھانکوٹ کا دورہ کیا، تو بتایا گیا تھا کہ بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی یعنی این آئی آے کی ٹیم بھی ثبوت اکٹھا کرنے کی غرض سے پاکستان کا دورہ کرے گی، مگر تاحال پاکستان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا ہے۔

کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو فرسودہ اور ناقابل عمل قرار دیکر کمیٹی اپنی سفارشوں میں دلیل دیتی ہے، کہ 1947ء سے لیکر اب تک زمینی حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ ان میں پاکستان کی طرف سے 1963ء میں جموں و کشمیر کا علاقہ چین کے سپرد کرنا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاں نمایاں ہیں۔اس کمیٹی کے بقول پچھلے 70سالوں میں پاکستان نے اپنے زیر انتظام علاقوں میں غیر ریاستی باشندوں کو بسا کر آبادیاتی ساخت کو تبدیل کر دیا ہے۔ دوسری طرف اسکی شہہ پر وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کا انخلا کرایا گیا۔ کشمیر پنڈتوں کے انخلا پرواقعی بحث کی بھر پور گنجائش تو ہے، مگر کوئی ان سے یہ پوچھے کہ ان کی بڑی تعداد تو جموں، ادھمپور اور نگروٹہ میں ہی رہتی ہے۔ یہ علاقے تو ریاست جموں و کشمیر کا ہی حصہ ہیں اور مردم شماری میں باضابطہ ان کا اندراج ہوتا ہے۔

کمیٹی نے لداخ اور سیاچن گلیشیر کے بیس کیمپ کا بھی دورہ کیا۔ اراکین نے وزارت دفاع کا یہ نکتہ تسلیم کیا، کہ 1984ئمیں اس گلیشیر پر قبضہ کرنا ناگزیر ہوگیا تھا، کیونکہ خفیہ اطلاعا ت کے مطابق پاکستانی فوج اس کے قریبی علاقہ میں ٹھکانے بنانے جا رہی تھی۔ گو کہ کمیٹی اور اس کے سامنے حکومتی افراد نے 1972ء کے شملہ سمجھوتہ کا حوالہ دیکر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بھارت لائن آف کنٹرول کی حرمت کا قائل ہے، مگر کیا اعلانیہ طور پر اسکو روند کر سیاچن پر قبضہ کرکے اور اب حال ہی میں سرجیکل اسٹرائکس کا ڈھنڈورہ پیٹ کر شملہ سمجھوتہ کو تاریخ کے کوڑے دان میں تو نہیں پھینکا جا رہا ہے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو شملہ سمجھوتہ کی دیگر شقیں جن میں پاکستان نے کشمیر کو باہمی مسئلہ کے طور پر تسلیم کیا تھا،بھی خود بخود منجمد ہوجاتی ہیں۔کمیٹی نے مختلف وزارتوں کی طرف سے دائر کی گئی تحریری یاداشتوں اور زبانی دلائل ریکارڈ کرنے اور انکا تجزیہ کرنے کے بعد 22سفارشیں کی ہیں۔

پہلی سفارش میں حکومت کو بتایا گیا ہے کہ وہ موجودہ عالمی سیاسی اوراسٹریٹیجک صورت حال کا فائدہ اٹھا کر اور اپنے اقتصادی اثر و رسوخ کا بھر پور استعمال کرکے پاکستان کو یہ سوچنے پر مجبور کردے کہ کشیدگی اور تنازعات کو ہوا دینا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس سفارش میں پاکستان کی فوج کو نشانہ بناکر بتایا گیا ہے کہ وہ امن کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے اور اسکی بقا کشیدگی کو قائم و دائم رکھنے میں ہی مضمر ہے۔وزارت خارجہ کے نمائندے نے تسلیم کیا، کہ کشیدگی اور بات چیت کے عمل کے تعطل کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان غیر روایتی ڈپلومیسی یعنی ٹریک ٹو روابط استوار ہیں۔ اس حوالے سے وزارت خارجہ نے بنکا ک میں منعقد Chaophraya Dialogue کا ذکر کیا، جو جناح انسٹیٹیوٹ اسلام آباد اور ملبورن میں منعقد آسٹریلیا انڈیا انسٹیٹیوٹ نے منعقد کیا تھا۔

اسی طرح پاکستان کے ایک انسٹیٹیوٹ PILDATنے بھارت اور پاکستان نے اراکین پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا ایک اجلاس دوبئی میں منعقد کیا تھا۔ڈائیلاگ کے عمل کو سبوتاژ کرنے کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے وزارت خارجہ کے نمائندہ نے کہا کہ بار بار دہشت گردانہ واقعات اور اسلام آباد کی ان معاملوں کی ان دیکھی کی وجہ سے بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہے۔کمیٹی نے اپنی سفارش میں بتایا کہ بات چیت کے عمل کو دہشت گردانہ واقعات کی بھینٹ نہیں چڑنے دینا چاہئے‘ دونوں ممالک کو سفارتی اور دیگر کیمونیکیشن چینلز کو کھلا رکھنا چایئے۔ مگر ایک بار پھر اعادہ کیا، کہ عالمی برادری پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے پاکستان کو باور کرایا جائے کہ بات چیت میں تعطل کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

کمیٹی نے مزید حکومت کو بتایا کہ وہ Do’s and Don’t کی ایک لسٹ تیار کرکے دو طرٖفہ تعلقات میں ریڈ لائنز کی واضح نشاندکرے، تاکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی پیغام دیا جائے کہ ان لائنز سے آگے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ بھی سفارش کی گئی ہے، کہ بھارت کو پاکستان سے نمٹنے کیلئے ایک جامع مربوط نیشنل پالیسی ترتیب دینی ہوگی اور یہ قومی سلامتی ڈاکٹرین کا حصہ ہونی چایئے۔ سیکرٹری دفاع نے کمیٹی کے اراکین کے سوالات کے جواب میں بتایا کہ حکومت فی الحال ایک نیشنل سیکورٹی فریم ورک ترتیب دے رہی ہے اور اس پر اعلیٰ سطح پر نیشنل سیکورٹی کونسل اور دیگر اداروں میں غور و خوض ہورہا ہے۔کمیٹی کا کہنا تھا، کہ اس پالیسی فریم ورک میں وزارت خارجہ کا کلیدی رول ہونا چاہئے۔کیونکہ وزارت خارجہ کے نمائندے نے کسی ایسی پالیسی سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

سیاچن گلیشیر کے حوالے سے وزارت خارجہ کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ اس ایشو کا حل پاکستان کی طرف سے فوجوں کی موجودہ پوزیشنز کی تصدیق سے منسلک ہے۔ جب یہ مرحلہ طے ہوتا ہے تو اس برفانی ریگستان سے فوجوں کا انخلاء ممکن ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا، کہ اس غلط بیانی پر وزارت خارجہ کے افسر کی سرزنش کی جاتی اور سزا کے طور پر پارلیمان کی استحقاق کمیٹی کے سامنے اسکی پیشی کروائی جاتی۔ من موہن سنگھ کے دور میں سیکرٹری خارجہ رہے شیام سرن نے اپنی تازہ تصنیف میں سیاچن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 2006ء میں تمام امور پر تفصیلات طے ہوگئے تھیں، حتیٰ کی ایگریمنٹ کے خد وخال اور فوجوں کے انخلا کا کیلنڈر بھی پایا گیا تھا۔مگر اسوقت کابینہ کی سلامتی امور سے متعلق کمیٹی کی میٹنگ میں قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن نے تلخ اور جارحانہ رویہ اختیار کرکے اس مسئلہ کے حل کو سبو تاژ کر دیا۔

کمیٹی نے اپنی سفارش میں بتایا ہے، کہ کشمیر میں سکیورٹی حالات نیز پاکستان اور چین کے درمیان حالیہ اشتراک کے پس منظر میں سیاچن پر 2006ء کے ایگریمنٹ کو دوبارہ میز پر لانے کے بجائے اسکو دیگر امور کے ساتھ مربوط کیا جائے۔کمیٹی نے یہ بھی بتایا ہے کہ چونکہ اس علاقہ میں فوجوں کا انخلا پاکستان کے مفاد میں ہے، اس لئے جب تک سکیورٹی حالات مجموعی طور پر بہتر نہیں ہوتے‘ تب تک صرف سیاچن پر پیش رفت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کمیٹی کو بتایا کہ بھارت کے پاس سب سے بڑاچیلنج عالمی برادری میں اس تاثر کو زائل کرنا ہے، کہ بھارت اور پاکستان یکساں طور پر دہشت گردی سے متاثر ہیں۔ اس نے کہا کہ بھارت کا ایک اہم سفارتی نکتہ ہے کہ ’’ہمارے ہاں دہشت گردی کے واقعات باہر کی پیداوار ہے اور یہ ہم پر لادی گئی ہے ، جبکہ پاکستان خود اپنی پیدا کردہ دہشت گردی کا شکار ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، کہ بھارت نے عالمی برادری کو بڑی حد تک قائل کیا ہے، کہ’’ اگر پاکستان دہشت گردی کی لت سے اپنے آپ کو چھڑواتا ہے، تو بھارت حق ہمسایہ ادا کرتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کیلئے تیار ہے۔‘‘ جے شنکر نے مزید کہا 2014ئمیں سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی دہلی آمد نے اس پیغام کو عالمی برادری تک پہنچانے میں بڑی مدد کی۔

کشمیر کے حالات پر وزارت داخلہ کے ایک افسر نے کمیٹی کے اراکین کے سوالات کے جواب میں کہا موجودہ شورش کی جڑ بنیاد پرستی کاعروج، قوم دشمن طاقتوں کی طرف سے نوجوانوں کو اکسانا اور مناسب روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی سے منسلک ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا، کہ اس سلسلے میں حکومت کے پاس کیا لائحہ عمل ہے، تو اس نے کہا، کہ10ہزار افراد کوسپیشل پولیس افسران کے طور پر بھرتی کیا گیاہے۔ 1200افراد کو نیم فوجی تنظیموں کیلئے منتخب کیا گیا ہے اور 5000مزید افراد کو ریزرو پولیس میں بھرتی کیا گیا ہے۔اس افسر کی اس پریزنٹیشن پر مجھے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال کا واقعہ یاد آرہا ہے۔ ان کے مطابق جب و ہ اندرا گاندھی کی حکومت میں وزیر کمیونیکیشن تھے، تو ان کی موجودگی میں جموں و کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام محمد صادق ملنے آئے اور شکایت کی کہ جب وہ وزیر اعظم سے کشمیر کیلئے مزید فوجی یا نیم فوجی دستوں کی کمک یا پولیس کیلئے فنڈز کا مطالبہ کرتے ہیں، تو اندا گاندھی اسکو فی الفور تسلیم کرتی ہے ۔مگر جب وہ کشمیر کیلئے کسی انڈسٹری یا وہاں کی کسی صنعت کی جدید کاری کیلئے مدد مانگتے ہیں،تو بھارتی حکومت کو چپ لگ جاتی ہے۔ 40سال بعد بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ گو کہ یہ خاصی طویل رپورٹ ہے، مگر اس سے ایک بات طے ہے، کہ کس طرح حکومت اور پارلیمان کے اراکین نے اپنی آنکھیں بند کر کے رکھی ہوئی ہیں۔ دہشت گرد ی اور اس سے متعلق دیگر عفریت کو پنپنے کیلئے عدم استحکام چاہئے، اور اس سے نجات سیاسی تنازعات کو عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔

اگر دہشت گردی دو طرفہ معاملہ نہیں بلکہ عالمی ایشو ہے اور اس کے لئے عالمی حمایت کی ضرورت ہے، تو دہشت گردی کے منبع یعنی سیاسی تنازعات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اور ان کا قلع قمع بھی ضروری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے