ٹلرسن خوش آمدید، اجے شکلا شکریہ!

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن آج کل جلے پاوں کی بلی بنے پھر رہے ہیں۔پہلے انہوں نے افغانستان میں بگرام ائیر بیس کا خفیہ دورہ کیا پھر عراق پہنچ گئے،جہاں انہوں نے ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروپوں کو مفت مشورہ دیا کہ وہ عراق سے نکل جائیں اور بچا کچھا عراق ، عراقیوں کو سنبھالنے دیں۔ بات گو سچی تھی لیکن عراق اور ایران دونوں کو پسند نہیں آئی۔دونوں کو ان کے حال پہ چھوڑ کر اور کردوں اور عراق کو اپنے مسئلے مسائل مذاکرات سے حل کرنے کا مشورہ دے کر اب امریکی وزیر خارجہ پاکستان کے طوفانی دورے پہ روانہ ہورہے ہیں جس کے بعدوہ بھارت کا دورہ کریں گے۔

ریکس ٹلر سن ایک ایسے منصب پہ زبردستی فائزکئے گئے ہیں جس کے لئے وہ کبھی موزوں نہیں تھے۔ وہ اگر کسی کام کے لئے موزوں تھے تو وہ ان کا ماضی تھا یعنی کارپوریٹ کلچر کا اشرافی نمائندہ ہونا۔ ٹلرسن قدرتی تیل اور گیس دنیا بھر میں سپلائی کرنے والی امریکی فرم ایکسون کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ایکسون میں چالیس سالہ کارپوریٹ تجربے کا حامل ہونے اور اس کے سربراہ کی حیثیت سے اگر کوئی بات انہیں وزیر خارجہ ہونے کا اہل بناتی ہے تو وہ مختلف اہم خلیجی اور یورپی ممالک بالخصوص روس سے ان کے کاروباری تعلقات ہیں ۔بنظر غائر دیکھا جائے تو امریکی وزارت خارجہ کے لئے ان سے زیادہ اہل اور کون ہوسکتا ہے جسے دنیا بھر میں امریکہ کے کاروباری مفادات کا سب سے زیادہ علم اور فکر ہو۔ امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے ان کی بس اتنی اہمیت ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے پیغامات یا دھمکیاں پوری ایمانداری سے دنیا بھر میں پہنچاتے رہیں اور وہ یہی کر رہے ہیں۔

طرفہ تماشا لیکن یہ ہے کہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف مسلسل دباو میں رکھنے والے امریکی وزیر خارجہ خود افغانستان کو معتدل طالبان سے مزاکرات کا مشورہ بھی دیتے ہین اور ان کی حکومت میں شمولیت کا عندیہ بھی دیتے ہیں۔ یہ دوہری پالیسیاں ہی امریکہ کی جان کو آگئی ہیں۔ گذشتہ دنوں گلبدین حکمت یار کا افغان حکومت سے معاہدہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا لیکن کیا یہ ممکن ہوگا کہ حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کے تمام چھوٹے بڑے گروپوں کو حکمت یار کی طرح راضی کرلیا جائے۔ اگرچہ پکتیا میں عمر خالد خراسانی اور ملا منصور جیسے شدت پسند طالبان کو ٹھکانے لگایا جا چکا ہے پھر بھی مزاکرات کی پیشکش ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ گیند ابھی بھی طالبان کے ہی کورٹ میں ہے جس سے وہ فٹ بال کھیل رہے ہیں جس کا گزشتہ دنوں نیٹو کے ہیڈ کوارٹر اور ملٹری اسکاوٹ بس پہ حملہ کرکے انہوں نے ثبوت بھی دیا ہے۔

اگست میں صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا اور افغان پالیسی تقریر جس میں انہوں نے پاکستان پہ دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا تھا، افغانستان سے اپنے اچانک انخلا کی غلطی کو نہ دہرانے کے عزم کا اظہار بھی کیا جب سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ افغانستان سے ایسے نکل گیا تھا جیسے کھانے کی میز پہ برتن دھرے ہوں اور نیچے سے میز پوش ایک جھٹکے سے کھینچ لیا جائے۔ ایسے میں جو خلا پیدا ہوا اسے مرشد مشتاق احمد یوسفی کی زبان میں نئی نسل (کے طالبان )نے اس تیزی سے پُر کیا کہ خلا بالکل نا کافی ثابت ہوا۔اسی خلا کو پر کرنے کے لئے مزاکرات کا چارہ ڈالا جارہا ہے اور ان لوگوں سے رابطے کئے جارہے ہیں جو خود ان حالات کے ذمہ دار تھے ۔ یہی وہ چکربازیاں ہیں جو مزاکرات کے متعلق امریکہ کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ امریکہ کا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے۔

چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ نے اسے بھارت کے سر پہ ہاتھ رکھنے پہ مجبور کیا ۔ امریکہ نے یہ کوشش بھی کی کہ بھارت اپنے فوجی دستوں کی صورت میں افغانستان میں اسی طرح موجود ہو جیسا کہ خود نیٹو اور امریکہ موجود ہے ۔ اس سال ستمبر میں امریکی وریز دفاع جان میٹس کے دورہ بھارت کے موقع پہ امریکہ نے بھارت سے پندرہ ہزار فوجیوں پہ مشتمل دستہ افغانستان بھیجنے کا مطالبہ کیا جو اس نے کما ل بے اعتنائی سے ٹال دیا باالفاظ دیگر ڈو مور سے انکار کردیا۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ صدر ٹرمپ بھارت کی اس ادا پہ لہلوٹ ہوگئے اور اسے بھارتی وزیر اعظم مودی کی بے پناہ سیاسی بصیرت سے تعبیر کیا حالانکہ اس سے پہلے اگست میں وہ بھارت کو صاف کہہ چکے تھے کہ افغانستان میں بلین ڈالرز کی بھارتی تجارت اب مفت میں نہیں ہوگی ڈو مور تو کرنا پڑے گا۔امریکہ نے یہاں بھی اپنی روایتی دو دھاری پالیسی اختیار کی۔یعنی ایک طرف بھارت کی پیٹھ تھپکی دوسری طرف اس فیصلے پہ سکھ کا سانس بھی لیا۔ کیونکہ بھارت کے افغانستان میں فوجی دستے بھیجنے کا واضح مطلب پاکستان کو برافروختہ کرنا تھا جو فی الحال امریکہ کے حق میں نہیں جاتا۔

پاکستان پہ وہ پہلے ہی اس شک کا برملا اظہارکرچکا ہے کہ ایک طرف وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے تو دوسری طرف امریکہ کا اتحادی بھی ہے یعنی ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ ایسے میں دوسری سرحد پہ بھی بھارت کی موجودگی پاکستان کو کسی بھی انتہائی قدم پہ مجبور کرسکتی ہے جس میں پاکستان ہر قسم کا کھیل کھیلنے میں حق بجانب ہوگااور چین جس میں اس کے ساتھ ہوگا۔پھر یہ بھی ہے کہ کشمیر میں بے پناہ فوج اور وسائل جھونک کر بھارت نے کیا حاصل کرلیا جو وہ یہی غلطی افغانستان میں دہرائے جبکہ دہائیوں سے جاری یہ امریکی غلطی مذید کتنی دہائیوں تک جاری رہے اس کا کوئی علم نہیں۔ بھارت کا ایک مسئلہ اور بھی ہے اور وہ ہے بھارت میں مسلمان اقلیت کے ساتھ اس کا امتیازی سلوک جو بھارتی مسلمانوں میں مسلسل احساس محرومی پیدا کررہا ہے۔

حال ہی میں افغانستان میں موجود داعش اور طالبان کے بعض گروپوں میں بھارتی مسلمانوں کی شمولیت کا انکشاف ہوا ہے۔ ایسے میں بھارتی فوجی دستوں کی افغانستان موجودگی ان گروپوں کو بھارت میں وہی کاروائیاں کرنے کا جواز فراہم کرے گی جو وہ پاکستان میں کرتے رہے ہیں۔ ایک درجن سے زائد آزادی کی تحریکوں سے نبٹتا بھارت ایک اور محاذ کھولنے کے موڈ میں نہیں ہے اور وہ ایسا کرے بھی کیوں جب و ہ افغانستان میں تجارت،تعلیم، ثقافت اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی سے اپنے مقاصد بہتر طور پہ حاصل کرسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی بحالی اب ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔ اب اگر یہ کام بھارت سنبھال لے تو کیا حرج ہے۔اور اس نے سنبھال رکھا ہے۔ بھارت افغانستان کو سب سے زیادہ امداد دینے والے ممالک میں چھٹے نمبر پہ ہے۔ اس نے ہرات میں سلمی ڈیم بنا یا ہے جو 42 میگا واٹ بجلی پیدا کرکے اسی ہزار ایکڑ رقبہ سیراب کرے گا۔ کابل میں افغان پارلیمنٹ کی نئی عمارت بھی بھارت کی امداد سے تعمیر ہوئی ہے۔گذشتہ برس اس نے افغانستان کو ایک بلین ڈالر کی امداد رقم کی صورت میں دی ہے۔

یہ امداد جنگ سے تباہ حال اس ملک کے لئے اس ملک کی طرف سے ہے جس کی آدھی سے زیادہ آبادی کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔اس نے چار ہزار سے زائد افغان فوجیوں کو تربیت دی ہے جس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس کے علاوہ افغان فضائیہ کو روسی ساختہ ہلی کاپٹر بھی عطیہ کئے ہیں۔2001 سے اب تک دس ہزار سے زائد افغان طلبا بھارت میں اسکالرشپ حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ظاہر ہے وہ پاکستان کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔2013-2014 کے دوران بھارت افغان تجارت کا حجم 680 ملین ڈالر تھا جس میں اضافہ ہوسکتا تھا اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان APTTA معاہدے میں بھارت بھی شامل ہوجاتا لیکن آج کے دن یہ معاہدہ اشرف غنی نے اسی وجہ سے منسوخ کر دیا ہے اور بھارتی ایما پہ پاکستانی ٹرکوں کا داخلہ افغانستان میں بند کردیا ہے۔ سو سے زائد بھارتی کمپنیا ں اس وقت افغانستان کے صحت تعلیم اور زراعت سمیت تین سو سے زائد شعبوں میں کامیاب سرمایہ کاری کررہی ہیں۔اس کے علاوہ ثقافتی محاذ پہ بھی بھارت ڈٹا ہوا ہے اور مختلف افغان شہر بھارتی شہروں کی جڑواں بہنیں قرار دئے جاچکے ہیں جن میں کابل، قندھار، ہرات اور کنار شامل ہیں۔ اس سے زیادہ عسکری محاذ پہ بھارت افغانستان میں کچھ کرنے کو تیار نہیں۔

نیویارک ٹائمز کے ستمبر کے ایک شمارے میں بھارتی صحافی اجے شکلا لکھتے ہیں کہ بھارت با آسانی اپنی ڈیڑھ لاکھ ملین فوج میں سے چند ہزار افغانستان بھیج سکتا ہے لیکن ہم ایسا کیوں کریں۔ ہم افغانستان میں کبھی جنگ کا حصہ نہیں رہے، نہ سوویت یونین کے خلاف نہ امریکہ کے خلاف۔ہم تو تباہ حال افغانستان کو اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے میں مدد دے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک بھارتی صحافی کی حیثیت سے مجھے افغانستان میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے جبکہ پاکستان سے واضح بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہمیں وہاں فوج بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ شکریہ اجے شکلا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے