ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل

خبر آپ نے پڑھ لی ہو گی، نہیں پڑھی تو میں بوریت کی قیمت پر دہرا دیتا ہوں۔ مارک رتّے (Mark Rutte) ہالینڈ کے وزیر اعظم ہیں، گزشتہ ہفتے انہوں نے ایک عجیب و غریب حرکت کی، اُنہیں ہالینڈ کے بادشاہ سے ملاقات کے لئے پہنچنا تھا تو شاہی محل تک جانے کے لئے انہوں نے جس سواری کا انتخاب کیا وہ ایک بائیسکل تھی، بغیر کسی پروٹوکول اور کرّو فر کے محض ایک بائیسکل۔ اس سائیکل پر سوار ہو کر جب وہ قصر شاہی پہنچے تو انہوں نے مناسب سمجھا کہ اپنی سائیکل کو تالا بھی لگایا جائے، سو انہوں نے بادشاہ سلامت کے محافظوں کی موجودگی میں اپنی سائیکل کو نہایت احتیاط سے (غالباً زنجیر والا) تالا لگایا اور پھر محل کے اندر تشریف لے گئے حالانکہ وہ پاس کھڑے دربانوں کہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ’’یار، ذرا خیال رکھنا….!‘‘ مگر انہوں نے غالباً بادشاہ کے عملے پر اعتبار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ موصوف کی اِس سادگی پر دنیا نے جو تبصرے کئے سو کئے اپنے ہاں انہیں بہت مقبولیت ملی، اِس سے پہلے پاکستان میں صرف پطرس بخاری والے مرزا کی بائیسکل مشہور تھی اب ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل بھی ’’اِن‘‘ ہو گئی ہے۔ پھر جیسے کہ ہوتا ہے، یار لوگوں نے ایک دوسرے کو ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل کی سواری کرتے ہوئے تصویریں دھڑا دھڑ بھیجنی شروع کر دیں جن کے نیچے اس قسم کے جملے تھے کہ ’’ایسے ہوتے ہیں حکمران….یہ ہوتی ہے اصل جمہوریت …. ہمارے حکمران ایسے کیوں نہیں ہیں….نہ جانے کب تک ہم اپنے کرپٹ حکمرانوں کا کرو فر اپنی جیبوں سے بھرتے رہیں گے….‘‘وغیرہ وغیرہ۔

یہ باتیں بڑی دلکش ہیں، نعرے بہت مسحور کُن ہیں مگر موازنہ بالکل گمراہ کُن ہے۔ ہالینڈ کی گورننس اُس کے وزیر اعظم کی سائیکل پر نہیں چل رہی بلکہ ہالینڈ کا نظام اُس سائیکل کی طرح چل رہا ہے جس میں مکمل شخصی آزادی کی گراری گھومتی ہے تو ساتھ جمہوریت کی گراری بھی گھومتی ہے، قانون کی پاسداری کا پچھلا پہیہ گھومتا ہے تو ساتھ ہی آئین کی پاسداری کا اگلا پہیہ بھی اپنی راہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے، گدی پر بیٹھا عوام کا منتخب نمائندہ لوگوں کو جوابدہ ہوتا ہے، اسے یہ ڈر نہیں ہوتا کہ راہ میں اُس سے کوئی سائیکل چھین لے گا۔ یہ ہے وہ اصلی بائیسکل جسے ہمیں آئیڈیالائز کرنا چاہئے مگر یہ چونکہ مشکل اور محنت طلب کام ہے اور ہم ٹھہرے سہل پسند خود ساختہ محب وطن سو ہمیں تو بس ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل چاہئے، گویا یہ سائیکل ہمارے تمام دکھوں اور مصیبتوں کا علاج کر دے گی۔ دراصل ہمارا بھی قصور نہیں، ہم نے بچپن سے ایسے قصے سُن رکھے ہیں جن میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا سلطان بے حد غریب پرور اور سادہ ہوا کرتا تھا، فقط امرود کھا کر گزارا کرتا تھا، بھیس بدل کر بغداد میں چکر لگایا کرتا تھا، موقع پر انصاف کیا کرتا تھا، کسی اپیل یا پیشی کے جھمیلے میں پڑے بغیر وہیں کھڑے کھڑے پھانسی کا حکم ہوتا اور گردن اتار دی جاتی، ہم اسی قسم کا انقلابی نظام آج کی اکیسویں صدی میں چاہتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ جب بھی ایسا ہو تب ہماری گردن کو استثنیٰ مل جائے باقیوں کی اتار دی جائیں۔

اس قسم کی حکومت کا ماڈل آج کل بھی کچھ پی ایچ ڈی حضرات بیچ رہے ہیں، یہ نہایت کائیاں لوگ ہیں، انہیں علم ہے کہ اب پڑھے لکھے ذہن ان pre-modern قصوں سے متاثر نہیں ہوتے سو اب وہ عوام کو ایسا چُورن بیچتے ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں اصلی جمہوریت وہ ہوتی ہے جس میں وزیر اعظم سائیکل پر بیٹھ کر دفتر آئے، جس میں پڑھے لکھے اور اپنے شعبوں کے ماہر لوگوں کے ہاتھ میں وزارتیں ہوتی ہیں جو اپنے وسیع علم اور تجربے کی مدد سے سسٹم کو درست کرتے ہیں اور جس میں جاہل عوام کرپٹ حکمرانوں کو منتخب نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں بہت پُرکشش ہیں، کون نہیں چاہتا کہ حکمران سادہ ہوں، وزارتوں میں ماہرین پالیسی ساز ہوں اور انتخابی عمل ایسا ہو کہ ایک عام پڑھا لکھا شخص بھی با آسانی منتخب ہو کر پارلیمان میں آسکے۔ مسئلہ مگر ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل کی مثالیں دینے والوں کا یہ ہے کہ انہیں وزیر اعظم کی سائیکل تو نظر آگئی مگر یہ نظر نہیں آیا کہ اس سائیکل کی سواری کے لیے ہالینڈ کی جمہوریت نے کتنا سفر طے کیا ہے۔ وہاں صرف وزیر اعظم کی سائیکل ہی نہیں ہے بلکہ مکمل آزادی اظہار بھی ہے، بھرپور جمہوری اقدار بھی ہیں، وہاں مذہب یا مسلک کی بنیاد پر کوئی ووٹ نہیں مانگ سکتا، وہاں کسی غیر آئینی بندوبست کی آس میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر صاحبان اپنا سی وی لئے نہیں پھرتے، وہاں کوئی غیر ریاستی مسلح جتھے نہیں جو راہ چلتے وزیر اعظم کو بم سے اڑا دیں، وہاں عام شہری کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کی بے خوف آزادی ہے کسی کے ذہن میں اَن دیکھا خوف نہیں ابلتا، وہاں ہر دس برس بعد کوئی جمہوریت کا پودا اکھاڑ کر یہ نہیں دیکھتا کہ اب تک یہ تناور درخت کیوں نہیں بن سکا، وہاں میڈیا پر یوں پگڑیاں نہیں اچھالی جاتیں اور بنا ثبوت کے الزامات نہیں لگائے جاتے۔

واللہ میرا ارادہ اس قدر سنجیدگی دکھانے کا نہیں تھا مگر کیا کیجئے کہ آج کل یار لوگ مجبور ہی کچھ یوں کر دیتے ہیں۔ جب میں نے ہالینڈ کے وزیر اعظم کی تصویر دیکھی تو پہلا خیال یہ آیا کہ یہ سائیکل موصوف کی اپنی ہے یا کرائے کی، یقیناً کرائے کی ہوگی کیونکہ ہالینڈ جیسے ممالک میں یہ چلن عام ہے کہ سائیکلیں کسی بس سٹاپ قسم کی جگہ سے مل جاتی ہیں، آپ سکہ ڈالیں اور سائیکل لے جائیں۔ کوئی وہاں کھڑی سائیکل بغیر پیسے کے اٹھا نہیں لے جاتا، سائیکل والوں کے لئے سڑک پر علیحدہ نشان ہوتے ہیں جن کے اندر سائیکل چلائی جاتی ہے کوئی سڑک پر لہراتا نہیں پھرتا، سڑکیں شیشے کی طرح صاف ہیں جن کے لئے ڈچ عوام اپنی جیبوں سے ٹیکس ادا کرتے ہیں، ہالینڈ میں ٹیکس جی ڈی پی کی شرح کے چالیس فیصد کے قریب ہے اور اپنے پاکستان کی مشکل سے دس فیصد لیکن اس کے باوجود ہمیں ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل ہی چاہئے اس سائیکل کے ساتھ جڑا نظام نہیں چاہئے کیونکہ اگر ساتھ میں وہ نظام اپنانا پڑا تو پھر اسی حساب سے ٹیکس بھی دینا پڑے گا، قانون کی پاسداری کرنی پڑے گی، آئینی حدود میں رہنا پڑے گا، جمہوریت کی قدر کرنی پڑے گی، آزادی اظہار دینا پڑے گی، مذہبی منافرت ختم کرنا ہوگی۔ یہ سب کچھ چونکہ ہمارے اپنے کرنے کے کام ہیں اور خاصے مشکل ہیں لہٰذا تب تک ایک دوسرے کو ڈچ وزیر اعظم کی سائیکل والی تصویر بھیج کر محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے رہیں اور ہالینڈ کے کسی پب میں بیٹھ کر اِس بات کا ماتم کرتے رہیں کہ پاکستان میں حکمران سائیکل پر سفر کیوں نہیں کرتے۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ایسے درد مند پاکستانیو ں میں سے کوئی ڈچ وزیر اعظم کی سائیکل ہی چرا کر پاکستان بھجوا دے۔ لیکن یاد رہے ہمیں ڈچ وزیر اعظم کی سائیکل نہیں بلکہ جمہوریت کی سائیکل چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے