سازشوں کے سامنے باڑ

یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس پیش رفت پر پاکستان میں خاموشی ہے لیکن افغانستان میں شور اُٹھ رہا ہے۔ جب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اسلام آباد میں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت پر یہ زور دے رہے تھے کہ افغانستان میں بدامنی پھیلانے والوں کے پاکستان میں ٹھکانے ختم کئے جائیں تو افغانستان کی پارلیمنٹ میں یہ شور مچایا جا رہا تھا کہ پاک افغان بارڈر پر باڑ کیوں لگائی جا رہی ہے؟ افغان پارلیمنٹ کے رکن شیر محمد اخونزادہ نے الزام لگایا کہ افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ایک خفیہ سمجھوتہ کر لیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگائی جا رہی ہے اور صدر اشرف غنی خاموش ہیں۔ رحمت اللہ اچکزئی، محمد عالم ازدیار اور فضل ہادی مسلم یار نے بھی جنوبی ہلمند سے تعلق رکھنے والے شیر محمد اخونزادہ کی حمایت کی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف افغانستان کی اشرافیہ پاکستان پر الزام لگاتی ہے کہ اُن کے ملک میں بدامنی پاکستان سے کرائی جاتی ہے اور جب پاکستان اس الزام کا مداوا کرنے کے لئے بارڈر کو محفوظ بنا کر غیر قانونی آمد و رفت کو روکنے کی کوشش کرتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے۔ 1947ءکے بعد سے پاکستان ڈیورنڈ لائن کو ایک باقاعدہ بارڈر بنانا چاہتا ہے لیکن کوئی افغان حکومت راضی نہیں ہوتی۔ 1976ءمیں سردار دائود اور ذوالفقار علی بھٹو ڈیورنڈ لائن کو مستقل بارڈر بنانے پر راضی ہو گئے تھے۔ سردار دائود نے پاکستان میں نیپ کے گرفتار رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور بدلے میں ڈیورنڈ لائن کو مستقل بارڈر تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن اُس وقت جنرل ضیاء الحق نے کچھ تحفظات ظاہر کئے تھے۔ بہرحال قیام پاکستان کے 70سال کے بعد اڑھائی ہزار کلومیٹر لمبے پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے پاکستان آنے سے پہلے کراچی میں ایک اہم واقعہ ہوا۔ کراچی میں افغان طالبان کے کچھ اہم رہنمائوں کو اکٹھا کیا گیا اور بتایا گیا کہ انہیں پاکستان کے راستے سے افغانستان میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس ملاقات کا اہتمام جن پاکستانی علماء کے ذریعہ ہوا انہوں نے افغان طالبان کو یہ بھی بتایا کہ آپ کا ایران کے ساتھ خفیہ تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن پوری دنیا پاکستان پر الزامات لگاتی ہے۔ دنیا کہتی ہے کہ افغان طالبان کی کوئٹہ شوریٰ افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے حالانکہ آپ کی اصل شوریٰ تو ہلمند میں بیٹھی ہوئی ہے جسے افغان ایران بارڈر کی طرف سے امداد مل رہی ہے۔ پاکستان میں موجود افغان طالبان رہنمائوں سے کہا گیا کہ وہ یہاں سے اپنے خاندانوں کو لے جائیں یا قانون کے مطابق مہاجر بن کر پرامن زندگی گزاریں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو میری باتوں پر یقین نہ آئے لیکن پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت نے باہمی مشورے سے کچھ اہم فیصلے کئے ہیں جن پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ اس نئی حکمت عملی کا اصل مقصد مغربی سرحد کو محفوظ بنانا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے کیونکہ پاکستان کی سرزمین سے کسی دوسرے ملک میں مداخلت کرنے والے دراصل دوسرے ممالک کو پاکستان میں مداخلت کا جواز مہیا کرتے ہیں۔

آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ ریکس ٹلرسن اسلام آباد آئے تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے یک زبان ہو کر اُن سے بات کیوں کی۔ ایک طرف پاکستان کی سلامتی کے خلاف غیرملکی سازشیں بڑھ رہی ہیں دوسری طرف پاکستان میں سیاسی بے یقینی اور انتشار ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں کو ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کے خلاف شور مچانے پر اکسایا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ رقم ڈالروں میں نہیں پائونڈز میں آئی ہے جس کے ثبوت موجود ہیں۔ پاکستان کے خلاف اندر اور باہر سے اتنی زیادہ سازشیں ہو رہی ہیں لیکن میڈیا پر سیاسی بیان بازیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک افغان سفارتکار نے پوچھا کہ آپ لوگ بھارت کو پاکستان کے لئے اتنا بڑا خطرہ کیوں سمجھتے ہیں؟ یہ سوال سُن کر میں نے اسے بتایا کہ 1947ءمیں جس قبائلی لشکر نے مظفر آباد کو آزاد کرایا تھا اُسے جہاد کے لئے ملا شوربازار نے کابل سے حکم جاری کیا تھا لہٰذا بھارتی حکومت نے بھی افغانستان کے راستے سے پاکستان میں مداخلت کے منصوبے بنانے شروع کر دیئے۔

پاکستانی فوج کے ایک افسر میجر جنرل اکبر خان (رنگروٹ) قائد اعظمؒ کے بہت قریب تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’میری آخری منزل‘‘ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کا سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا پاکستان سے زیادہ انگریز سرکار کا وفادار تھا۔ سکندر مرزا نے میجر جنرل اکبر خان کو کراچی سے کوئٹہ ٹرانسفر کردیا تاکہ اُن کا قائد اعظمؒ سے رابطہ نہ رہے۔ میجر جنرل اکبر خان لکھتے ہیں کہ 1948ءمیں قندھار کا گورنر پاکستان کی سرحد کے قریب ایک لشکر تیار کر رہا تھا اور اس لشکر کی تیاری میں ایک انگریز آئی سی ایس افسر اُس کی معاونت کر رہا تھا جسے بھارت سے بھیجا گیا تھا۔ ایک انگریز بریگیڈیئر اس لشکر کے لئے منصوبہ بندی کر رہا تھا یہ دونوں انگریز افسر تقسیم ہند سے قبل بلوچستان میں تعینات رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب قلات کے شہزادہ عبدالکریم نے پاکستان کے خلاف بغاوت کر دی اور افغانستان روپوش ہو گئے۔ میجر جنرل اکبر خان لکھتے ہیں کہ افغانستان کے راستے سے پاکستان میں گڑبڑ کا منصوبہ ناکام بنانے کے لئے بلوچستان کے جن عمائدین نے میری مدد کی ان میں نواب محمد اکبر خان بگٹی بھی شامل تھے۔ دوسری طرف وزیرستان میں فقیر ایپی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ میجر جنرل اکبر خان کی کتاب میں بہت سے تاریخی حقائق رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو اپنے قیام کے فوراً بعد بڑی بڑی سازشوں کا سامنا تھا اور ان سازشوں میں سرکار برطانیہ کے علاوہ بھارت کی حکومت، پاکستانی فوج کا انگریز کمانڈر اور سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا سرفہرست تھے۔ اسکندر مرزا بنگال کا رہنے والا تھا۔ میر جعفر علی خان نجفی کا پڑپوتا تھا۔ میجر جنرل اکبر خان کے بقول قائد اعظمؒ میر جعفر کے پوتے سے خوش نہ تھے لیکن اس کی تقرری وزیراعظم لیاقت علی خان نے کی تھی اس لئے خاموش رہے۔ اسی اسکندر مرزا نے 1954ء میں مشرقی پاکستان کا گورنر بننے کے بعد وہاں اتنا ظلم کیا کہ بنگالی پاکستان کے خلاف نعرے لگانے لگے۔

پاکستان کی عمر ستر سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ ستر سال سازشوں کا مقابلہ کرنے میں گزر گئے۔ کچھ سازشیں اپنوں نے کیں کچھ غیروں نے کیں لیکن پاکستان آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ ستر سال بعد پاک افغان بارڈر پر باڑ لگائی جا رہی ہے لیکن صرف باڑ لگانے سے سازشیں ناکام نہیں بنائی جا سکتیں۔ سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاسی و فوجی قیادت کو قومی معاملات پر متفقہ پالیسی اختیار کرنی ہو گی اور ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا لیکن اس احترام کی بنیاد آئین کے احترام پر ہونی چاہئے جو آئین کا احترام نہ کرے وہ کسی احترام کا مستحق نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے