جمہوریت کے ناقدین

جمہوریت کے جن ناقدین سے ہمیں پالا پڑا ہے، ان کے ساتھ دو بڑے مسائل ہیں۔
ایک یہ کہ وہ دلیل کا جواب جذبات سے دیتے ہیں۔ سب سے آسان مذہبی جذبات کا استعمال ہے۔اس عمل میں یہ خود کومذہب کے تنہاماخذ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔یہ اس بے باکی کے ساتھ شارع کے منصب پر فائز ہوجاتے ہیں کہ اس جسارت پر خوف آنے لگتا ہے۔ایک منظرتخلیق کیاجاتا ہے جیسے پارلیمان ،معاذاللہ ،خدا ور رسول کے مقابلے میں آ کھڑی ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ کا حکم تویہ ہے کہ گمان سے گریز کیا جائے کہ اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں۔یہاں معاملات تہمت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور مذہب کے علم بردار بے پروا رہتے ہیں۔اس فضا میں حسنِ ظن کا تصور ہی محال ہے جو تعلقات کے باب میںاسلامی اخلاقیات کا پہلا درس ہے۔
دوسرا مسئلہ خلطِ مبحث ہے۔ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا پتھر جمع کر کے ،بزعمِ خویش ایک تنقیدی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔اس مشقت کے بعد،سنگ وخشت کا ایک پہاڑ تو استادہ ہو جاتا ہے مگر اس کو عمارت کہنا مشکل ہوتا ہے۔ نہ دروازے کا پتہ چلتا ہے نہ کھڑکی کا۔ پنجابی میں اس صورت ِ حال کے بیان کے لیے ایک لفظ ہے ”کھِلار‘‘۔’فکری پراگندگی‘کسی حد تک اس کا ترجمہ تو ہو سکتا ہے،متبادل نہیں۔مثالوں سے میرا مقدمہ واضح ہو جائے گا۔
اسلام میںشادی کی عمر کیا ہے؟ماہ وسال کے پیمانے سے قرآن وسنت نے اس کا کوئی متعین جواب نہیں دیا۔ فطرت میں اس کی راہنمائی موجود ہے اوروہ ہے بلوغت۔اسلام نے اسی کو قبول کیا۔نکاح کا ادارہ پہلے سے مو جود تھاجسے اسلام نے نئی تحدیدات کے ساتھ باقی رکھا۔اسلام میں نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے۔یہ کچھ معاشی و سماجی ذمہ داریاں قبول کرنے کا نام ہے۔اس کے لیے لازم ہے کہ بلوغت کا تعین محض جسمانی پہلو ہی سے نہ ہو۔اس کے لیے ذہنی اور نفسیاتی بلوغت کابھی لحاظ رکھا جائے۔ان ذمہ داریوں کا تعین سماجی سیاق و سباق میں ہوتا ہے۔یہ شارع کی حکمت ہے کہ اس نے شادی کے لیے عمر کا واضح تعین نہیں کیا؛تاہم اس نے پسند کیا ہے کہ اس معاملے میں غیر ضروری تاخیر نہ کی جائے۔
آج دنیا کا ہر اجتماعی نظم نکاح کی عمر کا تعین اپنے سماجی سیاق و سباق میں کر رہا ہے۔اس میں مسلمان معاشرے بھی شامل ہیں۔یوں مختلف مسلمان معاشروں میں شادی کی عمر مختلف ہے۔پاکستان کے قانون میں بھی اس کا تعین کیا گیا جس میں ایک تبدیلی ان دنوں پارلیمان بھی زیرِ بحث ہے۔اسے یوں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے پارلیمان کے ‘مکار اراکین ‘قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کر رہے ہیں۔اس سے جہاں جمہوریت کو اسلام کے مخالف نظام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہاں لوگوں کے مذہبی جذبات سے بھی کھیلاجا رہا ہے۔
یہی معاملہ سود کا بھی ہے۔سب جانتے ہیں کہ اس باب میں اہلِ علم مختلف الخیال ہیں۔ صرف ایک مسلک کے علما میں دو متصادم آرا مو جود ہیں۔لازماً ان میں سے ایک رائے غلط ہے۔میںاس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں کہ پارلیمان کی اکثریت اسے ایک ناگزیر برائی سمجھتے ہوئے قبول کیے ہوئے ہے۔پارلیمان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہمیںقرآن و سنت کے احکام کی کوئی پروا نہیں۔ البتہ اس کا کوئی ٹھوس متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہ اسے بادلِ نخواستہ بر داشت کر رہی ہے۔
یہ پارلیمان پر تہمت ہے کہ کوئی نص ِقطعی بھی قانون نہیں بن سکتی جب تک یہ ”اراکین حکم ِالٰہی پر اپنی مہرِتصدیق ثبت نہیں کرتے‘‘ یا”روزانہ ایسے قوانین منظور ہوتے ہیں جن کے خلاف اللہ اور رسول نے واضح احکامات دیے ہیں‘‘۔پارلیمان آئین کے تحت ایک ادارہ ہے ا ورآئین اسے پابند کرتا ہے کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔ لوگ جانتے ہیں کہ نص کے مفہوم کے تعین میں اختلاف ہوتا ہے۔پارلیمان صرف اس پر بحث کر تی ہے کہ وہ کس رائے کو ترجیح دے۔اسی طرح کل کی پارلیمان یہ حق رکھتی ہے کہ وہ آج کی پارلیمان کا فیصلہ بدل دے یا اس میں ترمیم کر دے۔دوسرے لفظوں میں نص کی کسی دوسری تعبیر کو قبول کر لے۔
اب اگر دوسرے مسلمانوں کے بارے میں ہم رتی برابربھی حسنِ ظن کواپنے دل میں جگہ دیں تویہ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ اللہ اور رسول کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ہیں۔لیکن چو نکہ ہم نے جمہوریت کو باطل قرار دینا ہے،اس لیے لازم ہے کہ مسلمان ارکانِ پارلیمان کے اسلام کو مشتبہ بنا دیں۔ معلوم نہیں لوگ اتنا حوصلہ کہاں سے لاتے ہیں۔ہمارے اسلاف کی احتیاط کا عالم تو یہ تھاکہ ننانوے تاویلات کفر کو مستلزم ہوں اور ایک اسلام کی تو وہ اس واحدتاویل کو ترجیح دیتے ہیں۔
ا ب آئیے فکری پراگندگی کی طرف۔پارلیمانی جمہویت کے خلاف ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں حلقے میں جیتنے کی اہلیت رکھنے والے امیدوار کے ہاتھوں یرغمال بن جا تی ہیں۔اس لیے اگر متناسب نمائندگی کا طریقہ اختیار کر لیا جائے تو یہ بہتر ہے۔کیاان ناقدین کو اندازہ ہے کہ متناسب نمائندگی بھی جمہوریت ہی کی ایک قسم ہے؟ یہ جمہوریت کی ایک صورت کو دوسری پر ترجیح دینا ہے۔میں خودبھی یہی رائے رکھتا ہوں۔میں نے انتخابات کے دنوں میں اسے مو ضوع بنایا ہے۔میں نے لکھا تھا کہ یہ طریقہ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کے فائدے میں ہے۔انہیں آ گے بڑ ھ کر یہ مطالبہ کر نا چاہیے۔ جماعت اسلامی ایک عرصے میں اس کی حامی رہی ہے۔
اسی پراگندگی کا ایک اور مظہر یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ سے جمہوری حکمرانوں کی بد اعمالیوں کو جمع کر کے پیش کیا جا تا ہے اور پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ”دیکھا! ہم نہ کہتے تھے۔جمہوریت ہے ہی بری‘‘! اب ذرا اس دلیل کی اوقات دیکھیے! یہ مشق کسی بھی طرح کے حکمرانوں کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔اگر ہم خلافتِ راشدہ کے استثنا کے ساتھ خلفا کے اعمال کی ایک فہرست مرتب کریں توایسے ہوش ربا واقعات سامنے آئیں کہ انسانیت منہ چھپا تی پھرے۔کیا اس کے بعد یہ مقدمہ قائم کر نا درست ہو گا کہ ”خلافت ہے ہی قابلِ مذمت۔‘‘
اصل بات بالکل سادہ ہے۔ انسانوں میں ہمیشہ یہ مسئلہ باعثِ نزاع رہا ہے کہ حقِ اقتدارکس کو حاصل ہے۔ آج تک چار ہی طریقے سامنے آ سکے ہیں۔ ایک الہامی کہ کوئی آسمان سے پروانہ لے کر آ جائے۔ دوسرا بادشاہت۔ کسی شخص کا حقِ اقتدار اس بنیاد پر مانا جائے کہ اس کا باپ حکمران تھا۔ تیسرایہ کہ کوئی بندوق اور تلوار کے ز ور پر قبضہ کر لے۔چوتھا یہ کہ یہ حق عوام کو دے دیا جا ئے کہ وہ موجود لوگوں میں سے حکمران کا انتخاب کریں۔ختمِ نبوت کے بعد پہلا امکان ختم ہو گیا۔انسانی تجربے نے بتایا کہ بادشاہت اور آمریت انسانی سماج کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔اب پرامن انتقال ِ اقتدار کا یک ہی طریقہ ہے کہ یہ حق عوام کو دے دیا جائے۔
اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے ایک اصول بتا دیا کہ ”مسلمانوں کے معاملات ان کے مشورے سے چلتے ہیں‘‘۔ جمہوریت مشورے ہی کا نام ہے۔یہ بات ایک بار پھر واضح کر رہا ہوں کہ جمہوریت حق و باطل کا فیصلہ نہیں کرتی۔ جمہوریت صرف یہ طے کرتی ہے کہ اقتدار کس کو ملے۔ یوں وہ ایک معاشرے کو اس فساد سے بچا لیتی ہے جوانسانی تاریخ میں انتقال ِاقتدار کے نتیجے میں ہمیشہ بر پا رہا ہے۔
جمہوریت کے نا قدین کے پاس ایک ہی راستہ کہ وہ اپنے تضادات پر غور کریں اورانتشارِ فکر پیدا کرنے کے بجائے، جمہوریت کا متبادل سامنے لائیں۔اگر وہ ان چار طریقوں کے علاوہ کوئی ایسا طریقہ دریافت کر سکیں جو مشورے کے اصول پر قائم ہو اور وہ مروجہ جمہوریت سے بہتر ہو تو میں سب سے پہلے اسے قبول کروں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے