عمران خان بطور شاعر

کوئی کچھ بھی کہے سمجھے یا کرے ہم سخن فہم تھے سخن فہم ہیں اور سخن فہم رہیں گے اور غالب کی طرف داری کبھی نہیں کریں گے۔ اب یہ عمران خان کو لے لیجیے بطور لیڈر کے یہ ہمیں بالکل بھی پسند نہیں ہیں نہ ہی ان کے طرف دار ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا سخن ارشاد فرما دیتے ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہنے لگتا ہے ۔ اب کے انھوں نے تازہ ترین غزل ارشاد فرمائی ہے جس کا مطلع ہے کہ
زرداری نواز فضل الرحمن اسفند یار اچکزئی بڑے ڈاکو ہیں قوم سوشل بائیکاٹ کرے
ویسے تو مطلع ہی سے پتہ چل جاتا ہے کہ آگے کتنا اعلیٰ درجے کا تغزل بھرا ہوگا لیکن ایک شعر تو غضب کا ہے بظاہر یہ کچھ صوفیانہ اور عارفانہ شعر لگتا ہے لیکن ایک پیش گوئی نے اسے نجومانہ شعر بھی بنا ڈالا ہے ملاحظہ فرمائیے ۔
آصف زرداری ملک کی سب سے بڑی بیماری ہے
ان کا کرپشن کے خلاف بولنا قیامت کی نشانی ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تو انھیں محض ایک کھلاڑی گیند باز اور بلے باز سمجھے ہوئے تھے لیکن وہ دینی معاملات اور نجومیانہ علوم سے بھی خاصی شغف رکھتے ہیں۔اب تک بہت سارے لوگ قیامت کی طرح طرح کی نشانیاں بتاتے رہے ہیں جیسے روپے کا ٹکے سیر ہونا، انسانوں کا شلغم سے بھی نیچے گرنا، پاکستان کا ستر سال تک صاحب فراش ہوکر پھر بھی زندہ رہنا، آدھا ملک چور ہونے کے باوجود ایک بھی چور کا ہاتھ نہ لگنا، آدھے ملک اور دو وزیر اعظموں کے قاتل کا پتہ نہ لگنا ۔ پیدائش سے پہلے مقروض ہونا، زکوۃ اور قربانی کی کھالوں کا اصل حقداروں کے منہ سے چھین کرسیاسی پارٹیوں کو دینا وغیرہ ۔ لیکن یہ ہمارے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کسی فرد کا کرپشن کے خلاف بولنا بھی قیامت کی نشانی ہو سکتا ہے۔
ایسی باتیں عجائب و غرائب میں تو آسکتی ہیں لیکن قیامت کی نشانیوں میں اس کا شمار ہونا انتہائی حیران کن بلکہ ڈرا دینے والا ہے۔عجائب و غرائب تو پاکستان میں ہمیشہ سے ظہور میں آتے رہے ہیں خود پاکستان قائم ہونا بھی ایک عجوبہ ہے جس کا اعلان ہوتے ہی خود قائد اعظم کو بھی بقول سکندر مرزا حیرت ہوئی کہ یہ تو میری توقع سے بہت جلد بن گیا، میرے خیال میں توابھی پچاس سال کا عرصہ اور لگنا تھا ۔یا یہ بھی کچھ کم عجائب و غرائب نہیں کہ ہر بار جب پاکستان کو خطرہہوتا ہے تو کوئی مرد غازی آکر اسے بچا لیتا ہے ۔بلکہ ہمارے خیال میں عمران خان ، علامہ قادری، مولانا فضل الرحمن بھی کچھ معمولی درجے کے نہیں ہیں بلکہ جناب زرداری کا ایک دم ملزم سے صدر بلکہ صدرالصدور بن جانا بھی کم عجوبہ نہیں ہے ۔لیکن یہ قیامت کی نشانی بڑی ڈرا دینے والی ہے جناب زرداری کو یا تو سب کچھ اپنے کراؤن پرکسن کے حوالے کرنا چاہیے اور یا پھر ’’ کرپشن ‘‘ میں آخر ایسی کیا لذت ہے جو وہ منہ میں ڈالے بغیر نہیں رہتے، ایک لفظ ہی ہے ان کے جانے کے بعد دانے تو وہ لے گئے اب بھوسہ اڑانے سے کیا حاصل۔
پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا حاصل
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
جتنے نوٹ انھوں نے چھپوائے ہیں وہ قیامت کے لیے پاکستانی کرنسی کے شامل حال رہیں گے ۔
کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ آخر اس عمران حان کو ایسی باتیں سکھاتا اور بتاتا کون ہے جس میں دنیا کے ساتھ دینی ٹچ بھی ہوتا ہے۔ پہلے ہمیں جناب علامہ ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری پر شبہ تھا لیکن وہ آج کل اپنے ’’ ہونے ‘‘ میں اتنے مصروف ہیں کہ شاید اس قسم کی باتیں تصنیف کرنے کا موقع نہ مل رہا ہو، ’’ ریاست‘‘ کو بچانے کے کام سے ریورس لیتے لیتے آج کل صرف ماڈل ٹاؤن اور شہباز شریف تک محدود ہو چکے ہیں، اس لیے کوئی اور ہے جو ایسے بھڑکتے ہوئے شعر عمران خان کے لیے لکھتا ہے ۔لے دے کر شیریں مزاری کی طرف خیال جاتا ہے کہ کاغذ و قلم کی خاتون ہیں لیکن شعر اور ان کے درمیان اتنا زیادہ فرق ہے کہ یقین نہیں آتا۔اس لیے یہی کہنا پڑے گا کہ خود ہی طبع زاد اور فی بدیہہ سخن گوئی سیکھ گئے ہوں۔اب اس مذکورہ غزل کا مطلع بھی کچھ کم باکمال نہیں ہے کہ چن چن کر پورے پاکستان کے ’ حسینان عالم ‘‘ کو جمع کرکے ان کے ’’ حسن ‘‘ کی مدح سرائی ایک ہی لفظ میں کردی ہے ذرا ملاحظہ فرمائیے ۔
زرداری ، نواز ، فضل الرحمن ، اسفند یار ، اچکزئی بڑے ’’ ڈاکو ‘‘ ہیں
کون نہیں جانتا کہ شعر و سخن میں چور ڈاکو رہزن غارت گر وغیرہ اکثر حسینوں ہی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ شاعری کی زبان میں محبوبان و خوبان کے لیے اس قسم کے الفاظ ’’ مدح ‘‘ کے ذیل میں آتے ہیں اور اس کے ساتھ جب بڑے کا صیغہ مبالغہ بھی ہو تو کلام میں اور زیادہ زور پیدا ہو جاتا ہے۔آگے پوری غزل میں پھر ان صفات محبوبانہ کی مزید تشریح و توضیح کی گئی ہے ۔
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ جناب عمران خان آہستہ آہستہ کمال کے سخن ور اور سخن گو ہوتے جارہے ہیں اور اگر کسی کی نظر نہیں لگی تو ایک دن اگر ملک الشعراء کا نہیں تو لسان العصر کا خطاب ضرور پالیں گے۔اور پھر ان کے کلام میں یہ جو قرب قیامت وغیرہ کی پیش گوئیانہ صفت پائی جاتی ہے اس سے تو اس کے عارف ہونے کے آثار بھی جھلک رہے ہیں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جناب زرداری اگر کرپشن مٹانے کی بات کر رہے ہیں تو اس سے بڑی قرب قیامت کی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے؟بہر حال ہم خان صاحب کو مشورہ دیں گے کہ چکی کے ساتھ مشق سخن برابر جاری رکھیں اگر وزیر اعظم یا لیڈر نہ بن سکے تو کم از کم ایک اچھے خاصے شاعر تو ضرور بن جائیں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے