آپ کسی بھی وقت بھٹک سکتے ہیں

میرا ایک دوست جو ہر وقت سائے کی طرح میرے ساتھ رہتا ہے چنانچہ میں اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کا دعویٰ کرسکتا ہوں۔ ویسے بھی وہ بہت ’’بڑبولا‘‘ قسم کا شخص ہے۔اپنی اچھائیاںاور برائیاں خود ہی بیان کرتارہتاہے۔ اس کے کردار کی سب سے بڑی خوبی اس کی دیانت اور امانت ہے اور میں نے اس حوالے سے اسے بڑی بڑی آزمائشوں میں پورا اترتا دیکھا ہے!
آج سے 65سال پہلے جب وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا اور ایک غریب خاندان کا فرد ہونے کے ناتے اسے جیب خرچ نام کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی، اسے اسکول سے واپسی پر سڑک کے کنارے ایک سوروپے کا نوٹ پڑا ملا۔ ایک لمحے کے لئے اس کے جی میں آئی کہ وہ اس رقم سے اپنی ساری ناآسودہ خواہشیں پوری کرے لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس گھٹیا خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا اور گھر پہنچتے ہی یہ سو روپے کا نوٹ اپنے والد صاحب کے سپردکردیا۔ والد صاحب تین روز تک مسجد میں اعلان کراتے رہے کہ اگر کسی کی کچھ رقم گم ہوئی ہو تو وہ ان سے رابطہ کرے لیکن جب کسی نے ان سے رابطہ نہ کیا تو انہوں نے یہ سو روپے مسجد کے فنڈ میں جمع کرادیئے۔
پھر جب وہ بی اے کا طالبعلم تھااس کے والد صاحب نے 800روپے نکلوانے کےلئے اسے سیونگ اکائونٹ کی کاپی دے کر ڈاک خانے بھیجا۔ کلرک نے اسے 800کی بجائے غلطی سے 1600روپے دے دیئے۔ کالج کا طالب علم ہونے اور خوش حال خاندان کے لڑکوں سےدوستی کی وجہ سے اب اس کی محرومیوں میں اضافہ ہوچکاتھا۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ دوستوں کی جوابی خاطر مدارت کرسکتا چنانچہ اس نے پیسے جیب میں ڈالےاور سائیکل کوپیڈل مار کر گھر کی طرف چل دیا۔ گھر کے رستے میں ایک دفعہ پھراس کےضمیر نے اسے تنگ کرنا شرو ع کردیا اور گھر تک پہنچتے پہنچتے اس کاضمیر اس کی خواہشات پرپوری طرح غالب آچکا تھا چنانچہ اس نے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہی والد صاحب کوبتایا کہ کلرک نے اسے غلطی سے 800 روپے زیادہ دے دیئے ہیں۔ والد صاحب نے یہ سن کر اس کے منہ پر طمانچہ مارا او ر کہا ’’تو پھرتم یہ دوزخ کی آگ گھر تک کیوں لےکر آئے ہو ۔ابھی جائو اورزائد رقم کلرک کوواپس کرو۔‘‘
جب میرے دوست کو اپنی زندگی کی پہلی تنخواہ ملی تو اس وقت بھی تقریباً اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ بنک کے کیشئر نے اسے ساڑھے چار سو کی بجائے ساڑھے چار ہزار روپے ادا کردیئے اور اس نے اسی وقت اس میں سے اپنے ساڑھے چار سو روپے اٹھائے اورباقی رقم کیشیئر کو واپس کردی۔ زندگی میں ترقی کے مراحل طے کرتے کرتے وہ اس پوزیشن پر آگیا کہ اگر وہ چاہتا تو بہت تھوڑے عرصے میں کروڑ پتی بن سکتا تھا لیکن اس سے اس کا وہ عہد ٹوٹتا تھا جو اس نے اپنے خدا سے رزق حلال کے سلسلے میں کیا تھا۔ ایک دفعہ اس نے دس کروڑ رقم ٹھکرائی۔ ایک اور موقع پر اس نے ایک ایسا کام کرنے سے انکارکردیا جو اس کےبہت سے بھائی بند کرتے تھے اور اس کے نتیجے میں نا صرف یہ کہ انہوں نے کروڑوں کمائے بلکہ اس کی وجہ سے ان کا سوشل اسٹیٹس بھی بلند ہوا۔ میرے اس دوست کو اللہ تعالیٰ نے عزت، شہرت، مقبولیت سب کچھ عطا کیا ہے۔ زندگی کی بنیادی ضرورتیں اور سہولیات بھی اسے حاصل ہیں۔ اسے اپنی زندگی سے کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں دل کی گہرائیوں سے اس کی عزت کرتا ہوں مگر اس کے سلسلے میں مجھے ایک عجیب و غریب الجھن نے گھیر رکھا ہے اور میں یہ تحریراپنی اسی الجھن کے حل کے لئے لکھ رہا ہوں۔
گزشتہ روز ہم دونوں دوست آوارہ گردی کے موڈ میں تھے۔ سارا دن بلامقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے رہے۔ میرا یہ دوست مال و منال، شہرت اور معاشرے میں اعلیٰ مقام کے باوجود ابھی تک عوامی مزاج کا حامل ہے چنانچہ آوارہ گردی کے لئے ہم نے لکشمی چوک میں جا کر چانپیں کھائیں، کشمیری چائے پی اور پھر گاڑی ایک طرف پارک کرکے پیدل چل پڑے۔ اس روز ہمیں پیدل چلنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ شاید اس لئے کہ بہت عرصے بعد اس کا موقع ملا تھا۔ لکشمی چوک میں بے پناہ رونق تھی۔ مالشیے، تماش بین، کھابہ گیر، فقیر، نشئی، بے فکرے ہر قسم کے لوگ ریکارڈنگ کے شور شرابے میں اپنے اپنے دھیان میں مگن تھے۔ میں اورمیرا دوست ایک مالٹوں کی ریڑھی کے پاس رک گئے۔
’’کیا خیال ہے مالٹے نہ کھائے جائیں؟‘‘
’’نیکی اور پوچھ پوچھ‘‘ میں نے کہا اور پھر ہم دونوں مالٹوں پر پل پڑے۔ ریڑھی والا مالٹے چھیل چھیل کر اور کاٹ کاٹ کر پلیٹ میں رکھتا چلاجاتا تھا اور ہم کھاتے چلے جاتے تھے۔ ہم اس روز عجیب طرح کی جنونی کیفیت میں مبتلا تھے بالآخر ہم نے ہاتھ کھینچ لئے۔ میں مالٹے گنتا جارہا تھا ہم نے بیس مالٹے کھائے تھے!
میرے دوست نے ریڑھی والے سے پوچھا ’’کتنے پیسے؟‘‘
ریڑھی والے نے کہا ’’کتنے مالٹے بنے؟‘‘
میرے دوست نے ایک لمحے کے توقف کے بعد جواب دیا ’’بارہ‘‘
ریڑھی والے کے چہرے پرشک کی ایک لکیر سی پھیلی لیکن اس نے بغیر کسی تکرار کے بارہ مالٹوں کے پیسے وصول کئے اوراپنی ریڑھی پر بچھی بوری کے نیچے رکھ دیئے۔
میں نے اپنے دوست کی طرف ملامت بھری نظروں سے دیکھا مگر اس نے آنکھیں جھکادیں۔ ہم دونوں خاموشی سے کار تک آئے۔ رستے میں ہم نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کی۔ بس دونوں ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھتے رہے!
یہ میرے دوست کی کہانی ہے۔ یہ میری کہانی ہے۔ یہ آپ سب کی کہانی ہے اورشاید ہر بشر کی کہانی ہے کبھی وہ ’’لکھ‘‘ کی چوری نہیں کرتا اور کبھی ’’ککھ‘‘ کی چوری پر راغب ہوجاتا ہے۔ انسان کو اپنی پارسائی پر غرور نہیں کرناچاہئے بلکہ ہر لمحہ شیطان الرجیم کے حملوں سے پناہ مانگتے رہنا چاہئے۔ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے