عوام کی عدالت

پاکستان کی سیاست میں آنے والے دن بہت اہم ہیں۔ آئندہ انتخابات اگرچہ اگست، ستمبر دو ہزار اٹھارہ میں متوقع ہیں مگر سیاسی جماعتوں نے ابھی سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اپوزیشن کی جماعتیں بالخصوص اپنے جلسے جلوسوں کے ذریعے جنرل الیکشن کے لئے ماحول بنا رہی ہیں۔ پانامہ کیس میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف آنے والے فیصلے کے بعد سے بہت سے حلقوں میں یہ سرگوشیاں جاری ہیں کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہی ہو جائیں گے۔ نئے انتخابات کروائے جانے کے بارے میںاپوزیشن کی جماعتوں کی رائے یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت عوام پر حکمرانی کرنے کا حق کھو چکے ہیں اور اب نئے سرے سے کروائے جانے والے انتخابات ہی سے ملک کی اصل سیاسی قیادت کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت اس رائے سے متفق نہیں ہے۔ہمارے ہاں ویسے بھی کوئی سیاسی جماعت اپنی مرضی سے وقت سے پہلے اقتدار سے علیحدہ ہونے کو رضامند نہیں ہوتی اور مسلم لیگ ن کو ویسے بھی انیس سو ننانوے میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں نکالے جانے کے چودہ سال بعد وفاقی حکومت ملی ہے۔ ایسے میں اسے اقتدار سے رخصتی کی کوئی خاص جلدی نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے اکثر رہنما نئے انتخابات کے مطالبات کو آئندہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن سے جوڑتے ہیں، ان کے مطابق نئے انتخابات کا مطالبہ محض اس ڈر سے کیا جارہا ہے کہ اگر موجودہ صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل نہ کیا گیا تو مارچ کے بعد مسلم لیگ ن ایوان بالا میں بھی عددی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جس کے بعد اسے اپنی مرضی کی قانون سازی کرنے کا اختیار مل جائے گا اور یہ بات مسلم لیگ ن کے مخالفین برداشت نہیں کر سکتے۔
اگرمسلم لیگی رہنما یہ سب پانامہ کیس کے فیصلے سے پہلے کہہ رہے ہوتے تو پھر بھی کچھ بات سمجھ میں آتی تھی، لیکن پانامہ کیس میں وزیراعظم کی نااہلی کے فیصلے کے بعد اس تھیوری میں کچھ خاص وزن محسوس نہیں ہوتا۔ موجودہ حالات میں پاکستان مسلم لیگ ن اگر سینیٹ میں اکثریت حاصل کر بھی لیتی ہے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ مستقبل میں اس سے کوئی خاص فائدہ اٹھا پائے گی۔ یاد رہے کہ موجودہ سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے لیکن قومی اسمبلی میں خاطر خواہ نمائندگی نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی اس عددی برتری کا خاطر خواہ استعمال نہیں کر پائی۔ یہی بات مسلم لیگ ن پر بھی لاگو ہوگی ۔ گو موجودہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن واضح طور پر اکثریت میں ہے لیکن آئندہ سال ہونے والے انتخابات کے نتائج کے بعد یہ تعداد کم ہوتی نظر آرہی ہے۔ یقیناََمسلم لیگ ن کے رہنما اس بات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن نواز شریف کی نا اہلی سے انہیںاگلے الیکشن میں کافی نقصان ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ پارٹی سے زیادہ شخصیات کو ووٹ دینے کو ترجیح دیتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے پاس عمران خان کی شکل میں وزارت عظمیٰ کے لئے ایک امیدوار موجود ہے لیکن نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے لے کر اب تک مسلم لیگ ن کسی ایسے فرد کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہی ہے جو پارٹی کی فتح کے بعد وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گا۔
گو اس سلسلے میں افواہیں گردش میں رہی ہیں کہ نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف وزارت عظمی کے ایک مضبوط امیدوار ہیں لیکن پارٹی کی جانب سے کسی واضح اعلان کی غیر موجودگی میںیہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پارٹی لیڈرشپ نے اس بارے میں کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے اندر اس وقت ایک ڈائیلاگ چل رہا ہے جس میں ایک طرف تو وہ افراد ہیں جو نواز شریف کی نااہلی اور وزیر اعظم کے عہدے سے علیحدگی کو سویلین بالادستی پر ایک ضرب تصور کرتے ہیںاور ان کے نزدیک پاکستان کے سیاستدانوں نے بہت عرصہ دائمی طاقت رکھنے والے ریاستی اداروں کی منشا کے مطابق کام کرنے کی کوشش کر لی ہے اب اس بارے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس گروہ کو مسلم لیگ ن کے ہاکس بھی کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ اس موقع پر ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کرنے کے خلاف ہے۔ اس گروہ کے مطابق اگر مسلم لیگ ن اداروں سے کسی قسم کی تکرارکئے بغیر اپنی حکومت کے باقی ایام ان پروجیکٹس کو مکمل کرنے میں لگا دیتی ہے جن کا آغاز پچھلے چند سالوں میں کیا گیا ہے تو آنے والے انتخابات میں ان کی فتح یقینی ہے، لیکن اگر اداروں سے تصادم کی راہ کو ہی چنا گیا تو اس کے نقصانات مسلم لیگ ن کو ہی اٹھانے پڑیں گے۔ شاید اس مسلم لیگی گروہ کو یہ ڈر ہے کہ کہیں دو ہزار دو کی طرح پھر سے کوئی نئی مسلم لیگ نہ بن جائے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو موجودہ مسلم لیگی ایم این ایز کی ایک بڑی تعداد یا تو اس نئی مسلم لیگ میں چلی جائے گی یا پھر آزاد انتخاب لڑنے کو ترجیح دے گی۔
مسلم لیگ ن کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ان دونوں گروہوں کے مابین ہونے والے فیصلے پر منحصر ہے۔ اگر مسلم لیگ ن اداروں سے تصادم کی راہ اختیار کرتی ہے تو پھر اگلے انتخابات میں شاید اس کے لئے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنا بھی مشکل ہو جائے کیونکہ بہت سے مسلم لیگی ایم این ایز اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اگر ان افراد نے تاحال پارٹی نہیں چھوڑی تو اس کی ایک بڑی وجہ موجودہ حالات میں مسلم لیگ ن کا کوئی متبادل نہ ہونا ہے۔ لیکن اگر کل کو کوئی نئی مسلم لیگ وجود میں آگئی تو پھر تیس چالیس افراد ادھر سے ادھر ہوتے کچھ خاص دیر نہیں لگے گی اور یہی افراد مسلم لیگ کے دوبارہ اقتدار میں نہ آنے کا باعث بن جائیں گے ۔ ان افراد کے چلے جانے کے بعدسویلین بالادستی کا خواب بھی بس خواب ہی رہ جائے گا کیونکہ ایسے حالات میں جب جنرل الیکشن میں کوئی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی تو جو مخلوط حکومت تشکیل دی جائے گی وہ ہر وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو گی۔ اگر مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں واضح عددی برتری کے باوجود سویلین بالادستی قائم کرنے میں ناکام رہی ہے تو یہ کسی مخلوط حکومت کے بس کی بات تو بالکل بھی نہیں ہو گی۔ اسی لئے مسلم لیگ کے ہاکس کو یہ ادارک ہو جانا چاہئے کہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں اس میں انہیں وہ جیت ہرگز نہیں ملے گی جس کی وہ امید کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کی اپنی اس کوشش میں وہ اس سسٹم کوہی کمزور کر جائیں جس کے نام پر انہوں نے علم بغاوت اٹھایا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے