عجیب آدمی

اب بھی دمک باقی ہے۔ 35 برس ادھر، جب وہ ایک جوان رعنا تھا، ایک بے تکلف دوست کی طرح میں نے اس سے کہا تھا: تم وہ چشمہ ہو، جس کا پانی صحرا کے لیے ہے۔ عجیب آدمی ہے!
ربع صدی ہوتی ہے، زندگی میں پہلی بار ایک ادبی تحریر لکھی، شعیب، ایک مخفی حقیقت۔ زندگی بھر کوئی تحریر یا تصویر نہ سنبھالی۔ شعیب کا حال مجھ سے بھی بدتر ہے۔ آدمی کچھ بھی کھو سکتا ہے۔ کبھی کسی نے اپنے شعر بھی کھوئے ہیں؟
کتنی ہی بار، عصرِ رواں کے کتنے ہی ممتاز لکھنے والوں نے اس کے اشعار کا حوالہ دیا ہے… اور وہ مصرعہ تو ضرب المثل ہو گیا ”اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں‘‘ اس آدمی نے، سب ضروری کام جسے یاد رہتے ہیں، بس یہی ایک بات بھلا دی کہ آدمی اپنے ہنر سے پہچانا جاتا ہے۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا قول یہ ہے: کلام کرو تاکہ پہچانے جائو۔
دنیا میں ہر آدمی کو اللہ ایک ہنر عطا کرتا ہے، جس کے بل پر وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: اللہ جو کام بندے سے لینا چاہے، اس کے لیے سہل کر دیتا ہے۔ شعیب بن عزیز کے لیے شاعری کیوں سہل نہ ہوئی، افسری کیسے ہو گئی؟ جملے بازی کو اس نے شعار کیا۔ بڑے بڑوں کو پست کر ڈالا۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ اس کے جملے اقوال کی طرح دہرائے جاتے ہیں۔ اہلِ ذوق میں اشعار بھی۔ سیدنا علی ہجویریؒ کی تصنیف کوئی لے اڑا تھا مگر وہ تو لے اڑا۔ غنی کاشمیری کا دیوان دست بردِ زمانہ کی نذر ہوا مگر وہ نذر ہوا۔ یہ ایک اور غنی کاشمیری ہے کہ خود اپنے اشعار گنوا دئیے۔ اس طرح بھی کوئی گنواتا ہے؟ تھوڑا سا یہ کلام بمشکل دستیاب ہوا ہے۔
عمر بھر کی تشنگی کے غم سے بڑھ کر ہے یہ غم
میرے حصے میں جو آیا، وہ سبو میرا نہ تھا
…………………
عشق لا حاصلی کا کھیل نہیں
دیکھ ہم اس گلی کی خاک ہوئے
…………………
دل بھی سو مصلحتیں دیکھتا ہے
دل بھی دیوانہ کہاں ہے یارو
…………………
ڈوبتی شام کی پھٹکار ہو مجھ پہ میں اگر
چڑھتے سورج سے کبھی ہاتھ ملانا چاہوں
…………………
خوف اور خواہش کے درمیاں نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی اب یہاں نہیں رہنا
یہ خبر نہ تھی ہم کو دار کے قریب آکر
ہم خیال لوگوں نے ہم زباں نہیں رہنا
…………………
بکھر جائے گا ان گلیوں میں نیلے کانچ کی صورت
یہ زعمِ آسماں سارا ستارے ٹوٹنے تک ہے
…………………
لکھا رکھا ہے عہدِ ترکِ الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں ہے
…………………
ہم نیند کے شوقین زیادہ نہیں لیکن
کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارا نہیں
…………………
پختہ گھروں کو چھو ڑ کر کشتی میں آ گئے
دریا کا خوف لوگوں کو دریا میں لے گیا
…………………
کون سمجھے گا مرا دردِ مہ و سال شعیبؔ
میں نے لمحات خریدے ہیں زمانے دے کر
…………………
آداب و احترامِ لب و رخ بجا مگر
ہر ہر نظر پہ حدِ تمنا بدل گئی
…………………
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
…………………
کچھ اپنے دل کی خبر رکھ کہ اس خرابے میں
پڑا ہوں میں بھی کسی گنجِ گمشدہ کی طرح
…………………
خوب ہوگی یہ سرا دہر کی لیکن اس کا
ہم سے کیا پوچھتے ہو ہم نے ٹھہرنا کب ہے
…………………
کوئی روکے کہیں دستِ اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
…………………
مٹتا ہے جس کے قرب میں کچھ دل کا اضطراب
اک شخص ہے مگر وہ مرے دشمنوں میں ہے
…………………
دلِ مرحوم یاد آتا ہے
کیسی رونق لگائے رکھتا تھا
مجھ کو کیوں دار پر نہیں کھینچا
میں بھی تو اپنی رائے رکھتا تھا
……………………
آج پلکوں کی طرف آنکلا
تھا یہ اک اشک پرانا دل میں
اس کے ہمسائے میں تم آن بسو
درد رہتا ہے اکیلا دل میں
…………………
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموںمیں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
دوستی کا دعویٰ کیا، عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں
…………………
اداس گلیوں میں ناحق بکھر جائوں
میں اپنے آپ کو لے کر کبھی تو گھر جائوں
کبھی تو ڈوبتے دن کا ملال ہو مجھ کو
کبھی تو شام کی تنہائیوں سے ڈر جائوں
کوئی ستارہ کبھی میرے گھر میں بھی اترے
ہر ایک بام پہ کیا صورتِ نظر جائوں
…………………
جبینِ وقت پہ ابھرے جو میرے جانے سے
میںچاہتا ہوں وہ منظر بھی دیکھ کر جائوں
اسیرِ وقت ہوں اطرافِ بے جہت میں شعیبؔ
رکوں تو کیسے رکوں، جائوں تو کدھر جائوں
…………………
ایک ذرہ بھی نہ مل پائے گا میرا مجھ کو
زندگی تو نے کہاں لا کے بکھیرا مجھ کو
…………………
ابو ایوبؓ استنبول میں لاہور میں داتاؒ
مجھے مولا نے ہر جا اپنی نگرانی میں رکھا ہے
کسی فرعون کا کیا ڈر مجھے، میں نے ہمیشہ سے
نظر یزداں پہ رکھی ہے، عصا پانی میں رکھا ہے
…………………
میں شام کی دہلیز پہ بیٹھا ہوں کبھی کا
در آنے کو ہے قافلہ اب تیرہ شبی کا
…………………
افق کے موڑ پر پا کر اکیلا مار ڈالا ہے
غنیمِ شام نے سورج ہمارا مار ڈالا ہے
خبر ہم کو بھی تھی مرنا پڑے گا عشق میں لیکن
ہمیں اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے
باقی صفحہ 13 پر

نہ خوفِ ہجر نہ اسمِ وصال سے نکلا
حصارِ غم سے میں اپنے کمال سے نکلا
نثار کرنا پڑا ہے اک آفتاب ہمیں
یونہی نہیں یہ زمانہ زوال سے نکلا

میں گزرا ہوں تنہائی کے دوزخ سے بھی لیکن
بے لطف رفاقت کا عذاب اور ہی کچھ ہے

وہ مجھ سے پوچھ رہا ہے سبب اداسی کا
میں رو پڑوں گا جو اس وقت مسکرا نہ سکا

لے اڑی مجھ کو کسی لمحے کی یاد
وہ میرے پہلو میں تنہا رہ گیا

سوائے زر نہیں کچھ بھی امیرِ شہر کے پاس
کوئی اب اس سے زیادہ غریب کیا ہو گا

اب لیے پھرتا ہوں کشکول گدائی جس میں
کبھی تلوار چلاتا تھا میں اس ہاتھ کے ساتھ

زمیں کیسی ہو اس پہ آسماں کیسا بنانا ہے
مکیں سے پوچھ تو لیتے مکاں کیسا بنانا ہے
کہاں کا عدل جب منصف نے مجرم کو بتایا ہو
گواہی کس کی لانی ہے، بیاں کیسا بنانا ہے

کسی کے شہر میں اذنِ گداگری کے لیے
امیرِ شہر تجھے بھی سلام کر لیں گے

زندگی بکھرتی ہے، شاعری نکھرتی ہے
دلبری کی گلیوں میں، دل لگی کے کاموں میں

خواب کے دشت میں یادوں کا نگر جاگتا ہے
آنکھ سوتی ہے تو پھر اس کا ہنر جاگتا ہے

کنارِ آب رہا اور ہونٹ تر نہ کیے
کوئی اب اس سے زیادہ غریب کیا ہو گا

اب آنکھ لگے یا نہ لگے اپنی بلا سے
اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا ہے

کہاں لے جائوں یہ فریاد مولا
مرا بصرہ، مرا بغداد مولا!
ہمارے چاہنے والے ہمیں اب
نہیں دیکھیں گے کیا دلشاد مولا!
یہ جان و مال میرے تجھ پہ صدقے
ترے محبوب پر اولاد مولا!
اب بھی دمک باقی ہے۔ 35 برس ادھر، جب وہ ایک جوان رعنا تھا، ایک بے تکلف دوست کی طرح میں نے اس سے کہا تھا: تم وہ چشمہ ہو، جس کا پانی صحرا کے لیے ہے۔ عجیب آدمی ہے !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے