صرف بیس منٹ

کشمیر میں جب جنگ چھڑی ‘رائل انڈین ایئرفورس اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔ جب 22 اکتوبر 1947ء کو‘ حکومت پاکستان کے حمایت یافتہ قبائلی‘ کشمیر میں داخل ہونا شروع ہوئے، اس وقت رائل انڈین ایئر فورس‘ بٹوارے کے بعد‘برطانوی راج سے ملنے والی مسلح افواج کی پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقسیم کے مشکل مرحلے سے گزر رہی تھی۔پاکستانی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ بنیہال سے گزرتی ہوئی پنجاب اور کشمیر کو ملانے والی واحد سڑک‘ سردیوں کی وجہ سے قابل استعمال نہیں ہو گی اور انڈیا کی طرف سے مداخلت کا امکان نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ انڈیا کی حکومت کو اس بات کا بھی خیال کرنا پڑے گا کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ‘ اس وقت تک کسی بھی ایک ملک کا حصہ بننے سے انکار کر رہے تھے۔ پاکستانی حکام نے انڈیا کی طرف سے فضائی حملے کے امکان پر بھی غور نہیں کیا تھا۔ کشمیر میں قبائلی حملے پر انڈیا کا رد عمل فوری تھا۔ ریاستوں کی وزارت کے سیکریٹری‘ وی پی مینن کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق پر‘ بات چیت کے لئے 25 اکتوبر کو کشمیر پہنچے۔ اسی دن انڈین فوجیوں کو کشمیر پہنچانے کے لئے ایئر چیف مارشل‘ تھامس ارلہرسٹ کی قیادت میں ‘آرمی ایئر لِفٹ‘ بنائی گئی۔ فضائیہ نے جبل پور سے اسلحہ نئی دلی پہنچانا شروع کیا۔ملک کے وزیرداخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے آل انڈیا ریڈیو پر ایک ہنگامی براڈکاسٹ میں‘ سویلین طیاروں کو بھی اس کارروائی میں حصہ لینے کا حکم دیا اور اڑھائی ہزارسویلین طیارے اس کام میں لگ گئے۔
ان تمام ہنگامی اقدامات کے باوجود‘ گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور انڈین ملٹری کے برطانوی چیف آف سٹاف‘ زیادہ پر امید نہیں تھے۔ان کا خیال تھا کہ فوجیوں اور سامان سے لدے ہوئے طیاروں کو‘ نوہزار تین سو فٹ بلند پہاڑوں کے اوپر سے ہوتے ہوئے ایسی پٹی پر لینڈ کرنا ہوگا جو چھوٹے جہازوں کے لیے تیار کی گئی تھی۔فرسٹ سکھ بٹالین 27 اکتوبر کو کشمیر میں اتری۔ اس کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل رنجیت رائے کو حکم ملا کہ وہ پہلے چکر لگا کر تسلی کریں کہ سرینگر میں لینڈنگ کی جگہ قبائلوں کے قبضے میں تو نہیں۔ اگلے تین ہفتوں میں انڈین طیاروں کی 750 پروازوں میں 13 ملین پاؤنڈ کا سازو سامان سرینگر پہنچایا گیا۔سامان لے جانے والے طیاروں کے ساتھ ساتھ لڑاکا طیاروں نے بھی اس کارروائی میں اہم کردار ادا کیا۔ سرینگر کی ایئرفیلڈ فضائیہ کے ‘ٹیمپسٹ‘ لڑاکا طیاروں کے لیے چھوٹی تھی۔ ان کی جگہ پرانے ‘سپٹفائر‘ طیاروں پر بندوقیں نصب کی گئیں اور ان سے انڈین ‘بری فوج کی مدد کا کام لیا گیا۔ دریں اثناء انبالہ سے لڑاکا طیارے لمبی پرواز کر کے قبائلیوں کو نشانہ بناتے رہے۔فضائیہ کی مدد سے انڈین فوج‘ تین نومبر کو بڈگام کے قریب شدید لڑائی کے باوجود سرینگر کی فضائی پٹی پر قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔
چھ نومبر تک 3500 فوجی کشمیر میں اتر چکے تھے۔ اس کے ساتھ بکتر بند گاڑیوں کا ایک کالم بھی‘ پٹھان کوٹ سے آ کر شامل ہو گیا تھا۔ انڈین فوج ‘ سات نومبر کو فضائیہ کی مدد لے کر تین اطراف سے قبائلیوں پر حملہ آور ہوئی۔ قبائلی ایک جگہ جمع ہونے کی وجہ سے آسان نشانہ تھے اور لڑائی صرف 20 منٹ جاری رہی۔اگلے 12 ماہ کے دوران‘ رائل انڈین ایئر فورس نے کشمیر کی لڑائی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے محاصرے کے شکار لیّہ اور پونچھ کو‘ ضروری رسد کی فراہمی میں مدد دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ انڈیا کے کنٹرول میں ہی رہیں۔کشمیر کی پہلی لڑائی کے 70 سال کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے موجودہ نقشے کی ذمہ دار‘ رائل انڈین ایئر فورس ہی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے تاریخ دان‘ عاشق احمد اقبال نے کشمیر کا دردناک سانحہ‘ اپنے تازہ مضمون میں دہرایا ہے ۔ یہ درد ناک کہانی یاد کر کے‘ ہر پاکستانی کا دل لہو لہو ہو جاتا ہے۔تقسیم کشمیر کا جو متفقہ فارمولا‘ کانگرس اور مسلم لیگ میں طے ہوا تھا‘اس کے مطابق ریاستی حکمرانوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے‘ جس ملک میں چاہیں ‘ شامل ہو جائیں۔ کشمیر اور حیدر آباد دکن کا معاملہ یکساں تھا۔ حیدر آباد ایک بہت بڑی اور امیر ریاست تھی‘ جس کے مسلمان حکمران چاہتے تو حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے‘ پاکستان کا حصہ بن سکتے تھے لیکن وہاں کے حکمران جو نظام دکن کہلاتے تھے ‘ وہ بھی مہاراجہ کشمیر کی طرح بروقت فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔ ان دونوں بڑی ریاستوں کے حکمرانوں کو‘ اختیار حاصل تھا کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ شمولیت اختیار کر کے‘ عالمی طاقتوں اور یو این سے مدد مانگ سکتے۔ ان دونوں ریاستوں کی طرف سے بروقت پاکستان اور ہندوستان میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا جاتا تو برطانیہ جو کہ پورے ہندوستان کا حکمران تھا‘ اور اقوام متحدہ میں شریک طاقتیں‘ اس ریاستی فارمولے پر عملدرآمد کے لئے‘ عالمی قوانین کے مطابق‘ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر آمادہ ہو جاتیں‘تو نہ آج ہندوستان ‘کشمیر پر قابض ہوتا اور پاکستان اپنے تینوں حصوں یعنی مشرقی پاکستان ‘ ریاست جموں وکشمیر ‘ لداخ اور موجودہ پاکستان اپنے طے شدہ جغرافیائی رقبے کا
مالک ہوتا۔22اکتوبر1947ء سے لے کر اکتوبر کے اختتام تک‘ کشمیر کا فیصلہ ہو چکا تھا۔مگر بھارتی حکمرانوں کی بد دیانتی اور برطانوی حکمرانوں کی وعدہ خلافی کے نتیجے میں‘ نہ تو کشمیر کے ٹکڑے ٹکڑے بانٹے جا سکتے اور نہ ہی ریاست جموںو کشمیر پاکستان سے چھینا جا سکتا۔آج اقصائے چین پر چین کا کنٹرول ہوتا۔ اور نہ پوری ریاست جموں وکشمیر سے ہم محروم ہوئے ہوتے اورساتھ لداخ کا علاقہ بھی ہمارے پاس ہوتا۔تاریخ کا یہ بدترین سانحہ ‘ رونما نہ ہوتا تو سوچئے ان سارے علاقوں کے ساتھ پاکستان‘ مکمل جغرافیائی اور ایٹمی طاقت کے ساتھ‘ آج کس پوزیشن میں ہوتا؟میں اسے اکتوبر کا سانحہ قرار دیتا ہوں۔ 22اکتوبر 1947ء کو قبائلی‘ نہ کشمیر میں داخل ہوتے اور نہ ہم موجودہ حالات کا شکار بنتے۔ مگر آج بھی طاقت اور دغا بازی سے جو کچھ ہم سے چھینا گیا‘ اس پر ہمارا حق آج بھی قائم ہے۔وقت ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی نہ کبھی وقت آئے گا کہ ساری ریاست جموں وکشمیر میں‘ پاکستانی پرچم لہراتا دکھائی د ے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے