خدارہ میری درسگاہوں کو بچاؤ۔۔۔۔!!!

نئے اور دلچسپ موضوعات پر لکھنے کا سوچتا ہوں مگر دوست احباب کی طرف سے جن مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے ان کی حساسیت کے پیش نظر میں اپنی سوچ کو ایک طرف رکھ کر اسی جانب متوجہ ہو جاتاہوں۔گزشتہ دو تین دن میں کراچی سے برادرم زبیرالدین،اسلام آباد سے ثمینہ احمد اور لاہور سے رافعہ نے یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے جو حالات بیان کیے ہیں وہ بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔سچ پوچھیں تو میرا تو دل ان واقعات کو سن کر بہت رنجیدہ ہے، کہ آج کا طالبعلم اس ماحول میں مادر علمی سے کیا سیکھ رہا ہے؟؟؟ اور وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ کس طرح ایک فعال اور کارآمد شہری اور معاشرے میں بہتری لانے کا باعث بن سکتا ہے۔

سندھ یونیورسٹی جس کو علامہ آئی آئی قاضی اور جی ایم سید جیسے جید اساتذہ نے قائم کیا اور اس درسگاہ کے فارغ التحصیل تعلیم یافتہ طلباءپاکستان کے تمام شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس عظیم درسگاہ  میں آج اساتذہ کی طرف سے طالبات کو جنسی حراساں کرنے کے واقعات کی خبریں سامنے آرہےہیں۔کچھ عرصہ قبل اس یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں ایک طالبہ نائلہ رند کی پنکھے سے لٹکتی لاش کا ابھی تک معمہ حل طلب ہے۔ اب سندھ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر میں ماسٹرز کرنے والی دو طالبات رمشا میمن اور نسیم ڈیپر نے سادہ کاغذ پر چیف جسٹس سپریم کورٹ، وزیر اعظم، وفاقی محتسب، وزیر اعلٰی سندھ ، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن، وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی، سیاست دانوں اور اساتذہ کو فریاد لکھی ہے کہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے، آخری اطلاعات تک چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس واقعہ کا نوٹس لے کر رپورٹ طلب کرلی ہےتاہم اب تک انتظامیہ اور سیاسی قیادت نے معاملے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔رمشا میمن اور نسیم نے الزام عائد کیا ہے کہ انسٹیٹیوٹ آف انگلش لئنگویج اینڈ لٹریچر میں ان جیسی ماسٹرز کرنے والی کئی طالبات کوایک دونہیں بلکہ کئی لیکچرارزاوراسسٹ​نٹ پروفیسرز کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نےالزام عائد کیا کہ اگست میں یونیورسٹی کےڈائریکٹر اسٹیج نے ہاسٹل میں رہنے والی طالبات کو شام کے وقت اپنے گھر بلایا کہ جشنِ آزادی کی ریہرسل کے سلسلے میں بات کرنی ہے۔

وہاں چند نامعلوم افراد اورانسٹیٹیوٹ کے کچھ اساتذہ نشے میں دھت پہلے سے موجود تھے،جنہوں نے طالبات کے ساتھ قابل اعتراض حرکات کیں،لڑکیوں نے اگلے روزوائس چانسلرآفس شکایت کی تاہم وی سی کے ملک سے باہر ہونے پر انکی کوئی دادرسی نہ ہوسکی۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اساتذہ کی صفوں میں گھسے ایسے جنسی درندے تعلیم کے مقدس پیشے کو ہتھیارکےطورپراس​تعمال کرکے بے بس طالبات کا استحصال کررہے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں،خیبر پختونخوا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کچھ عرصے سے طالبات کو جنسی طورپر ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سات ماہ میں 100 سے زیادہ ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس میں طالبات کو ہراساں کرنے کی کوششیں کی گئیں اور پشاور یونیورسٹی، انجنیئرنگ یونیورسٹی اور خیبر میڈیکل کالج میں کچھ عرصے سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے تاہم پشاور یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف ہے کہ حالیہ دنوں میں کیمپس کی حدود میں طالبات کو ہراساں کرنے کا کوئی نیا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ماہرین کے مطابق جنسی ہراساں ہونے والی خواتین ذہنی دباو، نیند کی کمی، بے سکونی اور بےاعتماد کا شکار ہوجاتی ہیں۔

پاکستان میں جنسی ہراسانی کے انسداد کا قانون البتہ دیر سے بنا اور2010 میں نافذ العمل ہوا تاہم جتنے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں اس کے مطابق کیسز نہ تو درج ہورہے ہیں نہ ہی ملوث افراد کو سزائیں مل رہی ہیں،حراسگی کے قانون کےمطابق جنسی ترغیبات،پیش قدمی، استدعا اور جنسی تذلیل کی تمام ناپسندیدہ صورتیں خواہ وہ تحریری ہوں، زبانی یا جسمانی قابل تعزیر جرم ہیں۔

کراچی کے دوست کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے کچھ معزز اساتذہ ادارے کی عزت کے خاطر معاملہ دبانے کی کوشش میں ہیں۔مگر میرا موقف ہے کہ اساتذہ کی صفوں میں گھسے ان بھیٹریوں کے جرم کو دبانے کی بجائے ان کا گلہ دبا کر انکو نوکریوں سے فارغ اورقرار واقعی سزا دلوانے کا سامان کرکے نہ صرف مقدس پیشے کی عزت بلکہ قوم کے معماروں کا مستقبل بھی بچایا جائے۔

دوسر ی مجھےاسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ایک نوجوان طالبعلم کی انتہائی معصومانہ شکایات محصول ہوئی ہیں جو ہمارے تعلیمی نظام میں موجود خامیوں کی صحیح اور واضح نشاندہی کرتی ہیں طالبعلم کا کہنا ہےکہ ”میرے والدین نے انتہائی محنت کی کمائی سے سافٹ وئیر انجینئرنگ میں داخلے کیلئے بمشکل پہلے سمسٹر کی 56 ہزار فیس ادا کی ہے۔ یونیورسٹی میں سمسٹر کا آغاز ہوا تو انتہائی مایوس کن ماحول تھا،کوئی ڈسپلن نہیں،کوئی مینجمنٹ نہیں،طلبہ میں گروپ بندی ہے وہ جاری کلاس سے سٹوڈنٹس کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔کلاس روم میں اساتذہ سے سوال پوچھنا ایک جرم ہے۔ طالبعلم نے بتایا کہ اس کے ایک دوست کی گاڑی یونیورسٹی میں اس لیے توڑ دی گئی کہ اس میں گانے کیوں چل رہے تھے؟ اور ایک طلبہ تنظیم کی طرف سے یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈز کو احکامات ہیں کہ اگر لائبریری میں کوئی لڑکی موجود ہوگی تو لڑکوں کو اندر آنے کی اجازت نہیں ہوگی”

لاہور میں گزشتہ ہفتے کے دوران ایک درجن سے زائد طلباء پر بھی مقدمات درج ہوئے ہیں اور وہ سکول بیگز کے ساتھ عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔میری معلومات کے مطابق ملک کے 138اعلی تعلیمی اداروں میں سے 98 اداروں نے اب تک جنسی ہراسانی کے تدارک کی پالیسی اپنائی ہی نہیں، اور ان اداروں میں موجود طالبات یا توجنسی ہراسانی کے قوانین سے واقف ہی نہیں یا بدنامی کے خوف اورمعاشرتی دباو کے باعث ہراساں کرنے والوں کے خلاف کاروائی سے گریز کرتی ہیں۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کو فی الفور چاہیے کہ بڑھتے ہوئے ان واقعات کی روک تھام کیلئے جس طرح پارلیمنٹ سمیت اسلام آباد کےتمام سرکاری اداروں میں جنسی حراساں کرنے کے قوانین جلی حروف میں دفتروں کی دیواروں پر چسپاں ہیں اس طرح کالجز اور یونیورسٹیوں میں چسپاں کئے جائیں اور اساتذہ کیلئے ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے اور ایسے مجرموں کو نہ صرف نکال باہر کیا جائے بلکہ نشان عبرت بنایا جائے۔

پارلیمنٹ اور حکومت کی طرف سے طلبہ تنظیموں کے کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔تعلیمی اداروں میں سٹاف یونین کی طرح غنڈہ اور آوارہ گرد عناصر نکال کرانتخابی عمل سے مثبت اور صحت مندانہ طرزعمل کی حامل طلباء یونینز بحال اور فعال کی جائیں،جس معاشرے میں بچے کو سوال کی اجازت نہیں اس میں لیڈر کیسے پیدا ہوسکتے ہیں،آج وزیر اعظم اور اپوزیشن کے جید راہنماؤں سمیت ہمارے بیشتر سیاسی لیڈر وہ ہیں جنہو ں نے ملکی اور غیر ملکی تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین سے سیاست کا آغاز کیا تھا،آج نا جانے کیوں اس نرسری کو بند کر دیا گیا ہے؟بچے قوم کا سرمایہ اور حقیقی مستقبل ہیں،عظیم قومیں مستقبل کے معماروں کو کھبی نظر انداز نہیں کرتیں۔۔!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے