تھالی کے بینگن

پاکستانی معاشرے میں جو اخلاقی، تہذیبی اور سماجی زوال آیا ہے، اس میں سفارشی اور خوشامدی کلچر پورے عروج پر ہے۔ ایک ٹولہ ہے جو اپنے لیڈرکی ہر بات کو خواہ وہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو، صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ یہ ٹولہ کبھی جمہوریت کا راگ الاپتا ہے اور جب جمہوریت کی ڈگڈگی کی آواز ہلکی پڑنے لگتی ہے تو یہ ’’بوٹوں‘‘ کی آہٹ سننے لگتا ہے۔ یہ ٹولہ مکمل طور پر ’’چلو تم ادھر کو‘ ہوا ہو جدھر کی‘‘ کی کھلی تفسیر ہے۔ آپ اس خوشامدی ٹولے کو ’’تھالی کا بینگن‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
بہرحال یہ خوشامدی ٹولہ آج ہر جگہ موجود ہے۔ سب سے زیادہ ان کی کثرت اسمبلیوں میں ہے اور اب تو خیر سے میڈیا میں ان کی کھپت بہت زیادہ ہے۔ کبھی جب تہذیب و شائستگی، شرافت اور نجابت کی پہچان تھی، اس وقت یہ خوشامدی ٹولہ موجود نہ تھا، لوگ اپنے مخالفین کے لیے بھی ’’آپ جناب‘‘ کہہ کر بات کرتے تھے جب کہ اب کئی دہائیوں سے ’’تو تکار‘‘ ان ہی کی پہچان ہے۔
80ء کی دہائی سے لے کر آج تک جمہوریت کے نام پر جو منظر پیش کیے گئے ہیں، ان بیانات کو دیکھیے تو ایک تضاد نظر آئے گا۔ شکر ہے نام بدلنے والی تکرار آج کل سننے میں نہیں آ رہی، شاید اس کی وجہ یہ کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے سے لے کر امن و آشتی کا راگ الاپنے والے، دہشتگردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بہت سے کاموں کے لیے کئی نام درکار ہوں گے۔ اسی لیے ’’میرا نام بدل دینا‘‘ یا ’’میں اپنا نام بدل دوں گا‘‘ جیسے جملے اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔
ایک افسوسناک بات ہماری سوسائٹی میں یہ ہے کہ ہر سطح پر خوشامدی اور سفارشی لوگوں کی بھرمار ہے، جھوٹ، خوشامد، بے ایمانی اور دروغ گوئی کا ماحول زور پکڑ رہا ہے۔ سچ بولنے والا مجرم گردانا جاتا ہے اور جھوٹ بولنے والے کے سر پہ تاج ہوتا ہے۔ ہمارے لیڈر اور سیاست دان اپنے کارکنوں کی تربیت نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا ماحول پورے ملک میں رائج ہے۔ سیاسی کھیل تماشے مسلسل جاری ہیں۔
کسی لیڈر کے پاس نہ وقت ہے نہ توفیق کہ وہ اصلاحی کاموں پہ توجہ دے، الٹی گنگا بہہ رہی ہے جس میں کرپشن کے مگرمچھ ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ملک شدید افراتفری کا شکار ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ من مانی قیمتوں پر اشیا فروخت ہو رہی ہیں۔ مردہ جانوروں کا گوشت بک رہا ہے، بڑے بڑے ہوٹلوں میں مردہ اور بیمار مرغیاں سپلائی کی جا رہی ہیں، چھاپہ پڑتا ہے لیکن سفارشی کلچر آگے آجاتا ہے۔ غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں، مختلف بیماریاں چاروں طرف سے حملہ آور ہو رہی ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جس ملک میں گھوڑوں کو مربے، جام جیلی اور بادام کھلائے جاتے ہوں اسے اسلامی کہنا جائز نہیں۔
ہمارا دین سادگی کی تعلیم دیتا ہے۔ آنحضرتؐ سے لے کر خلفائے راشدین تک سب نے زندگی بہت قناعت سے اور سادگی سے گزاری لیکن ہم مذہب کے معاملے میں نعرہ بازی تو بہت کرتے ہیں لیکن اس کی روح پر عمل پیرا ہرگز نہیں۔ ہمارے حکمران امریکا میں اپنا اور خاندان کا علاج کرواتے ہیں، چھٹیاں سوئٹزرلینڈ میں گزارتے ہیں، پاؤں میں موچ آ جائے تو دنیا کے مہنگے ترین اسپتالوں میں علاج کراتے ہیں۔ خوشامدی ٹولے کے ساتھ بیرون ملک دورے کرتے ہیں تو مہنگے ہوٹلوں میں کاروان خوشامد کو ٹھہراتے ہیں۔
دنیا کی مہنگی ترین گھڑی اور ہیروں جڑے چشمے استعمال کرتے ہیں۔ اور دعویٰ ’’اسلام‘‘ سے محبت کا اور مسلمان ہونے کا۔ کیسا قول و فعل میں تضاد ہے۔ موجودہ حکمران اور وہ جو اپنی باری کے انتظار میں دانت نکالے مسکرا رہے ہیں، اپنے بیانات سے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہے۔ پنگورے سے دودھ پیتے بچوں کو نکال کر سیاست کے غلیظ سمندر میں اس یقین کے ساتھ کھڑا کردیا ہے کہ اب ان کی باری پھر آگئی۔ الٰہی خیرکرے پاکستانی عوام کب تک آلودہ پانی پیتے رہیں گے، مردہ جانوروں کا گوشت کھاتے رہیں گے اور ووٹ دیتے رہیں گے؟
پاکستان بڑی مشکلوں سے وجود میں آیا ہے، ملک کا ایک بازو بنگلادیش بن چکا ہے۔ لٹیروں نے نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس سے ساز باز کر رکھی ہے۔ اس ملک میں کبھی اصلی جمہوریت نہیں آسکتی کیونکہ یہاں تعلیم کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاکی وردی میں لپٹی جمہوریت ہی ہمارے حکمرانوں کو سوٹ کرتی ہے پاکستانی عوام گزشتہ 70 سال سے مداری کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ مداری کبھی معمول کو زمین پہ لٹا کر من چاہے سوالوں کے جواب مانگتا ہے، بندریا نچاتا ہے، جمہوریت کی بندریا کبھی ناراض ہوکر میکے چلی جاتی ہے اور بے چارہ بندر اسے مناکر لے آتا ہے لیکن اصل ڈگڈگی مداری ہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ وہ اپنے سے بڑے مداریوں کے ایما پر کھیل دکھاتا اور انھیں مطلوبہ نتائج دیتا ہے کیونکہ مطلوبہ نتائج دینا مداریوں کی مجبوری ہے۔ سفارشی ٹولہ مختلف محکموں میں خوشامدی ٹولے کی مہربانی سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے۔ ہرعہدیدار کے پیچھے ’’سفارش‘‘ کا ٹیگ لگا ہے۔
خواہ ادبی ادارے میڈیا ہو یا دیگر ادارے خوشامدی ٹولے کی کارکردگیاں ہر جگہ موجود ہیں۔ سارا زور مخالف کو پچھاڑنے میں صرف ہو رہا ہے، لیڈروں کی زبان سن کر شرم آتی ہے کہ یہ ’’اوئے‘‘ اور ’’ابے او‘‘ سے مخالفین کو مخاطب کرتے ہیں۔ اسمبلیوں میں جو زبان اسمبلی کے اجلاس کے دوران استعمال ہوتی ہے وہ ان نام نہاد ’’اشرافیہ‘‘ کا شجرۂ نصب بتانے کے لیے کافی ہے۔ یہ زبان تفریق پیدا کر رہی ہے اور لوگوں کو تصادم کی طرف لے جا رہی ہے، شاید ایسا جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔
برما کے روہنگیا مسلمانوں پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ برمی فوج حکومت اور تشدد پسند بدھ بھکشوؤں نے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کردی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ گوتم بدھ کے آدرشوں کو سنبھال کر رکھنے والوں نے بدھا کی تعلیمات کو کس طرح بھلا دیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے 1947ء کی تقسیم کا واقعہ زندہ ہوگیا ہے، وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو برصغیر کی تقسیم کے وقت ہوا تھا، خون، لاشیں، جلاؤ گھیراؤ، گولی، ڈوبتی کشتیاں اور لقمہ اجل بنتے ہوئے بچے۔
افسوس کہ اقوام متحدہ نے اب تک کوئی سیریس ایکشن نہیں لیا۔ جو تفصیلات آرہی ہیں وہ بہت بھیانک اور دہشتناک ہیں لیکن میری پریشانی یہ سوچ کر مزید بڑھ جاتی ہے کہ آج برما کی ریاست راکھائن سے مسلمانوں کو یہ کہہ کر نکالا جا رہا ہے کہ یہ برما کے اصل شہری نہیں ہیں۔ وہ بے یار و مددگار بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پڑے ہیں۔ ترکی اور بنگلہ دیش لائق تحسین ہیں کہ انھوں نے ان خانماں بربادوں کی مدد کی لیکن میری تشویش کی نوعیت مختلف ہے۔
آج برما سے مسلمانوں کو نکالا جا رہا ہے۔ کل کسی اور ملک سے بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ملک سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نکال باہر کرے۔ ذرا سوچئے کہ اگر برطانیہ سے، امریکا سے، کینیڈا سے یا جاپان سے مسلمانوں کو نکالا جانے لگا تو کیا ہو گا؟ کیونکہ برما میں ہونے والے تشدد نے اقوام متحدہ کی غیر جانبداری کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ افسوس کہ مسلم ممالک اس سانحے پر خاموش ہیں۔ انھیں چاہیے کہ یک زبان ہوکر ایک مشترکہ قرارداد اقوام متحدہ کو دیں جس میں مطالبہ ہو کہ روہنگیا مسلمانوں کو برما میں واپس بھیج کر ان کی شہریت بحال کروائے۔
صرف یہی نہیں بلکہ مسلم ممالک ان برمی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے اجناس، کپڑے، خشک دودھ، خیمے، جوتے اور ضروریات زندگی کی چیزیں بھیجیں۔ کہتے ہیں یہ بدھ مت کا انتہا پسند طبقہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے ہاں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے۔ انھیں خطرہ ہے کہ آیندہ جاکر بدھ اقلیت میں ہو جائینگے اور مسلمان اکثریت میں۔ ایسا تو دوسرے ممالک بھی سوچ سکتے ہیں جہاں مسلمان آبادی کی کثرت ہے۔ یہ احساس خطرے کی گھنٹی ہے۔ تمام مسلمانوں کے لیے جو غیر ممالک میں بس رہے ہیں۔ انتہا پسندی نے ویسے ہی مسلمانوں کا امیج دنیا بھر میں خراب کر رکھا ہے۔ اب راکھائن کے پناہ گزینوں کے لیے کوئی نئی آفت نہ کھڑی کردی جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے