ایدھی فاونڈیشن کی زمین پر قبضے کی اصل کہانی

ٹھٹہ میں ایدھی فاؤنڈیشن کی زمین پر قبضہ ہوگیا، خبر نے آناً فاناً میڈیا پر جگہ بنائی، فیصل ایدھی روتے ہوئے آئے اور کہا کہ اب یہ بھی ہمارے ساتھ ہونا تھا، بلقیس ایدھی نے فرمایا کہ اچھا ہوا ایدھی صاحب یہ دیکھنے سے پہلے مرگئے.

یہ کہانی کا ایک رخ ہے، یہ وہ رخ ہے جو ایدھی فاؤنڈیشن نے دکھانے کی کوشش کی اور اچھا ہوا کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا یہ چہرہ دیکھنے سے پہلے ایدھی صاحب دنیا سے چلے گئے.

ٹھٹہ کی جس زمین پر ایدھی فاؤنڈیشن نے کلیم کیا کہ وہاں قبضہ ہوگیا ہے، دراصل 1985 میں 30 سالہ لیز پر حاصل کی گئی زمین تھی، مالک نے لیز ختم ہونے پر کرائے کا مطالبہ کیا، فیصل ایدھی نے منع کردیا، معاملہ ٹھٹہ سیشن کورٹ گیا جہاں سے زمین کے مالک کے حق میں فیصلہ آیا اور یوں زمین پر قبضہ ہوگیا.

فیصل ایدھی نے ٹھٹہ میں پی پی والوں کی مقامی قیادت کے ساتھ مل کر احتجاج کیا اور آنسو بہائے جس کے بعد سندھ حکومت نے سرکاری زمین فیصل ایدھی کو الاٹ کرنے کی پیش کش کردی، اگر وہ آنسو بہائے بغیر بھی کسی کو کہہ دیتے تو اتنی زمین انہیں مل جاتی اور اگر کوئی نہیں دیتا تو ہم جیسے “سوشلسٹ ایدھی” کے پیروکار جھولی پھیلا کر کھڑے ہوجاتے.

کارپوریٹ ادارے ہمیشہ سے ایدھی فاؤنڈیشن کو استعمال کرنا چاہتے تھے اور ایدھی صاحب کی زندگی میں ایسا نہیں کرپائے اور ایدھی صاحب کے انتقال کے بعد فورا ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی نے ایدھی فاؤنڈیشن کے لئے چندہ کمپئن کی جس سے ایدھی صاحب کے مشن سے وابستہ بہت سے افراد کے دلوں کو شدید ٹھیس پہنچی.

فیصل ایدھی صاحب کو کوئی جاکر بتائے کہ صوفی شاہ عنایت کے مزار پر جو بوئے وہ کاٹے کا نعرہ لگادینا کافی نہیں، عبدالستار ایدھی کی طرح اپنے عمل سے کمیونسٹ ہونا ثابت بھی کرنا ہوتا ہے.

رپورٹرز کو بھی سلام ہے جو یکطرفہ مؤقف چلا کر خبروں کا پیٹ بھرتے ہیں، ذرا کوئی رپورٹر زحمت کرے اور زمین کے مالک ممتاز کھتری کا مؤقف یا عدالتی حکم نامہ بھی دنیا کو بتادے تاکہ پورا معاملہ پتہ چلے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے