نامعلوم افراد اور نا معلوم موسم

آج نوجوان رپورٹر احمد نورانی پر نامعلوم افراد کی طرف سے تشدد کا تیسرا چوتھا روز ہے مگر میرے دل پر بوجھ وہی پہلے دن جیسا ہی ہے میں جب اخبار میں اس خوبصورت اور صاحب کردار نوجوان کی زخمی حالت میں تصویر دیکھتا ہوں اور اس کے اسباب کے حوالے سے طرح طرح کے خیالات دل میں آتے ہیں تو لگتا ہے کہ ایک پاکستانی نہیں میرے سامنے پاکستان زخمی حالت میں پڑا ہے ۔ اس تشدد سےپہلے کچھ نامعلوم افراد نے رات کو ان کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی تھی مگر دروازہ نہ کھلنے سے وہ نامعلوم افراد واپس لوٹ گئے ۔ایک اور باصلاحیت اور بہادر رپورٹر عمر چیمہ کو بھی اغوا کرکے اس پر تشدد کیا گیا ان کے علاوہ بھی بہت سے صحافی دھمکیوں اور زدوکوب بلکہ شہادت کے مراحل سے بھی گزرے ۔حامد میر کو بھی اللہ تعالیٰ نے دوسری زندگی دی میں اس موضوع پر مزید کچھ نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ میں ان صحافیوں کی طرح نوجوان نہیں ایک بوڑھا آدمی ہوں، میں تو نامعلوم افراد کی ایک ’’چپیڑ‘‘ بھی برداشت نہیں کر سکوں گا۔ چنانچہ عقیل عباس جعفری کی ایک پرانی غزل درج کرکے کسی دوسرے بے ضرر سے مسئلے کو آج کے کالم کا موضوع بناتے ہیں، غزل ملاحظہ کریں ۔
پہلے شہر کو آگ لگائیں نامعلوم افراد
اور پھر امن کے نغمے گائیں نامعلوم افراد
لگتا ہے انسان نہیں ہیں کوئی چھلاوا ہیں
سب دیکھیںپر نظر نہ آئیں نامعلوم افراد
ہم سب ایسے شہر ناپرساں کے باسی
جس کا نظم ونسق چلائیں نامعلوم افراد
لگتا ہے کہ شہر کا کوئی والی نہ وارث
ہر جانب بھی دھوم مچائیں نامعلوم افراد
پہلے میرے گھر کے اندر مجھ کو قتل کریں
اور پھر میرا سوگ منائیں نامعلوم افراد
ان کا کوئی نام نہ مسلک نہ ہی کوئی نسل
کام سے بس پہچانے جائیں نامعلوم افراد
شہر میں جس جانب بھی جائیں ایک ہی نظر ہے
آگے پیچھے دائیں بائیں نامعلوم افراد
چلیں یہ موضوع یہاں ختم کرتے ہیں اب موسم کی بات کرتے ہیں ، سچ پوچھیں تو میں اس موسم کے بارے میں صرف ایک بات ہی کر سکتا ہوں اور وہ یہ کہ یہ موسم بہت منافق ہے اوپر سے کچھ نظر آتا ہے اندر سے کچھ اور …بالکل ہمارے معاشرے جیسا ! صبح گھر سے نکلتے وقت ٹی شرٹ میں نکلیں تو دفتر میں پنکھا چلنے پر کپکپی طاری ہونے لگتی ہے اور اگر معمولی سے گرم کپڑے پہن لیں تو یہ جسم کو برداشت نہیں ہوتے اور چونکہ ہم مشرقی لوگ ہیں چنانچہ برداشت کرنا پڑتے ہیں اس منافق موسم کا معاشرہ صرف ایک لباس کرسکتا ہے اور وہ دھوتی ہے ۔سردی لگے تو اسے اوپر اوڑھ کر سو جائیں گرمی لگے توجو جی چاہے کریں مگر میرا مسئلہ تو کچھ اور ہی ہے میں جب اپنی وارڈ روب کھولتا ہوں تو میرا ’’نواں نکور‘‘ سوٹ مجھے بہت غصیلی نظروں سے دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر پہننا نہیں تھا تو دومہینے پہلے سلوا کر مجھے الماری میں قید کیوں کر دیا ہے ۔میں اسے کہتا ہوں بھائی میرا قصور نہیں موسم سرما کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے چنانچہ دیکھ لو دن کتنے چھوٹے ہو گئے ہیں مگر دن چھوٹے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔تمہیں پہن کر نکلوںگا تو کچھ ہی دیر بعد تم آدھے رہ جائو گے کوٹ اتار کر مجھے کاندھوں پر رکھنا ہو گا اور تم پتلون کی جدائی میں آہیں بھرنا شروع کر دو گے۔ اس پر وہ چپ کر جاتا ہے ایک مسئلہ رات کو بھی درپیش آتا ہے پائوں کی جانب احتیاطاًکمبل دھرا ہوتا ہے مگر سوتے میں اسے ٹانگیں مار کر پلنگ سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے کہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ویسے کچھ لوگ ابھی تک رات کو اے سی چلا کر سوتے ہیں اور رضائی کے دونوں کونے مضبوطی سے پکڑے ہوتے ہیں کہ ٹھنڈی ہوا کہیں اندر کا رخ نہ کر بیٹھے مگر اس کے باوجود صبح چھینکیں مارتے اٹھتے ہیں!
تو سچی بات یہ ہے کہ نا تو موسم کا پتا چل رہا ہے اور نہ آج تک نامعلوم افراد کا پتا چل سکا ہے ان افراد کے ساتھ نامعلوم کا لفظ اتنے تواتر سے استعمال ہو رہا ہے کہ اب ان کا نام ہی ’’نامعلوم افراد ‘‘ پڑ گیا ہے ۔مجھے تو لگتا ہے کہ مستقبل قریب تو کیا مستقبل بعید میں بھی یہ نامعلوم افراد نامعلوم ہی رہیں گے مگر مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اب اپنی بات کہنے والے دن بدن زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔کچھ تو کھل کر سامنے آتے ہیں اور کچھ نامعلوم افراد کی طرح نامعلوم ہی رہتے ہیں ۔چلیں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ’’قائم و دائم ‘‘ رکھے اسے مضبوط سے مضبوط تر بنائے پاکستان ہے تو ہم ہیں خدانخواستہ اگر اسے کچھ ہوا تو پھر ظالم اور مظلوم دونوں اپنے رویوں پر پچھتائیں گے۔ مظلوم اس لئے کہ اس نے ظلم کیوں برداشت کیا اور ظالم اس لئے کہ اس کے ظلم نے اس سے ظلم کی طاقت چھین لی اور یوں اسے مظلوموں کی صف میں شامل کر دیا یہ وقت ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں اپنے رویوں پر نظرثانی کریں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے