ٍفقیر پیسے کیوں مانگتے ہیں؟

زیادہ پرانی بات نہیں ہے آج سے بارہ پندرہ سال پہلے گھروں میں مانگنے والے آیا کرتے تھے تو گھر میں جو کچھ بھی ہوتا تھا ان کو دے دیا جاتا تھا چاہے وہ لفافے میں خشک آٹا ہو یا پچھلے دن کا بچا ہوا سالن۔۔۔ فقیر بھی خوشی خوشی ہر چیز لے لیا کرتے تھے کیونکہ مقصد صرف پیٹ بھرنا ہوتا تھا چاہے اس کے لیے پیسے ملیں یا کھانا۔۔ دونوں صورتیں ہی قابل قبول ہوتی ہیں۔۔۔

پھر آہستہ آہستہ وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ فقیروں کے تقاضے بھی بدل گئے۔۔۔ آٹا سالن کے بجائے پیسوں کو ترجیح دینے لگے۔۔۔ اور پھر یہ وقت بھی آیا کہ پانچ دس کی اہمیت ہی ختم ہو گئی۔۔۔ فقیر روٹی کپڑے یا پانچ دس کی امداد لینے سے کترانے لگے ان کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہونے لگا۔۔۔۔

پاکستان میں میڈیا متحرک ہوا تو ہر چیز ہائی لائیٹ ہونے لگی۔۔۔ عوامی مسائل اجاگر ہوئے تو لوگ اپنے مسئلے مسائل لیے میڈیا پر آنے لگے اس سے بہت سے لوگوں کا بھلا ہوا۔۔ مختلف بیماریوں یا تکالیف کا شکار لوگوں کے حالات دیکھنے کے بعد ہمدر اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے افراد کو بھی آسانی ہوئی اور وہ متعلقہ افراد کی مدد کے جذبے سے آگے بڑھنے لگے۔۔۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ لوگ ہر مسئلے کا حل پیسے میں ڈھونڈنے لگے اگر کسی کو علاج سے غرض ہے تو مقصد صرف علاج ہونا چاہیے نا کہ مالی امداد۔۔۔ لیکن میڈیا پر آ کر اپنے حالات سے آگاہی دے کر لوگ پیسوں کی امداد کے منتظر رہنے لگے۔۔۔ اگر کسی ادارے یا کوئی شخص پیسوں سے مدد کرنے کے بجاٗے علاج معالجہ کروانے کے لیے تعاون کرنے لگے تو بجائے شکرگزار ہو کر ایسی آفر کو رد کرنے لگے۔۔

ہمارے معاشرے میں بڑھتا حرص و ہوس اس قدر زیادہ ہو گیا ہے کہ اپنوں کی تکلیف روپے پیسے کے سامنے بےمعنی ہو گئی ہے۔۔۔ اگر کسی اپنے کی تکلیف روپے پیسے لانے کا سبب بن رہی ہے تو اس کا علاج کروا کر اس کو اس کرب سے نجات دلانے کے بجائے اس کی بیماری کی تشہیر کو کماٗی کا ذریعہ بنایا جانے لگا ہے۔۔۔
ان رویوں کا خاتمہ ناگزیر ہے معاشرے میں پننپتا لالچ ختم کرنا ہو گا اور اس حوالے سے میڈیا کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔۔۔

یقینا ایسی رپورٹس ضرور بناءیں جن سے کسی کا بھلا ہو جائے لیکن کوشش یہ کریں کہ مالی مدد کے بجائے بیماری کا علاج کروانے کی اپیل کریں۔۔ اگر کسی بچے کی تعلیم کا معاملہ ہو تو اس کی فیس جمع کروائی جائے عوام کو بھکاری بنانے کے بجاءے ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا تاکہ اگر کوٗی پیسے کا لالچ آ بھی جائے تو پننپنے نہ پاٗے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے