سندھ کی پلاسٹک سرجری !

جب جی ایم سید حیات تھے اور سندھ کے تعلیمی اداروں کی دیواروں پر جی ایم سید رہبرآ ، سندھو دیش مقدر آ کے نعرے لکھے ہوتے تھے تو نہ تو کوئی انھیں مٹاتا تھا اور نہ ہی یہ نعرے لکھنے یا لکھوانے والے غائب ہوتے تھے۔بلکہ ضیا الحق کی جانب سے سن میں گلدستے بھیجے جاتے تھے کیونکہ اس زمانے میں حکومتِ وقت کو سندھو دیش سے زیادہ ایم آر ڈی کی وفاق پرست تحریک بالخصوص پیپلز پارٹی سے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔

یہ بھی حسنِ اتفاق ہے کہ اسی زمانے میں سندھ کے شہری علاقوں میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( اے پی ایم ایس او ) کے بطن سے مہاجر قومی موومنٹ کا جنم ہوا۔کہا جاتا ہے کہ اس نے مہاجروں کی فرسٹریشن سے جنم لیا اور ایک طالبہ بشریٰ زیدی کی ٹریفک حادثے میں موت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔مگر فیصلہ سازوں نے سیاست حرام قرار دینے کے باوجود اس نئی شہری تحریک کے ابھار یا سرگرمیوں کی اس مارشل لائی گرفت کے ساتھ حوصلہ شکنی نہیں کی جو پیپلز پارٹی جیسی دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کے لیے مختص تھی۔

نئی تنظیم کے ابھرنے سے پیپلز پارٹی کا شہری علاقوں میں سیاسی راستہ بند ہو پایا یا نہیں البتہ گیہوں سے زیادہ گھن پس گیا۔جماعتِ اسلامی اور جمیعت علماِ پاکستان جیسی جماعتوں کو نئے نقشے کے تحت شہر بدر ہونا پڑ گیا۔ اگر ایم کیو ایم پیپلز پارٹی وغیرہ کو بیلنس کرنے کے لیے وجود میں لائی بھی گئی تھی تو تھوڑے ہی عرصے بعد خود ایم کیو ایم کی روڈ رولر سیاست کو توازن میں رکھنے کے لیے شہری علاقوں میں کوئی متبادل قوت باقی نہ رہی۔

مگر اس اسٹرکچرل خامی کا احساس آرکیٹیکٹ حضرات کو نوے کی دھائی میں ہوا۔چنانچہ ایم کیو ایم کے پر کترنے کے لیے جناح پور کے نقشے اور ایم کیو ایم حقیقی سامنے لائے گئے مگر تب تک جن بوتل سے نہ صرف نکل چکا تھا بلکہ اس کا حجم اتنا بڑھ گیا تھا کہ کنگ سائز بوتل بنانے تک اسے برداشت کرنا ایک مجبوری ہوگئی۔ بے نظیر اور نواز شریف حکومتوں کے کھردرے اناڑی پن نے حالات کو اور بگاڑ دیا۔

چنانچہ سارا منافع سود سمیت پرویز مشرف نے اپنی سیاسی بقائی سہولت کے لیے کیش کرا لیا۔پکا قلعہ اور جناح پور سازش کی ڈسی ایم کیو ایم کو آٹھ برس تک فری ہینڈ ملا۔لیکن اس نے یہ وقت شہری علاقوں کو بحثیتِ مجموعی آگے لے جانے کے بجائے پارٹی اور شخصی آمریت کو مضبوط کرنے اور اپنوں اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے میں استعمال کر لیا اور اس کے عوض اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھانے میں بطور سہولت کار استعمال ہوگئی۔ اس کا منہ بولتا ثبوت بارہ مئی دو ہزار سات کی شکل میں تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

مگر وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ لمبا رسہ پھانسی کا پھندہ بھی باآسانی بن جاتا ہے۔ جب یہ گمان یقین میں بدل جائے کہ اس وقت جو ہرا ہرا ہے کل بھی ہرا ہرا رہے گا تو پھر گائے بھول جاتی ہے کہ کتنا چرنا ہے کہ جگالی کی گنجائش رہے اور بد ہضمی نہ ہو۔جیسے ہی مشرف دور گیا ایم کیو ایم کے لیے سائے لمبے ہونے لگے۔ مگر سب یہی سمجھتے رہے کہ یہ شام نہیں بادل ہیں۔ چنانچہ گذشتہ برس بائیس اگست کو ایم کیو ایم کی لندن قیادت نے اپنے ہی ہاتھوں لمبے رسے سے خود کو سیاسی پھانسی دے لی۔

بجائے اس کے کہ اسٹیبلشمنٹ خود بخود مائنس ون ہوجانے پر خوش ہوتی اور ایم کیو ایم کی مقامی پاکستان نواز قیادت کو اپنے ہاتھ پیر سیدھے کرنے اور زمین پر ٹکنے کا موقع دیتی۔اس نے نوے کی دہائی کی طرح پھر پیراشوٹی راستہ اپنایا اور ایم کیو ایم پاکستان ، حقیقی اور پی ایس پی کو ایم کیو ایم کے ہی مانوس بنیر تلے یکجا ہو کر ماضی سے ناطہ توڑنے کا موقع دینے کے بجائے خود شطرنج کھیلنے بیٹھ گئی۔

حالانکہ ایوب خان کی سن چونسٹھ کی پہلی، ضیا الحق کی دوسری اور نوے کی دہائی کی تیسری پلاسٹک سرجری سے شہری سیاست کا منہ سیدھا ہونے کے بجائے اور ٹیڑھا گیا۔مگر سرجن آج بھی پرامید ہے کہ اس بار کی چوتھی پلاسٹک سرجری پچھلی بد نمائیاں دور کر دے گی۔رہے ووٹر تو ان کے بارے میں فرض کر لیا گیا ہے کہ وہ جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر نئے تخلیق کردہ حقائق بھی پہلے کی طرح قبول کر لیں گے۔

مگر آج کی اور پچھلی نسل میں ایک فرق ہے۔پچھلی نسل موبائیل فون ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے محروم تھی لہذا آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنے کا تجربہ آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔اب کی بار لوگ بھلے کچھ نہ کر پائیں مگر انھیں پتہ سب ہے کہ کون کیا کرتب دکھا رہا ہے۔حتیٰ کہ وہ روبوٹ اور جاندار میں بھی تمیز کرنے لگے ہیں۔

بات شروع ہوئی تھی سندھی قوم پرستوں سے اور کہاں سے کہاں نکل گئی۔ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جب قوم پرستوں کے حوصلے بلند تھے اور تعلیمی ادارے بھی ان کے گڑھ تھے اور وہ کھلم کھلا سندھو دیش کے نعرے لگاتے پھرتے تھے تب تو وہ آزاد رہے یا زیادہ سے زیادہ جیل چلے گئے۔اب جب کہ بظاہر قوم پرستی محض نعروں کی حد تک رہ گئی ہے۔زیادہ تر چلبلے بیرونِ ملک ہیں اور جو یہاں ہیں وہ پوری طرح ہز ہائی نیس کے اعتماد میں ہیں۔تو اس وقت ایسی کیا افتاد آن پڑی کہ بقول ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سندھ میں جتنے سیاسی کارکنان یا حقوق کے وکیل پچھلے پانچ برس میں اٹھائے یا غائب کیے گئے ان میں سے ستر فیصد موجودہ سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران غائب ہوئے۔اور اس دفعہ جو باریک گجو جال ڈالا گیا ہے اس میں صرف خطرناک شارکیں اور آکٹوپس ہی نہیں بلکہ کیکڑے ، کچھوے ، چھوٹی مچھلیاں حتیٰ کہ جھینگے بھی پھنس رہے ہیں۔

اب تو سندھ اسی کی دہائی جیسا سیاسی خطرہ بھی نہیں۔ اب وہ پیپلز پارٹی بھی نہیں کہ جس کے لیے تیس پینتیس برس پہلے آہنی ہاتھ بنایا گیا تھا۔آج کی پیپلز پارٹی تو آہنی ہاتھ چھوڑ بغیر دستانے والا ہاتھ دیکھ کے بھی راستہ چھوڑ دیتی ہے۔تو پھر سندھ پر خصوصی آہنی نظرِ کرم کیوں ؟ تحریکِ انصاف اور ن لیگ کو ویسے ہی سندھ میں ووٹ بینک بنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔مذہبی انتہا پسند تنظیموں کو پھلنے پھولنے کے لیے ووٹ بینک کی ہی ضرورت نہیں۔ایسی تنظیموں کے پنپنے کے سبب روائیتی مذہبی سیاسی جماعتوں کی کرنسی اب نہ کراچی میں چلتی ہے نہ دادو میں۔

کراچی میں بظاہر امن و امان بحال ہو چکا ہے۔شہر کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔مگر یہ پرسکون چہرہ اس مریض کا ہے جو ابھی آپریشن تھیٹر کی میز پر انستھیسیا کے اثر میں ہے۔جب اسے وارڈ میں منتقل ہونے کے بعد واک کرنے کی اجازت ملے گی تب پتہ چلے گا کہ پلاسٹک سرجری کس قدر کامیاب رہی۔باقی سندھ میں کوئی ایسا بیل بھی دکھائی نہیں دے رہا جسے لال کپڑا دکھا کے کہا جائے ’’ آ بیل مجھے مار ’’۔

سنا ہے تین سو بائیسویں بار کوئی بے ضرر سا سندھ گرینڈ الائنس بھی بنایا گیا ہے۔تو پھر آہنی ہاتھ سے شطرنج کھیلنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ کوئی تو بتائے۔ اپن کی سمجھ میں تو کچھ نہیں آریلا ہے۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے