سر رہ گزر…کرکٹ فاتحانہ لوٹ آئی!

ان شاء اللہ تعالیٰ ہم سے جو بھی چھینا گیا وہ لوٹنے کا موسم آ گیا ہے، انٹرنیشنل کرکٹ واپس لانے کے لئے اپنی دم توڑتی کرکٹ کو سنبھالا دینے ہی سے ممکن ہوا کہ اب وہ دیوار گر گئی، جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے راستے میں کھڑی کر دی گئی تھی۔ سری لنکن ٹیم کا آنا ایک بڑی فتح ہے، کہ اسی ٹیم پر حملے کے بعد ہی بین الاقوامی کرکٹرز ادھر کا رخ نہیں کرتے تھے، اور اب یہ ایک کرشمہ تو ہے مگر اس کے پیچھے اچھی منصوبہ بندی، محنت اور لگن بھی کارفرما ہے جس کا سہرا پی سی بی کے موجودہ چیئرمین ان کے رفقاء اور پاکستانی کھلاڑیوں کے سر ہے جنہوں نے ٹھان لی تھی کہ روٹھی کرکٹ کو گھر لانا ضرور ہے، پاکستان تو عالمی کرکٹ کا گھر تھا مگر دشمنوں کو یہ پسند نہ تھا اس لئے مختلف حربوں سے پاکستان سے پہلے انٹرنیشنل کرکٹ کو نکالا پھر ٹیم کو بھی داغدار بنانے کی کوشش کی گئی، سرفراز احمد نے اپنی کپتانی کا لوہا منوایا، گرتی پڑتی کرکٹ میں نئی جان آئی اور حیران کن کھیل پیش کرنے والی پاکستان کی جواں سال کرکٹ ٹیم نے وہ جوہر دکھائے کہ مریم صفدر نے ٹویٹ کیا ’’پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو گئی، شکریہ نواز شریف!‘‘ پاک فوج کے ترجمان نے کہا:آج قوم کی قربانیاں جیت گئیں، اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے مشن میں پاکستان جیت گیا، اے پیارے وطن! تیرا بہت شکریہ کرکٹ ٹیم کی انتھک محنتوں کا شکریہ، کرکٹ منتظمین کا شکریہ، پاکستانی عوام کا شکریہ، قائد و اقبال کا شکریہ اور انہیں مبارکباد، کرکٹ اب جس راہ چل پڑی ہے اپنی سنہری تاریخ دہرا دے، یکے بعد دیگرے عظیم فتوحات نے پاکستان کے امیج کو بہتر بنا دیا، جو غلط پروپیگنڈے ہمارے پیارے ہمسائے نے کئے اور ہمارے کرکٹرز کی جو عزت افزائی کی اس کا بھی بہت شکریہ، ہمارے نوجوان کرکٹرز نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی اور کرکٹ کے میلے وطن پاک میں سجنے لگے یہ بہت بڑی کامیابی ہے، اب وہ کام جو ہمارے سفیر نہ کر سکے، یہ کھلاڑی سفیر کریں گے، اور سب داغ دھل جائیں گے۔

٭٭٭٭
یہ کوئی لندن ہے یا کوچۂِ صنم ہے؟
کیا ہمیں پاکستان کافی نہیں کہ ہمارے مدارالمہام حضرات و خواتین یہاں نہ سوچ سکتے ہیں، نہ کوئی پروگرام بنا سکتے ہیں نہ کوئی مشاورت کر سکتے ہیں اور نہ پاکستان کی بھلائی کا معاملہ برسر پاک سرزمین طے کر سکتے ہیں؟؎
ہر ایک بات طے ہوتی ہے لندن میں
کیا غلاموں کو ہنوز آزادی نہ ملی؟

اہل سیاست ہوں کہ ارباب حکومت کیا ان کی حب الوطنی یہی ہے کہ لندن رہنا، لندن میں بچوں کو تعلیم دلوانا، لندن میں محلات کھڑے کرنا، لندن کے بینک بھرنا، اپنی شہریت ہوتے ہوئے بے وطنوں کی طرح غیروں کے وطن کی شہریت کے لئے اطاعت و وفاداری کے فارم بھرنا، ان کے نزدیک معاذ اللہ حج اکبر ہے؟ ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستانی قوم بھی اپنے رہنمائوں کی اس غلامانہ سوچ کے مالک ہوتے جا رہے ہیں کہ جس نے ایک دفعہ انگلینڈ دیکھ لیا وہ باقی پاکستانیوں سے زیادہ با عزت ہو گیا اب تو انگلینڈ پہنچنے کے لئے ہیں، انگلینڈ کی کسی خاتون سے شادی کی اور وہ اپنے سرتاج کو دیار غیر کا جوتا بنانے ساتھ لے گئی۔

ہمارے تمام سیاسی فیصلے لندن میں ہوتے ہیں، کیا پاکستان میں دماغ کام نہیں کرتا، علاج معالجہ بھی لندن سے کیونکہ ایک تو ہم اپنے ڈاکٹروں کو بھی نا اہل سمجھتے ہیں، اور سرزمین وطن کے اسپتالوں کو صرف لندن نہ جا سکنے والوں کا مرگھٹ بنا دیا ہے، آزادی حاصل کئے 70برس ہو گئے پر خوئے غلامی نہ گئی، ہم سے خود اپنی سونا اگلتی زمین سنبھالی نہ گئی، اپنی ہر پروڈکٹ پر لکھ دیں:خبردار محکمہ صحت، مضر صحت ہے:حکمران پاکستان لندن کو امرت دھارا نہ بنائیں اپنے دھارے میں لوٹ آئیں۔
٭٭٭٭

سیاست پارے وارے نیارے
….Oشیخ رشید:ن لیگ کے 60ارکان استعفیٰ دینے کو تیار ہیں،
ممکن ہے ن لیگ کو ری کنڈیشنڈ کرانے کا پروگرام ہو اس لئے ایک بار تو سب کو تھوڑی دیر کے لئے باہر آنا ہو گا، تاکہ صفائی کرنے والے جھاڑو لگا سکیں۔
….Oطاہر القادری:پاک لنکا ٹیموں نے دہشت گرد سوچ کلین بولڈ کر دی،
کیا کرکٹانہ فقرہ ہے؟ ٹیم کو فتح کی مبارکباد بھی دیدیتے، بہرحال ڈاکٹر صاحب اس ملک کے خیر خواہ اور محب ہیں، اللہ سلامت رکھے۔
….Oاعزاز چوہدری:پاک امریکہ تعلقات مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
اس میں ہے آپ کی سفارت کی آبرو!
….Oآزاد علی تبسم ایم پی اے ن پنجاب:ملک کے مستقبل کی مجرم اشرافیہ،
اور اشرافیہ کون؟ یہ کیوں گول کر گئے۔
….Oعظمیٰ بخاری ایم پی اے (ن) مایوس سیاستدان افواہوں پر زندہ،
ظاہر ہے آپ تو اقتدار کی میٹرو میں دوڑ کر چڑھ گئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے