آزادکشمیرعدلیہ کی پس پردہ کہانی

آزاد کشمیر چھوٹا سا جغرافیہ ہے- یہاں کی عدلیہ کی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں ، انہیں علم ہے کہ یہاں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اکثر ٹھنی رہتی رہی ہے- میں اس کا مشاہدہ 1977 سے کرتا چلا آرہاہوں. اس کا عروج تو ایک بار 1977-78 میں دیکھنے میں آیا، جب مرحوم محمد یوسف صراف کے خلاف سپریم کورٹ اور اس وقت کے فوجی حکمران کی ملی بھگت سے ریفرنس دائر کرایا گیا- ان کو استعفا دینے پر مجبور ہی نہیَں بلکہ پھر توہین عدالت میں سزا بھی دی گئی-

اس کے بعد بھی "لگائی بجھائی ” کا سلسلہ جاری رہا، حتی کہ 2004 میں ہائی کورٹ کے سینئیر ترین جج کو نظر انداز کرتے ہوئےجونئیر جج کو، ججوں اور اس وقت کے سیاست دانوں کی ملی بھگت سے چیف جسٹس بنایا گیا- بدقسمتی سے اس وقت نظر انداز ہونے والے سینئر جج نے اس صورت حال کو بلا اعتراض قبول کرلیا ،جس وجہ سے عوامی رد عمل نہیں ہوا –

یہ افسوسناک سلسلہ یہیں نہیں رکا، بلکہ یہ تاریخ 2006 میں سپریم کورٹ میں بھی دھرائی گئی ، جہاں چھ سال جونئیر جج کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا، اس میں بھی سیاست دانوں اور ججوں کی ملی بھگت تھی، لیکن اب کی بار نظر انداز ہونے والے جج نے شدید احتجاج کیا ، حتٰی کہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان تک پہنچا-اس وجہ سے اس بد عملی کے خلاف شدید عوامی رد عمل بھی ہوا- گو کہ چیف جسٹس کے خلاف بے شمار جائز شکایات اور الزام بھی تھے، لیکن ججوں کو غیر معمولی تحفظ اور عدلیہ کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیوں کی وجہ سے کوئی راہ نہیں سوجھ رہی تھی -اس رد عمل میں بار ایسوسی ایشنز ، حکومت مخالف سیاسی جماعتیں، طلباء اور ملازم تنظیمیں بھی شامل ہوگئیں، جس سے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی-

اس مزاحمت کے روح رواں افراد میں آج کے چیف جسٹس آزاد کشمیر چوہدری ابراھیم ضیاء بھی شامل تھے- مرکز میں پیپلز پارٹی اور آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کی حکومت تھی ، جس کے سربراہ موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر اور صدر راجہ ذواقرنین تھے-راجہ ذوالقرنین اس بدعملی میں شروع سے شامل تھے اور اس کو تحفظ بھی دے رہے تھے-چیف جسٹس ، سردار عتیق احمد خان کے ہاتھ میں کھلونا بنے ہوئے تھےاور اس کے ذریعہ راجہ فاروق حیدر خان کے خلاف کچھ بھی کرواسکتے تھے ، جس کی تیاریاں بھی ہورہی تھیں کیونکہ فاروق حیدر خان اور شاہ غلام قادر نے عتیق احمد خان کو وزارت عظمی سے الگ کروایا تھااور یہ قلق عتیق خان کو کھائے جارہا تھا –

راجہ فاروق حیدر اور شاہ غلام قادر کو اس صورت حال کا ادراک بھی تھا -اتفاق کی بات ہے کہ ادھر راجہ ذوالقرنین یورپ کے دورہ پر روانہ ہوئے، اِدھر فاروق حیدر خان نے قائم مقام صدر سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر کے ذریعہ چیف جسٹس کے خلاف ان الزامات پر مبنی سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کروا دیا، جو راجہ صداقت حسین ایڈووکیٹ( موجودہ جسٹس) نے صدر کے پاس چیف جسٹس کے خلاف دائر کی تھیں – سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس کو الزامات کے ثبوت کی پاداش میں آئین کے تحت بر طرف کرنے کے لئے وزیر اعظم پاکستان کو سفارش کی لیکن اس کے بجائے 2010 میں میں چیف جسٹس سے استعفا دلاکر اس بحران کو اس طرح ختم کیا گیا، جس کے بعد آزاد کشمیر میں بالکل نئی عدلیہ وجود میں آئی ، بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اس کی تشکیل نو ہوگئی-

اس کے بعدسپریم کورٹ کے دوچیف جسٹس بخیر ریٹائر ہوئے- عدلیہ میں ایک ہم آہنگی،مفاہمت اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی فضا دیکھنے میں آئی اور حفظ مراتب کو ملحوظ خاطر رکھنے کی کیفیت پیدا ہوئی – اتفاق کی بات ہے کہ سپریم کورٹ میں موجود تینوں جج ہی بحرانی کیفیت سے گزرے اور ثابت قدم بھی رہے ہیں – گوکہ اوریجنل اختیارات کے حوالہ سے ہماری سپریم کورٹ کے اختیارات محدود ہیں لیکن حفظ مراتب کے اعتبار سے اس کو تقدم حاصل ہے – اس لیے ان سے زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں ، جس کے لیے انتہائی بالغ نظری کی ضروت ہوتی ہے –

2010 کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے مطابق چیف جسٹس بنتے رہے اور نئی تقرریاں بھی با وقار طریقہ سے ہوئیں -موجودہ چیف جسٹس تیسرے ہیں، جنہوں نے بحرانوں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور امید ہے مفاہمت، برداشت، ایک دوسرے کو تسلیم کرنے ، سابقین اور حاضرین کو اکٹھا کرنے کی ، اس روایت سے یقینآ قدیم اور جدید کے حسین امتزاج سے ادارے اور قانونی روایات کو تقویت ملے گی اور مستقبل میں ان کی جگہ لینے والےہم آہنگی سے مزید بہتر لائیں گے، کیونکہ بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے