ٹیکنو کریٹس کی حکومت؟

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک دفعہ پھر کہا ہے کہ ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے قیام کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس قسم کے سیٹ اپ کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ وزیر اعظم اس سے قبل بھی اس نوع کا بیان دے چکے ہیں اور ان کے علاوہ وفاقی حکومت کے چند وزرا بھی اس مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں‘ جس میں انہوں نے بھی کسی قسم کی غیر جمہوری‘ غیر منتخب اور ٹیکنو کریٹس پر مشتمل عبوری حکومت کو سختی سے مسترد کیا ۔ حکومت کے علاوہ اپوزیشن کی طرف سے بھی اس ممکنہ اقدام کی مخالفت سامنے آ چکی ہے۔ پیپلز پارٹی ‘ جس کے رہنما خورشید شاہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں‘ نے سختی سے اس قسم کی تجویز کو رد کر دیا ہے۔ پھر آخر کیوں حکام بالا کو ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت کی کسی تجویز کی تردید کرنا پڑتی ہے؟ یاد رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر بھی اپنی ایک پریس کانفرنس میں واضح کر چکے ہیں کہ آئین اور قانون کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ اس کے باوجود اگر مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت اور دیگر سیاسی رہنمائوں کو ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے خلاف بیان جاری کرنا پڑتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر ہم گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران میں پاکستان کے سیاسی افق پرکھیلے جانے والے کھیل پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ لانگ مارچ ‘آزادی مارچ‘ دھرنوں اور لاک ڈائون کی سیاست کرنے والوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کے مسندِ اقتدار سے ہٹتے ہی حکومتی ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آ گرے گا‘ اس کے
بعد نئے انتخابات ہوں گے اور کچھ لوگوں کا وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے کا خواب پورا ہو جائے گا۔ لیکن پاناماکی بجائے اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دیے جانے کے بعد بھی نواز شریف قومی سیاست سے بے دخل نہ ہو سکے ۔ سابق وزیر اعظم نے نہ صرف اپنی پارٹی کی قیادت دوبارہ سنبھال لی‘ بلکہ ان کے نامزد کردہ وزیر اعظم اور ان کے رفقا کاروبارِ مملکت کو تسلی بخش طریقے سے چلا رہے ہیں۔ نواز شریف کے منظر سے ہٹ جانے سے حکمران جماعت کی مشکلات میں اضافہ تو ضرور ہوا ہے لیکن ملک کسی بحران سے دوچار نہیں ہوا۔ صوبائی حکومتیں ٹھیک چل رہی ہیں اور مرکز کے ساتھ ان کے تعلقات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔ بیرونی ممالک اور اداروں کے ساتھ بھی حکومتی سطح پر روابط جاری ہیں اور معاملات بھی طے پا رہے ہیں۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن اور ان سے قبل امریکہ سے ایک اعلیٰ سطح کے وفد کی پاکستان میں آمد اور حکومت کے اعلیٰ حکام سے ان کے مذاکرات اس کا بیّن ثبوت ہیں ۔ مگر کچھ حلقوں کو یہ صورت حال برداشت نہیں ۔ ان کے خیال میں بھی نہ تھا کہ نواز شریف کے ہٹ جانے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت برقرار رہے گی۔ ان عناصر کے فوری طور پر برسر اقتدار آنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ حکومت ہے۔ اسی لئے آئے دن اس کے خاتمے کی پیش گوئیاں کی جاتی ہیں۔ کبھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ معیشت کی صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے اور ملک دیوالیہ ہونے والا ہے۔ کبھی اعلان کیا جاتا ہے کہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین کی ایک تعداد وفاداریاں بدلنے پر تیار بیٹھی ہے۔
ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک عبوری حکومت کے قیام کے بارے میں قیاس آرائیوں کو البتہ ایزی نہیں لینا چاہئے۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقا کو اگر بار بار ٹیکنو کریٹس سیٹ اپ رد کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے تو کچھ نہ کچھ تہہ میں ہو گا۔ رہا یہ مو قف کہ اس قسم کے سیٹ اپ کی آئین میں گنجائش نہیں ہے ‘ تو وزیر اعظم کو معلوم ہو گا کہ 5جولائی1977ء کو جب جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تھا تو اس وقت بھی آئین میں نہ صرف ایسے اقدام کی کوئی گنجائش نہیں تھی بلکہ آئین کا آرٹیکل 6بھی موجودتھا‘ جس کو 1973ء کے آئین میں شامل کرکے ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ آج سے ہم نے پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔ جنرل مشرف نے تو مارشل لا کا نام لئے بغیر منتخب حکومت کو برطرف کرکے فوجی حکومت قائم کر لی تھی۔ اگر آئین سے ہٹ کر ٹیکنوکریٹس کی حکومت جیسا اقدام کیا گیا تو بات یہیں تک محدود نہیں رہے گی‘ بلکہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل عبوری نظام 1973ء کے آئین پر مبنی موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام کی یا تو مکمل یا پھر نیم صدارتی نظام میں تبدیلی پر منتج ہو سکتا ہے‘ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے اصل مسئلہ نواز شریف نہیں بلکہ وہ نظام ہے‘ جو نواز شریف جیسے سیاسی لیڈر پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکنوکریٹس سیٹ اپ کے سب سے زیادہ حامی اور جنرل مشرف کے ایک سابقہ وزیر نے ٹیکنو کریٹس حکومت کے قیام کی تجویز دیتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ اس سیٹ اپ کو آئندہ کم از کم دس برس تک قائم رکھا جائے اور اس دوران پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام بتدریج تشکیل دیا جائے‘ کیونکہ ان صاحب کے نزدیک پاکستان کے موجودہ تمام مسائل کی جڑ پارلیمانی نظام ہے۔ ان کے نزدیک اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا مقصود ہے تو اس برائی یعنی پارلیمانی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ اور اس کی جگہ صدارتی نظام لانا ہو گا‘ کیونکہ اس کے تحت قومی رہنمائی اور پالیسی سازی کے اختیارات ”بدعنوان‘ نااہل اور جاگیردارانہ سوچ‘‘ کے حامل سیاست دانوں کی بجائے ٹیکنو کریٹس کے ہاتھ میں ہوں گے‘ جو اپنے اپنے شعبوں میں نہ صرف ماہر بلکہ پیشہ ور سوچ کے بھی مالک ہوں گے۔ صدارتی نظام کے حق میں بلند ہونے والی یہ واحد آواز نہیں ۔ جاوید ہاشمی نے عمران خان کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ وہ صدارتی نظام کے حامی ہیںاور غالباً یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین نے گزشتہ چار برس میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت اور بحث و مباحثہ میں حصہ لینے کی بجائے‘ اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز سڑکوں یا کنٹینرز کو بنائے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ سیاست دانوں ‘ سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ کے خلاف گزشتہ چار برس کے دوران جس باقاعدگی اور تواتر کے ساتھ منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے‘ اس کے پیچھے بھی یہی محرک کارفرما ہے کہ عوام پارلیمانی نظام سے متنفر ہو جائیں اور جب اس کی جگہ صدارتی نظام رائج کیا جائے تو عوام کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔پاکستان میں صدارتی نظام کا تجربہ کیا جا چکا ہے اور ملک اپنا ایک بازو کھونے کی صورت میں اسکا خمیازہ بھی بھگت چکا ہے لیکن اس سے سبق سیکھنے کی بجائے اسے ایک دفعہ پھر قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ موجودہ دور میں اس کے سب سے بڑے داعی سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ہیں‘ جنہوں نے اپنے دور حکومت میں یونٹی آف کمانڈ اینڈ چیکس بیلنسزکے نام سے 1973ء کے پارلیمانی نظام کو عملی طور پر صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اس کیلئے سترہویں آئینی ترمیم آئین میں شامل کی گئی‘ جس کے تحت پارلیمنٹ کے تمام اہم اختیارات سربراہ مملکت یعنی صدر کے ہاتھ میں دے دیئے گئے۔ مشرف پارلیمنٹ سے بالا ایک آئینی ادارہ ”نیشنل سکیورٹی کونسل‘‘ بھی قائم کرنا چاہتے تھے‘ لیکن پارلیمنٹ نے اس کی اجازت نہ دی اور انہیں سترہویں آئینی ترمیم پر اکتفا کرنا پڑا۔ یہ آئینی ترمیم بھی 2010ء میں ختم کر دی گئی اور 1973ء کے آئین کو اس کی اصل صورت میںبحال کر دیا گیا۔
اب ایک دفعہ پھر صدارتی نظام کے قیام یا موجودہ پارلیمانی نظام کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے لئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ملک کی بعض سیاسی پارٹیوں مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی کو ابھی اس خطرے کا احساس نہیں ہوا۔ خدشہ ہے کہ جمہوریت پسند قوتوں کی غفلت سے ملک کو ایک دفعہ پھر ان اندھیروں میں دھکیل دیا جائے ‘ جن میں سے اسے بڑی تگ و دو کے بعد آج سے دس سال پہلے نکالا گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے