شراکتی ترقی کا سفر

چین کی کیمونسٹ پارٹی کی حال ہی میں ختم ہونے والی انیسویں کانگریس کو نہ صرف چین بلکہ دنیا بھر کی تاریخ میں ایک اہم واقعے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ دور نو میں چین کے حالات سے مطابقت رکھنے والے سوشلزم کی چینی صدر شی جن پنگ کی فکر کو کیمونسٹ پارٹی کے آئین کا حصہ بنائے جانے سے صدر شی چین کے عظیم رہنماوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں جن میں چیئرمین ماو زے تنگ اور ڈنگ زیاو پنگ شامل ہیں۔

صدر شی کو یہ عظمت زندگی میں ہی مل گئی ہے، جو ان کے غیر معمولی کارناموں کا اعتراف ہے۔ ان کے منظور کردہ دو اقدامات، انٹی کرپشن پروگرام اور ون بیلٹ ون روڈ، پہلے ہی پارٹی دستور کا حصہ بن چکے ہیں۔ حکومت کے بارے میں صدر شی کی فکر ، خیالات اور حکمت عملی، جو ان کے فلسفے اور حکومت کے بارے میں خیالات اور حکمت عملی کی آئینہ دار ہے، دراصل مارکسزم، لینن ازم، چئیرمین ماو کی فکر ڈنگ زیاو پنگ کے افکار اور زیانگ زمن کے تین اصولوں پر مبنی ہے اور ایک لحاظ سے یہ منفرد بھی ہے۔

زمینی حقائق اور معروضی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو عالمی سیاسی اور معاشی نظام سے متعلق ہیں۔ صدر نے کمال تدبر سے مسقبل بینی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کانگریس نے نہ صرف اگلے پانچ سال کے لیے ایک خاکہ تیار کیا ہے بلکہ 2050ء تک چین کی نشاۃ نو کا پورا منصوبہ بھی طے کیاہے۔ ڈنگ زیاو پنگ کے زیاوکانگ معاشرہ کے قیام کے عزم کے اعادے کے ساتھ ، ایسا معاشرہ جو خوشحال ہو اور بہتر سماجی اقدار کا حامل ہو، صدر شی کا “نئے دور” کا تصور 2035ء تک ایسی سماجی جدیدیت کا حصول ہو گا جہاں درمیانی طبقہ کی ترقی ہو اور سائنس و ٹیکنالوجی کی دریافتوں سے ہونے والی صاف ستھری ترقی اور شفاف ہو۔

صدر شی نے یہ ادراک کر لیا ہے کہ مسلسل ترقی کو خطرات امیر و غریب کے درمیان تفاوت اور ماحولیاتی مسائل سے لاحق ہوتے ہیں۔ لہذا ان کی پالیسی کی اساس کمزوروں اور غریب عوام کو متوازن اور شراکتی معاشی ترقی فراہم کرنا ہے۔ عالمی معاشی حکمرانی میں اصلاحات کا مطالبہ کر کے صدر شی نے شفاف اور منصفانہ حکومت کے اس معاملے کو اجاگر کیا ہے جو دور جدید کے مسائل کو بیان کرتا ہے۔

2012ء میں ہونے والی اٹھارویں نیشنل کانگریس کے بعد سے صدر شی کی بطور سیکریٹری جنرل رہنمائی میں چین نے دریافتی، مربوط اور شراکتی ترقی کے نئے فلسفے کے نفاذ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، جس کی توجہ صدر شی کے چار جہاتی جامعہ ترقی کے منصوبے پر رہی ہے۔ چین کی معاشی ترقی کا ثبوت 2013ء سے 2016ء کے دوران جی ڈی پی میں 7.2 فیصد کی شرح سے اوسط ترقی ہے۔ جو اسی عرصے میں دنیا کی اوسط ترقی یعنی 2.5 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔

چین کی جی ڈی پی دنیا کی کل معیشت یعنی 11.2 ٹریلین ڈالرز کا پندرہ فیصد ہے۔ چین کی جی این آئی میں 2012ء کے 5940ڈالرز سے 2016ء کے 8000 ڈالر تک اضافہ ہوا ہے۔ یعنی اب چین کا شمار دنیا کے کم آمدنی نہیں بلکہ زیادہ آمدنی والے ممالک میں ہو گا۔ 2016ء کے گلوبل اینیشی ایٹو انڈیکس میں چین کو پچیسیوں نمبر پر رکھا گیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہر سال چودہ ملین افراد کو غربت سے نجات ملی۔ اس طرح چین کا ہدف یہ ہے کہ سال 2020ء تک تمام دیہی آبادی کو غربت سے نجات مل چکی ہو۔

صدر شی نے کرپشن کے خاتمے کے لے ٹائیگرز اینڈ فلایز پروگرام شروع کیا۔ اس کے تحت ڈیڑھ ملین افراد کا احتساب کیا گیا۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ موجودہ دور کا وہ منصوبہ ہے جس نے دنیا کو امن، شراکتی ترقی اور باہمی ارتقا سے متعارف کروایا ہے۔ اس منصوبے کو ایک سو کے قریب ممالک اور عالمی اداروں جن میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے کی تائید حاصل ہے۔ اس منصوبے نے دنیا کو ایک ایسے عالمی معاشرے میں بدل دیا ہے جس میں سب مشترکہ فوائد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہوں گے۔ یہ منصوبہ ایشا، افریقہ، مشرق وسطی، وسطی ایشیا اور یورپ کے کمزور افراد کی ترقی کے لیے سفر میں شراکت کا راستہ اور منصوبہ ہے۔

نیپولین بوناپارٹ نے چین کو سویا ہوا دیو کہا تھا۔ مگر علامہ اقبال کے بقول اب ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں اور چین عالمی معاشی، عسکری اور سیاسی طاقت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ چئیرمین ماو کے ابتدائی سال چین کی داخلی ترقی کا دور تھا۔ پھر عظیم رہنما ڈینگ زیاوپنگ کے وژن کے مطابق اس دور میں چین نے عالمی برادری میں اپنا کردار محدود رکھتے ہوئے داخلی استحکام اور معاشی ترقی کو اپنا ہدف بنایا۔ قیادت کے تدبر، کیمونسٹ پارٹی کے وژن اور چینی عوام کے محنت سے اب اس میلینیم کے اختتام تک چین اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہو گا۔

2002ء سے 2012ء کے دوران چین نے اپنی معاشی حجم میں اضافہ کیا اور جی ڈی پی کو بھی بڑھایا اور اس طرح عالمی معاملات پر اثر انداز ہونے والا معاشی استحکام حاصل کر لیا۔ اس منزل کو حاصل کرنے کے بعد ہی صدر شی نے دانشمندی سے متوازن، شراکتی اور زرخیز ترقی کا تصور پیش کیا۔

عالمی امن، اعتدال اور انسانی بہبود کے تحت ہی عالمی سیاسی اور معاشی حالات تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ان حالات میں دنیا کی وہ قومیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ یورپ میں فروغ پذیر ہونے والی غیر منصفانہ سیاست کاری جو اس وقت گلوبلائزیشن پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے ان کے لیے ایک خطرہ ہے، ان ممالک کے لیے چین کا دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر سامنے آنا اطمینان کا باعث ہے۔ یورپ کے اس انداز سیاست کے اثرات بد کا اندازہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران اقوام متحدہ کے کردار سے بھی ہوتا ہے جو اسی انداز سیاست کے تابع رہا ہے۔

شمالی امریکا اور یورپ بھر میں سیاسی قوم پرستی ایسی روایت کے طور پر سامنے آئی ہے جسے معاشی عالمگیریت کے اشتراکی نمونے سے قطعاً اتفاق نہیں مگر صدر شی اس ماحول میں ترقی پذیر دنیا کی موثر آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سطح پر کثیر سطحی اور شراکتی نقطہ نظر اپنانے کی بات کی ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کے 2017ء کے اجلاس میں اپنے تاریخی خطاب میں صدر شی نے معاشی عالمگیریت کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ ایک وقت تھا کہ جب چین کو معاشی عالمگیریت کے بارے میں شکوک اور شبہات تھے اور وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ وہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شامل ہو یا نہ ہو۔ مگر اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عالمی معیشت کا حصہ بننا ایک تاریخی عمل ہے۔ اپنی معیشت کو ترقی دینے کے لیے چین کو عالمی معیشت کے سمندر میں تیرنے کی ہمت کرنا ہی ہو گی۔ صدر شی کی جنوب جنوب اور شمال جنوب کے درمیان مکالمے اور تعاون کی اپیل کو دنیا بھر میں بانداز تحسین سنا گیا۔

صدر شی کی شخصیت کے جس پہلو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی طرف سے آنے والا اہل چین کا یہ خواب ہے کہ صرف چین کے لوگوں کی ہی معاشی حالت بہتر نہ ہو بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگوں کی زندگیوں میں بھی بہتری آنی چاہیے۔ ان کا ون بیلٹ ون روڈ ویڑن اور اس کے تسلسل میں سی پیک منصوبہ دراصل ان کے اسی خواب کی تعبیر کی ایک صورت ہے کہ ایک ایسا عالمگیر معاشرہ تشکیل دیا جائے جس کے مفادات مشترک ہوں اور وہ شراکتی خوشحالی کو پروان چڑھا رہا ہو۔

پاکستان کے لیے چین ایک ایسا قابل اعتماد اور مثالی دوست ہے جس کی یہ بے مثال ترقی ہمارے لیے باعث مسرت بھی ہے اور باعث تحریک بھی۔ کئی حوالوں سے چین پاکستان کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین کے اس متاثر کن عروج اور ترقی میں پاکستان کے لیے کئی سبق پنہاں ہیں۔صدر شی کی قیادت میں چین کے لیے اکیسویں صدی کے خدوخال کو طے کرنے کے عمل میں کلیدی کردار موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب اکیسویں صدی کو ایشیا کی صدی کہا جا رہا ہے۔ بطور برادر ملک اور ان منصوبوں کے شریک کار ہونے کے ہم اپنے عظیم چینی دوستوں کے تجربات سے اپنی ترقی اور خوشحالی کے سفر کو سوئے منزل رواں دواں کرنے کے لیے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے