پہلے سیکھیں پھرعام کریں

مذہب اور مذہبی سکالرز کبھی میرا موضوع نہیں رہے اور نہ ہی میں نے ان پر رائے زنی کرنا مناسب سمجھا ۔لیکن بعض اوقات کچھ ایسی باتیں ہو ہی جاتی ہیں کہ وہ عوام الناس تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ کچھ ایسی ہی مذہبی شخصیات سے میرا سابقہ بہت پہلے پڑ چکا ہے ۔

آج سے چند سال پہلے مجھے ایک میلاد کی ٹی وی کوریج کرنے کا اتفاق ہوا تقریب میں بڑے نامی گرامی نام موجود تھے اور اس ہستی دو عالم کا ذکر ہو رہا تھا جن کے لئے یہ پوری کائنات خلق کی گئی لیکن تقریب کے اختتام پر مجھے بہت افسوس ہوا کہ جس مقصد کے لئے میلاد مصطفے منعقد کیا گیا وہی فوت ہو گیا ۔

خیر ماجرا کچھ یوں ہے کہ میلاد میں موجود ایک خاتون جو کے خود بھی مہمان گرامی میں شامل تھیں ان کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا جس کی وجہ سے ناگواری کا احساس زیادہ تر خواتین کو ہو رہا تھا اب میں اپنی بات اسلئے نہیں کر رہی کہ میں نسبتا ایک روشن خیال انسان ہوں اور یہ سمجھتی ہوں کہ لوگوں کو ان کے لباس کی بجائے ان کے افکار سے زیادہ پسند یا ناپسند کیا جانا چاہیے بےشک محافل کا ادب و احترام بھی ضروری ہے ۔

اور اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی قباحت بھی نہیں تھی کیوں کہ نہ تو اس خاتون نے کوئی نامناسب لباس پہن رکھا تھا اور نہ ہی ان کا کوئی فحاشی پھیلانے کا ارادہ نظر آتا تھا ۔ لیکن مجھے علم نہیں تھا کہ اس خاتون کو صرف سر پر دوپٹہ نہ اوڑھنے کی وجہ سے اتنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا کہ وہ خود ہی اس تقریب کو اٹنیڈ کرنے پر خفت محسوس کریں گی ۔

خیر تقریب کا اختتام ہوا اور مہمان خصوصی کو جب پھول پیش کئے جانے لگے تو ان خاتون نے جو بہت بڑی مذہبی شخصیت کے طور پر سامنے آتی ہیں نے پھول یہ کہہ کر ہاتھ سے جھٹک دئیے کہ اس محفل میں تو لوگ سربرہنہ ہیں اور اس محفل کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ، یہ بات مجھے بہت بری لگی کہ ایک ایسی محفل جہاں سرکار دوعالم کا ذکر بابرکت ہو رہا ہے وہاں کوئی کیسے اتنی جرات کر سکتا ہے کہ کسی کی اس طرح تذلیل کر سکے ؟ کیوں کہ وہ یہ ہی بات اگرچہ کہ ٹھیک تھی ان خاتون کو الگ لے جا کر بھی سمجھا سکتی تھیں ، قاعدے اور قوانین الگ سے بھی بتا سکتیں تھیں لیکن ایسا نہیں ہوا ۔

ہمارے نبی تو وہ ہیں جن کی خاطر کائنات بنائی گئی اور انھیں محسن انسانیت کہا گیا ۔ انھوں نے تو کبھی کسی مشرک اور کافر کو بھی نہیں ٹھکرایا ، انھوں نے تو اس بوڑھی عورت کی بھی تیمار داری اور خبر گیری کی جو ان پر کوڑا کرکٹ پھینکتی تھی ، انھوں نے طائف کے کفار کے لئے بھی رحمت کی دعا کی جنہوں نے انھیں سنگ باری کرکے زخمی کر دیا ۔انھوں نے تو کبھی کسی کے لئے کوئی بددعا نہیں کی۔

تو ہم کونسا اسلام اور شریعت کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں جو لوگوں کو ان کی نیت کے جانے بغیر مار رہے ہیں ، ہمارے نبی تو ایک دفعہ ایک صحابی سے خفا ہوئے جب اس نے کہا کہ نبی اکرم میں نے ایک کافر کو مار دیا لیکن اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا پر میں نے سوچا کہ شاید اس نے دل سے نہ پڑھا ہو تو ہمارے پیارے نبی کو جلال آگیا انھوں نے فرمایا کہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تو کیا تم نے اس کے دل میں جھانک کر دیکھا تھا یا تمھیں اس کی نیت کا علم تھا جو تم نے ایک شخص کا ناحق قتل کر دیا ۔

ہمیں اس دنیا میں رہنے کے لئے اسلام کے اصولوں کو سمجھنا ہو گا ، دین برائے اصلاح تو ایک طرف رہا ، پہلے دین برائے خود احتسابی پر تو عمل کر لیں ۔ خدارا ہمیں اتنی توفیق دے کہ ہم پہلے خود عمل کرنے اور سیکھنے کے بعد دوسروں کو نصیحت کرنے کی راہ اپنا سکیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے