سائیں ہرا کا خواب

چھوٹی سی خبرنے مجھے ایک بڑا جھٹکا دیا۔ ایک انگریزی اخبار کے صفحہ دو پر پیپلز پارٹی کے جیالے سائیں ہرا کے انتقال کی خبر نے مجھے چند لمحوں کیلئے ساکت کردیا۔ سائیں ہرا کوآخری دفعہ میں نے کافی سال پہلے لاہور میں دیکھا تھا لیکن اس کے انتقال کی خبر پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی قریبی عزیز بچھڑ گیا ہو۔ 2008ء میں آصف علی زرداری صدر بنے تو میں نے پیپلز پارٹی کی ایک بزرگ کارکن اماں پارس جان پر کالم لکھا تھا جس نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں قید کاٹی تھی۔ وہ قید سے رہا ہوئی تو خاوند نے مطالبہ کیا کہ پیپلز پارٹی چھوڑ دو۔ جیالی خاتون نے انکارکیا تو خاوند نے طلاق دیدی اور بچہ بھی چھین لیا۔ یہی بچہ جوان ہوا تو اسے الائیڈ بنک میں نوکری مل گئی۔ ایک دن اس نے اپنے بنک میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کا کیک کاٹا تو اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ میں نے اپنے کالم میں اماں پارس جان کے اس بیٹے کو نوکری پر بحال کرنے کی گزارش کی تھی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ یہ کالم شائع ہوا تو لاہور کے کچھ صحافی دوستوں نے مجھے سائیں ہرا یاد دلایا اوربتایا کہ وہ بیمار ہے اسے بھی اپنی پارٹی کی توجہ چاہئے۔ میں نے سائیں ہرا کو تلاش کیا لیکن وہ لاہور میں تھا اور میں اسلام آباد میں تھا۔ سائیں ہرا سے رابطہ نہ کر پایا لیکن جب بھی میں سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال یا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے آس پاس سے گزرتا تھا تو میری نظریں سائیں ہرا کو تلاش کرتی تھیں۔ میں نے اسکول کے زمانے میں انہی سڑکوں پر سائیں ہرا کو اپنی گدھا گاڑی پر ذوالفقار علی بھٹو کی تقریروں کے کیسٹ چلاتے ہوئے دیکھا۔ اس کی گدھا گاڑی پر پیپلز پارٹی کے جھنڈے اور بھٹو صاحب کی تصاویر آویزاں ہوتی تھیں۔ اس نے سبز لباس پہناہوتا تھا اور سر پر سبز کپڑا باندھا ہوتا تھا جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو نے اسے سائیں ہرا کا خطاب دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ اپنی گدھا گاڑی پر لگے اسپیکر کے ذریعہ بھٹو صاحب کی تقاریر سنانے سے باز نہ آیا تو اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسلم گل کو سائیں ہرا کے ساتھ جیل میں گزرے دن آج بھی یاد ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ اپنی پارٹی کے پرانے جیالوں کو ہمیشہ یاد رکھتی تھیں۔ ان کا اماں پارس جان سے بھی رابطہ تھا اور سائیں ہرا کو بھی جانتی تھیں۔ اپنی شہادت سے کچھ دن پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو نے سائیں ہرا کو فون کیا اور کہا کہ مجھے پتہ چلا آپ بیمار ہیں میں آپ کے گھر آئوں گی۔
زندگی نے وفا نہ کی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو سائیں ہرا کی عیادت کا موقع نہ مل سکا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اماں پارس جان اور سائیں ہرا جیسے سیاسی کارکن بے سہارا ہوگئے۔ اماں پارس جان ابھی زندہ ہے لیکن وہ پیپلز پارٹی کی چلتی پھرتی لاش بن چکی ہے۔ سائیں ہرا اپنے خوابوں سمیت میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں دفن ہو چکا۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ وہ زندہ ہے لیکن اسکا جیالا کارکن قریب المرگ ہے۔ یہ جیالا بچے گا تو پارٹی بچے گی لیکن فی الحال پارٹی کو اپنے جیالوں کی اہمیت کا احساس نہیں ہوا۔ غریبوں کی یہ پارٹی اس سال بڑے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے جھرمٹ میں اپنے قیام کی پچاسویں سالگرہ منائے گی۔ سالگرہ منانے والوں میں ایسے کئی چہرے شامل ہونگے جو ماضی میں بھٹو کے قاتلوں کے اتحادی تھے۔جو حکمت اور مصلحت کے نام پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ ایسے ابن الوقت لوگوں نے سیاست کو گالی بنا دیا ہے اور انہی مکروہ لوگوں کی وجہ سے میں سائیں ہرا کی موت پر بہت رنجیدہ ہوں۔ وہ 1967ء سے 2017ء تک ایک ہی پارٹی میں رہا۔ اسے بھی کہا گیا تھا کہ اپنی گدھا گاڑی پر پیپلز پارٹی کی بجائے مسلم لیگ (ن) کا جھنڈا لگا لو تو مالا مال کر دیئے جائو گے لیکن اس نے پارٹی سے بے وفائی نہیں کی۔ ہاں پارٹی کی نئی قیادت نے اس کے ساتھ بے وفائی کی۔ اگر آپ مجھ سے اتفاق نہیں کرتے تو اماں پارس جان کی مثال ابھی زندہ ہے۔ اسے لاہور میں ملئے اور سوچئے کہ پیپلز پارٹی کو پچاسویں سالگرہ منانی چاہئے یا اپنے نظریے کی برسی منانی چاہئے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ پیپلز پارٹی مرحومہ ہو چکی لیکن اس کا نظریہ مرحوم ہو چکا ہے اور یہ صرف پیپلز پارٹی کا نہیں بلکہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے۔
پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار کے بھوکے آوارہ مفاد پرستوں کا گروہ بن چکی ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کی قیادت نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ یہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی علمبردار ہیں لیکن ان کے اندر جمہوریت نظرنہیں آتی۔ سائیں ہرا جیسے سیاسی کارکن صرف نعر ے لگانے اورجیلوں میں جانے کیلئے ہیں۔ الیکشن لڑنے کیلئے کروڑ پتی ہونا ضروری ہے۔ آجکل آپ کو پنجاب کے کروڑ پتی پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں جاتے نظر آتے ہیں اور سندھ کے کروڑ پتی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں جاتے نظر آتے ہیں۔ ان کروڑ پتیوں کا ایک ہی نظریہ ہے اور اس نظریے کا نام ہے اقتدار۔ یہ لوگ اقتدار کیلئے اپنا سب کچھ اور اپنے آپ کو بھی بیچنے کیلئے ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں۔ آج کل مسلم لیگ (ن) کی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ پہلے نواز شریف نے اپنا اقتدار بچانے کیلئے اصول قربان کئے آج کل ان کے قریبی ساتھی اپنے آپ کو بچانے کیلئے نوازشریف کو قربان کرنے پر تیار نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کی اندرونی لڑائیاں بھی سامنے آنے والی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے اختلاف ضرور کریں لیکن کچھ نکات پر اتفاق کر لیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر اصلی جمہوریت لانی ہوگی اور نظریاتی کارکنوں کو اہمیت دینی ہوگی۔ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت 1973ء کے آئین کے تحفظ کیلئے پارلیمنٹ میں مشترکہ لائحہ عمل بنائے اور 2018ءکے انتخابات ملتوی کرانے کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔ یہ جمہوری پارلیمانی نظام جیسا بھی ہے لیکن متفقہ ہے۔ دوبارہ کسی آئین پر اتفاق رائے بہت مشکل ہے۔ ہمیں اسی آئین کو چلانا ہے۔ ٹیکنو کریٹس کی حکومت یا مارشل لاء کسی مسئلے کا حل نہیں اور کچھ سیاسی و صحافتی یتیم اس معاملے میں موجودہ فوجی قیادت کو بہکانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پچھلے چار ماہ کے دوران کم از کم تین مواقع پر اس جمہوری نظام کو لپٹنے کا خطرہ پیدا ہوا لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ نے بار بار جمہوریت کے حق میں ووٹ دیا۔ جمہوری نظام کے خلاف تمام سازشیں اندر سے ہورہی ہیں۔ 1999ء والی صورتحال پیدا کرنے سے شاید کسی سیاستدان کو فائدہ ہو لیکن ملک کو نقصان ہوگا۔ 1999ء کی فوجی بغاوت ایک ایکشن کا ری ایکشن تھی۔ ایکشن آئینی اور ری ایکشن غیر آئینی تھا لیکن ہم کسی نئے 1999ء کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ سیاسی و فوجی قیادت کو بڑے تحمل اور سمجھداری سے اس آئین اور نظام کو بچا کر رکھنا ہے اور 2018ء کے انتخابات کرانے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سائیں ہرا جیسے بے لوث سیاسی کارکنوں کی قربانیوں کا ثمر ہوں گے اور وہ تبدیلی شروع ہوگی جس کا خواب سائیں ہرانے دیکھا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے