نامعلوم نا معلوم ہی رہیں گے؟

لوگ پوچھتے ہیں کہ احمد نورانی کو کس نے اس درندگی سے مارا۔ لیکن میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ میں کیا بتائوں کس نے مارا۔ پوچھا جاتا ہے کہ نورانی پر حملہ کرنے والے کون تھے۔ اس کا بھی میں کیا جواب دوں۔ سوال ہوتا ہے کہ کوئی ملزم پکڑا گیا، کسی کی شناخت ہوئی، سی سی ٹی وی سے کچھ پتا چلا۔ اس پر میں کہتا ہوں پولیس کوشش کر رہی ہے لیکن مجھے اس بات کاڈر ہے کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ اس یقین کی وجہ ہمارا وہ ماضی ہے جس میں صحافیوں پر کئے گئے حملوں کے ملزمان اور ماسٹر مائنڈ ز کی کبھی نہ شناخت ہوئی اور نہ کسی مجرم کو سزا ملی۔ نامعلوم حملہ آور ہمیشہ نامعلوم ہی رہے۔تشدد کے شکار صحافیوں کے نصیب میں تو بس تسلیاں، پھول، اظہار ہمدردیاں اور کھوکھلی یقین دہانیاںہوتی ہیں کہ ملزمان کو فوری گرفتار کیاجائے گا اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی۔ یہاں تو کئی صحافیوں کی جان بھی لے لی گئی لیکن قاتل نہیں پکڑے گئے۔ جو کچھ آج احمد نورانی کے ساتھ کچھ ایسا ہی عمر چیمہ کے ساتھ چند سال قبل ہوا۔ چیمہ کو اغوا کر کے اُس کے ساتھ تشدد کرنے والوں نے اُسے کسی سڑک کنارے پھینکا تو وہاں سے وہ سیدھا میرے گھر پہنچااور مجھے اپنی روداد سنائی کہ کس طرح اُس کے ساتھ ظلم کیاگیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔ احمد نورانی نے بھی حملہ کے بعد ہسپتال جاتے ہوئے سب سے پہلے مجھ سے ہی رابطہ کیا۔ چیمہ جب پھٹے کپڑوںاور تشدد سے نیلوں بھرے جسم کے ساتھ میرے پاس پہنچا تو مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں اور کیسے اُسے دلاسہ دوں۔ یہی حال نورانی کی باری میں ہوا۔ جب ہسپتال پہنچا، اُسے دیکھا تو الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ کیسے اُس کو تسلی دوں ۔ چیمہ کی باری کچھ ذمہ داروں نے مجھے بتایا کہ معاملہ لڑکی کا ہے۔ میں نے درخواست کی معاملہ جو بھی ہے تشدد کرنے والوں کو پکڑیں۔ اب کی بار کسی ذمہ دار نے کوئی ایسی بات ہم سے تو نہیں کی لیکن ایک مقامی اردو اخبار نے نورانی پر تشدد کو بھی لڑکی سے جوڑ دیا۔ میڈیا آزاد ہے جو مرضی لکھے اور کہے اُسے کون روک سکتا ہے۔پہلے تو پروپیگنڈہ کیاگیا کہ نورانی پر حملہ آئی بی نے کروایا بعد میں لڑکی آ گئی۔ چلیں اگر لڑکی کا بھی مسئلہ ہے تو اُن نامعلوموں کو تو پکڑیں جنہوں نے پہلے اور کئی دوسروں کے علاوہ چیمہ اور اب کی بار نورانی، مطیع اللہ جان وغیرہ پر حملے کیے ۔ کم از کم اُس لڑکی کو تو سامنے لائیں جس کا معاملہ تھا۔ ایک چینل نے تو یہ تک کہہ دیا کہ احمد نورانی کو جب ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بھیجے گئے پھول پیش کیے تو اُس نے اُن پھولوں کو پھینک دیا۔ نورانی کے بھائی سے بات ہوئی تو وہ حیران ہوا کہ ایسا تو کچھ ہوا ہی نہیں۔ نورانی کے بھائی نے بتایا کہ وہ گلدستہ جسے ایک میڈیا چینل کے مطابق پھینک دیا گیا تھا وہ اب بھی اُن کے گھر موجود ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ایک میجر صاحب جو وہ گلدستہ نورانی کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے پیش کرنے آئے تھے اُن کا نورانی نے شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ آج شام کو ہی جیو ٹی وی کے ذریعے پتا چلا کہ احمد نورانی کی میجر جنرل آصف غفور سے ٹیلیفون پر بات بھی ہوئی۔ احمد نورانی نے نہ صرف جنرل غفور کا شکریہ ادا کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اُس کی طرف سے کسی پر نہ تو الزام لگایا گیا نہ ہی اُس نے گلدستہ کے حوالہ سے وہ بات کی جس کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ نورانی نے اچھا عمل کیا کیوں کہ ایک ایسے ماحول میں جہاں کئی کردار حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات پیدا کرنے اور اُن اختلافات پر تیل چھڑکنے کی مسلسل کوشش میں لگے ہیں وہیں ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت جنگ گروپ کا بھی فوج سے ٹکرائو پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔اس کوشش میں چند ریٹائرڈ فوجی افسران کے ساتھ ساتھ میڈیا میں موجود ایک طبقہ بھی پیش پیش ہے۔ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں نے احمد نورانی پر حملہ کیا یا کروایا وہ بھی جنگ گروپ اور فوج کے درمیان اختلاف پیدا کرکے اپنا کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ وہ جو بھی تھے انہیں ہر حال میں گرفتار ہونا چاہیے ۔ پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے نورانی کوگلدستہ بجھوانہ اور پھر احمد نورانی کی طرف سے جواب میں جنرل آصف غفور کو فون کر کے اُن کا شکریہ ادا کرنا جہاں ایک مثبت عمل ہے وہیں اس سے سازشی عناصر کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ اگر کوئی صحافی یا میڈیا گروپ ، تجزیہ کار یا کوئی سیاستدان سویلین بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی اور فوج کے سیاسی کردار کے خلاف بات کرتا ہے تو یہ وہ باتیں ہیں جو پاکستان اور فوج دونوں کے بہترین مفاد میں ہیں لیکن سازشی طبقہ ایسی باتوں کو بھی فوج کے خلاف سازش بنا کر پیش کرتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے