’’ہیلوئن‘‘ ۔۔۔۔۔ یہ وہی دور تو نہیں؟

لیجیے جناب ویلنٹائن ڈے کے بعد سیکولرزم کے ببول پر نیا آزار پھوٹ پڑا ہے ۔اس رقص ابلیس کا نام ہے ’’ ہیلوئن‘‘۔نیا بیانیہ بھی اس آزار کے ساتھ ہے: آپ اس تہوار کو مناتے ہیں تو آپ روشن خیال ہیں، آپ اس پر اعتراض کرتے ہیں تو آپ دقیانوسی اور انتہا پسند قسم کے نامعقول انسان ہیں۔یہ تہوار تو خالصتا ایک سیکولر تہوار ہے جس کا مقصد بچوں کو چند لمحوں کی خواشیاں دلانا اور ہلہ گلہ کرنا ہے، آپ ان خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں تو آپ انتہائی کلچرڈ اور نفیس انسان ہیں ، آپ اس بے ہودگی کے ہنگام گونگا شیطان بن کر ایک کونے میں دہی کے ساتھ کلچہ کھاتے رہتے ہیں تو آپ کم تر برائی کے طور پرکسی حد تک گوارا کر لیے جائیں گے لیکن اگر آپ نے اس پر انگلی اٹھانے کی کوشش کی اور تنقید کرنے کی جرات کر دی تو آپ جاہل ہیں ، گنوار ہیں ، آپ کا ’’ ایکسپوژر‘‘ نہیں ہے ، آپ ’’ گلوبل ولیج‘‘ کے تصور سے جنم لیتے ’’ کامن کلچر ‘‘ سے ناواقف ہیں ، آپ کو دنیا کے ساتھ چلنے کے آداب نہیں آتے، آپ بقائے باہمی پر یقین نہیں رکھتے، آپ غاروں میں رہنے والے انسانوں کی آخری نشانیوں میں سے ایک ہیں، آپ انتہا پسند ہیں ، اور آپ ’’ مشترکہ انسانی ورثے‘‘ کے لیے ایک خطرہ ہیں۔
آپ کو اپنے بارے میں ہی نہیں اپنی نئی نسل کے بارے میں سوچنا ہو گا۔آپ کو سوچنا ہو گا کہ آپ کے بچے کس ادارے میں پڑھ رہے ہیں۔آپ کو معلوم کرنا ہو گا کیا ان کے سکول میں یہ تہوار منایا گیا۔ اگر یہ تہوار وہاں پورے اہتمام کے ساتھ منایا گیا تو آپ اطمینان رکھیے وہ ایک ماڈرن ، روشن خیال، جدید اور انسان ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور گلوبل فیملی کا حصہ ہیں لیکن اگر آپ کی بچے ایسے تعلیمی ادارے میں پڑھ رہے ہیں جہاں یہ تہوار منایا گیا نہ اس کے بارے میں بچوں کو کچھ بتایا گیا تو آپ کو پریشان ہونا چاہیے۔آپ کو سوچنا ہو گا کیا آپ اپنے بچوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد بنانا چاہتے ہیں ،کیا آپ انہیں فکری طور پر پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں اور کیا آپ کی خواہش نہیں کہ آپ کے بچے عالمی برادری کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں؟
سیکولرانتہا پسندی کے فکری تضادات ملاحظہ فرمائیے۔جب مغربی کلچر کی بات ہو گی، جب ویلنٹائن ڈے کاذکر ہو گا ، جب ’’ ہیلوئن‘‘ زیر بحث آئے گا، جب انگریزی زبان اور اردو زبان کا تقابل ہو گاتو یہ شمشیر بکف میدان عمل میں آئیں گے اور یہ آپ کو سمجھائیں گے کہ کنویں کے مینڈک مت بنو، ایک ’’ گلوبل ولیج‘‘ ہوتا ہے ، اس کا ایک ’’ کامن کلچر‘‘ ہوتا ہے ،یہ کلچر کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ’’ مشترکہ انسانی ورثہ‘‘ ہوتا ہے اور زبان بھی اسی مشترکہ کی ایک علامت ہے اس لیے انگریزی کو بھی اپنی ہی زبان سمجھیے اور مغربی تہذیب کی نشانیوں کو اپنا ہی ورثہ جانیے۔یہ آپ کو سمجھائیں گے کہ تہذیب کو مذہب اور وطن کے خانوں میں مت بانٹیے اور اس کے بعد نعرہ لگائیں گے ’’ ہمارا مذہب انسانیت ہے‘‘۔
لیکن جب کوئی پاکستانی چند سال سعودی عرب یا خلیج میں گزار کر واپس آئے گا اور اس کی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر ’’ الباکستان‘‘ لکھا ہو گا تو یہ حضرات انگاروں پر لوٹنا شروع ہو جائے گے اور دہائی دیں گے کہ لاہور میں ہر دوسری گاڑی پر عربی کا بھوت کیوں سوار ہے۔کسی نے عربوں کا چغہ پہنا ہو یہ پطرس بخاری کا مضمون بن جائیں گے اور ’’ توپ توپ‘‘ چلانا شروع کر دیں گے لیکن ان کی اپنی جینز کمر سے ایک کلو میٹر نیچے چلی جائے تو اسے یہ گلوبل ویلیج کا مشترکہ ورثہ قرار دیتے ہیں۔ایک زمانے میں حقارت اور رعونت سے ’’ اردو میڈیم ‘‘ کی اصطلاح متعارف کرائی گئی اب اسی حقارت اور رعونت سے ’’ الباکستانی‘‘ کی اصطلاح رائج کی جا چکی ہے۔
آپ مغربی تہذیب اپنا لیں تو آپ روشن خیال، آپ انگریزی بولیں اور جتنا منہ ٹیڑھا کر کے بولیں اتنے ہی تعلیم یافتہ ، آپ ویلنٹائن ڈے منائیں تو آپ کلچرڈ لیکن آپ کی نشست و برخواست اور گفتگو میں عرب تہذیب و ثقافت کا کوئی رنگ آ گیا تو آپ حقارت اور تضحیک کا نشانہ ، آپ ’’ الباکستانی‘‘ ، آپ برصغیر کے بدو ۔احباب ہاتھ سر پر رکھ کر دہائیاں دینے لگتے ہیں کہ عرب کلچر پاکستان کے کلچر کو کھاتا جا رہا ہے۔وہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ عربی لہجہ ہماری پاکستانیت کو کہیں چاٹ نہ لے ۔معلوم نہیں رمضان المبارک میں ان کی ہم نصابی سرگرمیوں کا عالم کیا ہوتا ہے لیکن رمضان سے ان کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہیں پاکستانیوں کے رمضان کو عرب لہجے میں رمدھان کہنا نہ شروع کر دیا جائے۔انہیں شکوہ ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی رمضان مبارک کی جگہ رمضان کریم کہا جا رہا ہے اور اس عالم کرب میں وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی پہچان تبدیل ہو رہی ہے۔وہ پوچھتے ہیں،عربی الفاظ اور تلفظ استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہماری قومی زبان اردو موجود ہے؟ وہ سوال اٹھاتے ہیں:’’کیا یہ سب چند اشارے ہیں کہ پاکستان عربائزیشن کی طرف جا رہا ہے؟کیا پانچ دریاؤں کی سرزمین آہستہ آہستہ ریت کے ٹیلوں اونٹوں اور کھجور کے درختوں کے لیے جگہ بناتی جا رہی ہے‘‘؟کبھی آپ نے سوچا یہ تضاد کیوں؟ ان حضرات کو اس وقت تو پاکستانی کلچر اور مقامی تہذیب کے رنگوں کی یاد نہیں آتی جب مغربی تہذیب کے رنگ انہیں اپنی لپیٹ میں رہے ہوں۔یہ ویلنٹائن ڈے بھی مناتے ہیں اور ہیلوئن بھی،یہ صرف انگریزی زبان ہی نہیں اپناتے لہجے کی نقالی پر بھی خاصی توجہ دیتے ہیں اور اسے گلوبل ولیج کا کامن کلچر قرار دیتے ہیں لیکن جیسے ہی اس ’’ گلوبل ولیج‘‘ میں عرب کلچر کی دو چار نشانیاں انہیں نظر آ جائیں یہ حواس باختہ ہو کر چلاتے ہیں :’’ الباکستانی ، الباکستانی‘‘، تب انہیں پاکستانی کلچر بھی یاد آ جاتا ہے اور یہ مقامی تہذیب کے غم میں مزید دبلا ہونے لگتے ہیں۔
یہ اصل میں مغربی تہذیب کے پیادے ہیں۔ان کا ’’ گلوبل ولیج ‘‘ مغرب سے شروع ہو کر مغرب پر ہی ختم ہو جاتا ہے،ان کا ’’ کامن کلچر‘‘ صرف یورپ کا کلچر ہے۔باقی دنیا میں انکے نزدیک نہ کوئی کلچر ہے نہ کوئی ثقافت ۔اور اگر باقی کی دنیا کا کوئی تہذیبی یا ثقافتی رنگ اگر اسلامی حوالہ رکھتا ہو تو ان پر ہذیان کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔اسلامی تہذیب کا کوئی تہوار ہو ان کے منہ اتر جاتے ہیں اور لٹک جاتے ہیں، لیکن تہذیب مغرب کا کوئی تہوار ہو تو ان کی اچھل کود دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اس فکری واردات کا تازہ میدان ہمارے تعلیمی ادارے ہیں۔سرکاری تعلیمی اداروں کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا اور پرائیویٹ اداروں کے نام پر کاروبار کی حوصلہ افزائی کی گئی۔اب ان میں سے بعض ہماری تہذیب اور اقدار پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔یہاں ڈانس پارٹیاں ہوتی ہیں، یہاں ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے اور اب کی بار یہاں باقاعدہ ایک تہوار کے طور پر ’’ ہیلوئن‘‘ منایا گیا۔نیم خواندہ نودولتیوں کی جانے بلا کہ ’’ ہیلوئن‘‘ کس بلا کا نام ہے۔بس بچے کی ڈائری پر لکھا ہوا مل گیا کہ سکول میں ’’ ہیلوئن‘‘ منایا جا رہے ہے بچے کو فلاں فلاں چیزیں دے کربھیجیں ، چنانچہ تعمیل کر دی گئی تا کہ روشن خیالی کے باب میں سند رہے ۔قوموں پر عروج بھی آتے ہیں اور وہ زوال سے بھی دوچار ہوتی ہیں۔زوال تو زوال ہوتا ہے اور اس کے اپنے آزار ہوتے ہیں لیکن جس وارفتگی سے ہم نے اپنی تہذیبی قدروں سے پسپائی اختیار کی ہے اور اس ذلت پر جس طرح ہم نازاں ہیں، معلوم انسانی تاریخ اس رویے کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے :’’ تم ضرور پچھلی امتوں ( یہود و نصاری) کی پیروی کرو گے۔قدم بہ قدم۔یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہو جاؤ گے‘‘۔
سوچتا ہوں ، کہیں یہ وہی دور تو نہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے