مریم نواز کا انٹرویو

ان دنوں ٹی وی دیکھنے اور کالم پڑھنے کا کم کم ہی اتفاق ہوتا ہے۔ ٹی وی پر اپنا پروگرام دیکھتا ہوں اور اپنا کالم اشاعت کے بعد پروف ریڈنگ کے لئے پڑھتا ہوں، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے مکمل طور پر لاتعلق ہوگیا ہوں، دریا میں ز ندگی بسر کرنے والی مچھلیاں بھی گاہے گاہے سطحِ آب پر آکر سانس لیتی ہیں اور ادھر ادھر کے ماحول پر نظر ڈالتی ہیں۔ میرا معاملہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہی ہے، گزشتہ روز منیب اقبال کا پروگرام دیکھنے کے لئے ’’جیو‘‘ آن کیا تو مریم نواز کو انٹرویو دیتے پایا۔ مریم میری بیٹیوں جیسی ہے، چنانچہ میں نے یہ انٹرویو بہت ناقدانہ نظروں سے دیکھا، میں ان کا تفصیلی انٹرویو پہلی بار دیکھ رہا تھا، میں نے لاہور کے حلقہ این اے120میں ان کو شبانہ روز محنت کرتے تو دیکھا تھا اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ان کے بیانات بھی سامنے آتے رہے لیکن گزشتہ روز ان کا سامنا ایک’’گھاگ‘‘ صحافی سے تھا، میرے اس دوست نے خاصے مشکل سوال کئے، جن کے جواب دیتے ہوئے کوئی ایسی بات بھی زبان سے نکل سکتی تھی، مگر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے سب سوالوں کے جواب ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح دئیے۔ مجھے اس کی جو بنیادی وجہ سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ ان کے دل و دماغ اور زبان میں کوئی کشمکش نہیں تھی۔ سیاستدانوں کو اکثر یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ جو کہنا چاہتے ہیں، وہ کہتے نہیں اور جو کہہ رہے ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ ان کے دل کی آواز بھی ہو۔ مریم نے اس انٹرویو میں جو کچھ بھی کہا، لگی لپٹی رکھے بغیر کہا اور یوں مجھے لگا ان کی زبان ان کے دل کی زبان بول رہی ہے۔ بہت کڑوی کسیلی باتیں کرتے ہوئے بھی ان کے چہرے پر کوئی کھچائو نظر نہیں آیا۔ ان کی آواز کے والیم میں بھی اضافہ نہیں ہوا، ایک باوقار انداز تھا، ایک ٹھہرائو تھا جو اتنی کم عمری میں ہر ایک کو ودیعت نہیں ہوتا۔
ایک بات انہوں نے ایسی بھی کہی اور وہ یہ بات اس سے پہلے بھی کہہ چکی ہیں اور وہ بات یہ تھی کہ ان کے والد میاں محمد نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو سے بچنے کے لئے تین چار مواقع پر کمپرومائز بھی کیا اور وہ اس کے حق میں نہیں تھیں جبکہ ان کی پارٹی کے بہت سے لوگ اس کمپرو مائز کے حق میں تھے، خود میں بھی ان لوگوں کے حق میں تھا جویہ سمجھتے تھے کہ حکومت کو2018تک اپنے میگا پراجیکٹس مکمل کرنے کی مہلت حاصل کرنے کے لئے کمپرومائز کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جب ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا واقعہ ایسا ہوا جس سے پارٹی کے مخلص اور جاں نثار کارکنوں میں بے دلی پھیلنے کا اندیشہ تھا تو میں نے محسوس کیا کہ اب یہ سلسلہ روک دینا چاہئے۔ میں ویسے بھی نواز شریف کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ ایک حد سے آگے کمپرومائز نہیں کرسکتے، اس کے بعد وہ ایک فائٹر کے طور پر سامنے آتے ہیں، سو ایسے ہی ہوا، اب وہ مرحلہ آگیا ہے، مجھے یقین ہے کہ نواز شریف ہی نہیں ان کے نظریاتی ساتھی بھی اب ہرطرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پاکستان کی سب سے مقبول جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کا ٹکرائو ملک و قوم کے لئے کوئی خوشخبری نہیں لائے گا۔
میں ایک کٹر پاکستانی ہوں اور نواز شریف، شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو حب الوطنی کی علامت سمجھتا ہوں، میں اپنے عدالتی نظام کو درمیان میں نہیں لاتا کہ اس کے با رے میں قومی اور بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے بہت سے سوالیہ نشانات سامنے آئے ہیں، میں اسٹیبلشمنٹ سے گزارش کروں گا بلکہ دست بستہ گزارش کروں گا اور یہ جانتے ہوئے گزارش کروں گا کہ وہ بھی محب وطن ہیں بلکہ میرے آپ سے زیادہ محب وطن ہیں، چنانچہ وہ اب معاملات کو نارمل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ نواز شریف اور ان کی جماعت نے جتنا کمپرومائز کرنا تھا وہ کرلیا، اب وہ اس سے آگے جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ایک گزارش اور کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اب حالات بہت بدل چکے ہیں، سوشل میڈیا پر بہت کچھ سامنے آرہا ہے۔ اب تو تھڑوں پر بیٹھنے والے عام لوگ بھی وہ سب کچھ جان چکے ہیں جن کا علم انہیں کسی بہت بڑے سانحہ گزرنے کے بعد ہوتا تھا، چنانچہ خدارا ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے دیں، مفاد پرستوں اور پارٹیاں بدلنے والوں پر اعتبار نہ کریں، یہ لوگ تو اقتدار کے لئے غیر ملکی طاقتوں کے لئے بھی راہ ہموار کرتے چلے آرہے ہیں، میر جعفر اور میر صادق کے علاوہ بے شمار ایسے نام ہماری بدقسمت تاریخ میں درج ہیں ،ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی آپ سے محبت کرتے ہیں، نواز شریف اور مریم نواز کو بھی صرف چند لوگوں سے شکایت ہے، کسی ادارے سے نہیں۔ ان کی زبان کی کڑواہٹ میں اب مٹھاس آپ ہی نے لانی ہے، پلیز آگے بڑھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے