زیرعتاب صحافت اورخفیہ ہاتھ

پہلے مطیع اللہ جان، پھر اعزاز سید اور اب احمد نورانی ۔ افسوس یہ ہے کہ احمد نورانی آخری نہیں ہوگا ۔ بات نکلی ہے تو نہ جانے کہاں تک جائے گی ۔ آخری اس لئے بھی قرار نہیں دیاجاسکتا کہ کوئی بھی کیریکٹر اپنے رویے پر نظرثانی کرنے کو تیار نہیں ۔ یہ تواللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ احمد نورانی کی زندگی بچ گئی ورنہ تو گزشتہ بیس سال میں پاکستان کے اندر ایک سو سے زائد صحافی مختلف حملوں میں زندگیوں سے محروم کئے گئے ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں صحافیوں پر حملوں کی شرح افغانستان سے بھی بلند ہے اور پاکستان ان ممالک کی فہرست میں سرفہرست ہے جہاں صحافت اور اہل صحافت نشانے پر ہیں ۔ مطیع اللہ جان، اعزازسید اور احمد نورانی عام نہیں بلکہ بڑے بااثر اور پہنچے ہوئے صحافی ہیں ۔ اندازہ لگالیجئے کہ اگر ان جیسے معروف صحافیوں کو اس طرح نشانہ بنایا جاسکتا ہے تو عام رپورٹرز اور لکھاری زبان بندی کے خواہشمندوں کے لئے کس قدر ترنوالہ ہوں گے ۔ اسی طرح اگر اسلام آباد جیسے شہر میں یہ حالت ہے تو فاٹا، بلوچستان ،پختونخوا، سندھ اور گلگت بلتستان کے صحافیوں کی کیا حالت ہوگی۔ جب گزشتہ سالوں میں مارے جانے والے ایک سو سے زائد صحافیوں کا قاتل معلوم ہوسکا اور نہ کسی کو سزا مل سکی تو پھر یہ سلسلہ رکنے کی بجائے بڑھے گا کیوں نہیں ۔ جب آج تک صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کا اتہ پتہ معلوم ہوسکا اور نہ کسی کو عدالت میں لایاجاسکا تو پھر احمد نورانی پر حملہ کیوں کر آخری حملہ ثابت ہوسکتا ہے ۔

احمد نورانی غدار ہیں اورنہ وطن دشمن ۔ کرپٹ ہیں اور نہ بلیک میلر ۔ ان کی خبروں اور تجزیوں سے مجھے اختلاف ہوسکتا ہے اور کئی مواقع پر کیا بھی ہے ۔ ہماری طرح وہ بھی انسان ہیں اور ہماری طرح وہ بھی جذبات میں آکر افراط و تفریط کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن میں پوری دیانتداری سے عرض کررہا ہوں کہ وہ پوری ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض نبھانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔ میں کبھی وہ محنت نہیں کرسکتا جو نورانی صاحب کرتے ہیں ۔ان کی بے انتہامحنت اور تحقیق پر مجھے رشک آتا ہے۔ غلطیوں کا صدور ہوتا رہتا ہے لیکن میں نہیں مانتا کہ وہ جان بوجھ کر غلط رپورٹنگ کی جرات کرسکتے ہیں ۔ پھر سوال یہ ہے کہ ان کے خلاف یہ بزدلانہ اور ظالمانہ قدم کس نے اٹھایا؟۔

جس نے بھی احمد نورانی کو نشانہ بنایا ،ظلم کیا لیکن جن لوگوں کی طرف انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں ، میں ان کی طرف انگلی اٹھانے کو تیار نہیں ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کی وصف یہ بتائی ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہتے ہیں ۔ احمد نورانی نمازروزے کے پابند مسلمان ہیں جبکہ پاکستانی خفیہ ایجنسیاں بھی مسلمانوں پر مشتمل ہیں ۔ پھر کس طرح مسلمانوں کی ایجنسیاں ایک مسلمان کے ساتھ یہ سلوک کرسکتی ہیںجو احمد نورانی کے ساتھ کیا گیا؟ ۔اور یہ چونکہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا ، اس لئے میں یہ یقین کرنے کو تیار نہیں کہ اس طرح کا گٹھیا کام ہماری کسی خفیہ ایجنسی نے کیا ہوگا ۔اسی طرح ہماری ایجنسیاں دن رات ایک کرکے پاکستان کا امیج بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہیں ۔ دشمن ایجنسیاں پاکستان کے امیج کو خراب کرنے میں جبکہ اپنی ایجنسیاں ان کی سازشوں کو ناکام کرنے میں لگی ہیں ۔ عالمی اعتماد کو بحال کرنے اور پاکستان کو ایک محفوظ ملک ثابت کرنے کے لئے ہماری ایجنسیاں کبھی کار ریلیاں کراتی ہیں تو کبھی اپنی توانائیاں صرف کرکے غیرملکی کھلاڑیوں کو پاکستان لانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اب سب جانتے ہیں کہ احمد نورانی پر حملے کی وجہ سے پوری دنیا میںپاکستان کی سبکی ہوئی ۔ دنیا کو یہ غلط پیغام چلاگیا کہ پاکستان اس قدر غیرمحفوظ ملک ہے کہ اس کے دارالحکومت میں بھی احمد نورانی جیسے لوگ دن دیہاڑے نشانہ بنتے ہیں ۔ ظاہر ہے اس واقعہ سے پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہوا تو میں کیسے یقین کرسکتا ہے کہ کوئی پاکستانی خفیہ ایجنسی ایسی قبیح حرکت کا ارتکاب کرسکتی ہے ۔ ایسا کام پاکستان کی دشمن خفیہ ایجنسی تو کرسکتی ہے لیکن میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کوئی پاکستانی خفیہ ایجنسی خود پاکستان کے امیج کو خراب کرنے کی سا زش کررہی ہوگی ۔ اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر پاکستانیوں کی زندگیاں بچارہے ہیں ۔ سینکڑوں اہلکار اس مشن میں اپنی زندگیاں قربان کرچکے ۔ بعض نے تو اپنے عزیزوں تک کو قربان کیا ۔ اب احمد نورانی جیسے بھی ہیں ، بہ ہر حال ایک پاکستانی ہیں ۔تو میں کیسے یقین کرلوں کہ پاکستانیوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے والی کوئی ایجنسی کسی پاکستانی کی زندگی لینے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ اسی طرح بہادر شخص کبھی پردے کے پیچھے سے وار نہیں کرتا ۔ وہ سامنے آکر لڑتا ہے ۔ پیچھے سے وار کرنا بزدلوں کی نشانی ہے ۔ بعینہ بہادر شخص اپنے سے کمزور یا نہتے انسان پر کبھی حملہ آور نہیں ہوتا۔ یہ حملہ آور بہادر ہوتے تو ایک آدمی پر حملے کے لئے چھ افراد کا جتھہ نہ بناتے ۔ نہتے انسان پر چھ مسلح لوگوں کا حملہ ، حملہ آوروں کی بزدلی کی علامت ہے ۔ اب ہم سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہماری ایجنسیاں بہادر ترین انسانوں پر مشتمل ایجنسیاں ہیں ۔ یوں میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ احمد نورانی پر حملے کا بزدلانہ قدم ، ہماری بہادر ایجنسیوں نے اٹھایا ہوگا۔

تاہم مذکورہ حقائق کے ساتھ عام تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسیاں دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیاں شمار کی جاتی ہیں۔ ہماری ایک خفیہ ایجنسی کی ہیبت تو عالمی سطح پر طاری ہے اور خود اس ادارے کے اہلکار دعویٰ کررہے ہیں کہ ہماری ایجنسی دنیا کی نمبرون خفیہ ایجنسی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری ایجنسیاں را سے لے کر موساد تک اور کے جی بی سے لے کر سی آئی اے تک سے برسرپیکار رہی ہیں اور اب بھی ہیں ۔ الحمدللہ ان کے مالی و افرادی وسائل بھی کافی ہیں اور اختیارات بھی بے مثال ہیں ۔ اس تناظر میں را، موساد اور سی آئی اے کی سازشوں کا مقابلہ کرنے والی ایجنسیوں کے لئے صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کا سراغ لگانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہونا چاہئے ۔ جو ایجنسیاں داعش، القاعدہ ، ٹی ٹی پی اور دیگر درجنوں عسکریت پسند تنظیموں کا مقابلہ کرسکتی ہیں اور جو جنرل پرویز مشرف سے لے کر بے نظیر بھٹو تک پر حملہ کرنے والوں کا سراغ لگاسکتی ہیں ، ان کے لئے کسی صحافی پر حملہ کرنے والوں کا سراغ لگانا ، کیا مشکل ہے ۔ تاہم حیرت انگیز طور پر ولی خان بابر کے سوا کسی دوسرے مقتول صحافی کے قاتل سامنے لائے جاسکے اور نہ اعزاز سید اور احمد نورانی پر حملہ کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کئے گئے ۔ یہ صورت حال شکوک کو جنم دیتی ہے اور ان شکوک کے خاتمے کا آسان راستہ یہ ہے کہ ماضی میں صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کے نام سامنے لائے جائیں ۔ اگر احمد نورانی کی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں تو اس سے قبل اہل صحافت کے خلاف ہونے والے حملوں کی تحقیقات تو یقیناََ مکمل ہوئی ہو ں گی ۔ کم از کم ان تحقیقات کی تفصیل قوم کے سامنے رکھ دیا جائے ۔ اگر احمد نورانی پر حملہ بھی اسی طرح معمہ رہ جاتا ہے جس طرح کہ ماضی میں صحافیوں پر حملہ معمہ بنے رہے تو پھر شکوک بھی جنم لیں گے اور ہماری ایجنسیوں کی صلاحیت اور استعداد سے متعلق بھی سوال اٹھائے جائیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے