سعودیہ کہ حالیہ پالیسیاں اور ان کے مضمرات

جنگ عظیم اول کے بعد جو عالمی تبدیلیاں آئیں عالم اسلام کیلئے ان کے نتائج بہت ہولناک تھے خصوصا 1924 میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد عالم اسلام کی حالت دیدنی تھی عملا ” کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ” والی صورتحال تھی خلافت عثمانیہ ماں کی وہ آغوش تھی جو نیل کے ساحل سے خاک کاشغر تک تحفظ مسلم کی عملا ضامن تھی ۔

جب آغوش مادر ہی نہ رہی تو بچوں کو ستم ہائے زمانہ تو جھیلنا تھے ایک چھت تلے رہنے والوں اور ایک ہی تھالی میں کھانے والوں کو الگ الگ کردیا گیا ایک ہی گھر کو کئی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ہمارے ایک ایک شہر کے برابر ملک کاٹے گئے ، قومیت و لسانیت کے جاہلانہ اور بدبودار نعرے لگوائے گئے ، قبائل عرب میں اپنے وفاداروں کو تخت سونپے گئے اور انہیں عملا اپنے زیر نگیں رکھنے کیلئے باقاعدہ معاہدات کئے گئے ۔

عربوں کو خودمختاری اور بادشاہتوں کے لالچ دیے گئے اور بچے تھے کہ ” خودمختاری ” کے احساس سے پھولے نہ سماتے تھے ، انہیں کیا خبر تھی کہ
گھر کو گھر کے چراغوں سے آگ لگانے کا عمل شروع کردیا گیا تھا ۔

آج بھی استعمار انہی ” آمروں ” سے علاقائی طور پر اپنے مفادات کا حصول جاری رکھے ہوئے ہے کس قدر ہوشربا داستان ھے کہ پڑھیں تو دل دہل جاتا ھے ۔ 1932 میں آل سعود حرمین و نجد کی سیادت پر بٹھائے گئے اور حسین ابن علی الہاشمی جو شریف مکہ کے لقب سے موسوم تھا اور خلافت عثمانیہ سے غداری کے عوض اور قریشی سید ہونے کی وجہ سے حرمین کی سیادت کا دعوے دار تھا لیکن خلافت عثمانیہ سے غداری کے صلہ میں بھی اسے حجاز نہ دیا گیا بلکہ دیس نکالا دے کر اردن کا علاقہ دے دیا گیا پھر تاریخ نے ایک صدی کعبے کے پاسبانوں کو صنم خانوں کی حفاظت کرتے دیکھا کہ اردن سے ملحقہ اسرائیلی مفادات کا تحفظ بھی ضروری تھا حجاز مقدس میں آل سعود کو سیادت دے دی گئی ۔

آئیے حجاز مقدسہ کے پاسبانوں کی پالیسیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ، آل سعود نے علاقائی نگرانوں کو راضی رکھنے کو ہر جتن کیا اور یہی ان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ رہا ، مفادات کی اسیری کے اس کھیل کا اصل آغاز 1945 میں ہوا شاہ عبدالعزیز اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کی 1945 میں وہ تاریخی ملاقات ہوئی جس میں ” تیل کے بدلے سعودی تحفظ ” کا تاریخی معاہدہ کیا گیا اور امریکیوں نے اس سعودی دولت کا بے دریغ استعمال کیا ، یہی امریکیوں کے حجاز مقدس میں نفوذ کا نقطہ آغاز تھا ، اس پر مستزاد امریکہ نے اسی کی دہائی میں صدر صدام کے حملے کا ہوا کھڑا کیا اور شاہ فہد نے سعودیہ کی حفاظت کے نام پر امریکیوں کو اڈے دے دیے اور
امریکیوں کو ارض مقدسہ میں کھل کھیلنے کا موقع میسر آگیا ۔

امریکیوں کا نفوذ اس حد تک بڑھ گیا کہ امریکی سعودیہ کی دفاعی و خارجی معاملات میں بتدریج دخیل ہوتے گئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی تخت نشینی کے بعد جس تیزی سے سعودی پالیسیوں میں تبدیلی ہوئی وہ بہت حیران کن ھے ۔

حالیہ برسوں میں سعودیہ کی پالیسیوں میں انقلاب اور ان کے مضمرات کو جاننا از حد ضروری ھے ۔

1۔ سب سے پہلے تو موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا سفر جانشینی ہی کافی اسرار لئے ہوئے ہے اور شاہی خاندان میں شدید اختلافات کا باعث ھے ، پہلے نائب ولی عہد پھر ولی عہد اور اب ممکنہ تخت نشینی کا سفر ہی کافی ہلادینے والا ھے شاہی خاندان کی روایتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس طریقے سے شہزادہ محمد بن سلمان کو ولی عہد بنایا گیا ھے ، اس نے شاہی خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ھے ، سابق ولی عہد محمد بن نائف سمیت کئی طاقتور شہزادے عملا نظر بند کردئے گئے ہیں ۔ شاہی خاندان میں طوفان سے پہلے کا سا سکوت ھے ۔

سعودی معاشرہ چونکہ قبائل پر مشتمل ھے اسلئے عملا قبائل ہی اصل طاقت کا مرکز ہوتے ہیں اور سب سے پہلے بادشاہ کی بیعت مضبوط قبائل ہں کرتے ہیں اور انہی قبائل کے جوان تمام اہم فورسز حتی کہ شاہی گارڈ کا حصہ بھی ہوتے ہیں عملا بادشاہت کے پشت پناہ بھی وہی ہوتے ہیں ۔

سابق ولی عہد محمد بن نائف انتہائی طاقتور تصور کئے جاتے تھے کہ سب سے طویل عرصہ وزیر داخلہ رہنے کی وجہ سے تمام فورسز کے عملا کرتا دھرتا تھے ۔ اگر محمد بن نائف اور ناراض شاہی دھڑہ کسی طرح ان قبائل یا فورسز کے کسی دھڑے یا شاہی گارڈ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو کسی بھی لمحے ایک مضبوط بغاوت یا خانہ جنگی کے مضبوط امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

2 ۔ دوسری اہم پالیسی جس میں تیزی سے تبدیلی لائی گئی ھے وہ یہ ھے کہ رجعت و قدامت کی علامت سعودی عرب میں لبرل ازم کو اس قدر پروموٹ کیا جانے لگا ھے کہ دنیا انگشت بدنداں ھے ، اس سلسلے میں ابتداء مذہبی پولیس کے اختیارات کم کرکے مذہبی پولیس کو عملا غیر فعال کیا گیا پھر خواتین کو بغیر محرم ڈرائیونگ کی اجازت اور اس کے بعد اب شیخ سلمان العودہ اور شیخ العریفی سمیت سعودیہ کے چوٹی کے علماء جو قدامت پسندی و مذہبی اعتدال پسندی کی توانا آواز ہیں ان کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ھے ، اس کے ساتھ ساتھ ” ویزن 2030 ” کے تحت سعودیہ میں 500 ارب ڈالر سے شروع کئے گئے ” نیوم ” منصوبے کے خدوخال سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور سعودیہ کی طرف سے مغربی سرمایہ کاروں کو یہ یقین دلایا گیا ھے کہ” نیوم ” شہر میں عیاشی اور ” سیاحت کو فروغ ” دینے والے ہر اقدام کی اجازت ہوگی اور یہ جدید دنیا کا ایک بے مثال ترقی یافتہ اور ہمہ قسم تفریحات کا حامل شہر ہوگا ، لبرل ازم کو بڑھاوا دینے کے یہ اقدامات اور مذہبی قیادت کی بلا جواز گرفتاریاں سعودی عوام میں شدید بے چینی کا باعث بنے ہوئے ہیں ، کیسا ستم ھے کہ اسلام جس خطے میں بڑی شان سے طلوع ہوا تھا وہاں سے اسے دیس نکالا دیا جارہا ھے ۔

یاد رہے سعودی عوام صدیوں سے مذہب کے ساتھ مضبوط تعلق رکھتے ہیں صدیوں کی اقدار دنوں یا مہینوں میں تبدیل نہیں ہوا کرتیں اور ایسی کوئی بھی کوشش ہمیشہ معاشرتی انتشار کا باعث بنتی ھے ۔

3 ۔ ایک اہم تبدیلی سعودیہ و اسرائیل تعلقات میں پگھلتی برف ھے ، سعودی درمیانے درجے کی قیادت کی اسرائیلی پروگراموں میں شرکت اور اقدامات اس منظر نامے کو بڑی حد تک واضح کر چکے ہیں ، ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب و اسرائیل میں امریکہ کو بہت سی ضمانتیں دی گئی ہیں ۔ سابق ولی عہد محمد بن نائف ہمیشہ سے امریکہ کے منظور نظر رہے ہیں ، اس کے مقابل شہزادہ محمد بن سلمان کی ولی عہدی کو قبول کروانا ایک دشوار امر تھا لیکن محمد بن سلمان کی جانشینی میں امریکی حمایت کے عوض بہت کچھ داؤ پر لگایا گیا ھے ، ان میں سے ایک اہم پیشرفت و ضمانت ” اہل غزہ ” کو تیران و صنافیر ” نامی دو مصری جزیروں پر آباد کرنا ھے تاکہ
اہل غزہ جو دہائیوں سے امریکہ و اسرائیل کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں ان کو مستقل طور پر فلسطین بدر کردیا جائے ، ان کو آباد کرنے کیلئے مصر کے حال ہی میں سعودیہ کے حوالے کئے گئے ویران جزائر ” تیران و صنافیر ” کا انتخاب کیا گیا ھے ۔ اس سب کے بدلے بیت المقدس کی تولیت اردن سے لے کر سعودیہ کو دینے کی امریکی ضمانت بھی دی گئی ھے تاکہ سعودی حکمران خود کو حقیقتا بلا شرکت غیرے ” خادم الحرمین الشریفین ” کہلوا سکیں ۔

یاد رکھیں اسرائیل کا وجود مشرق وسطی کے انتشار کا بنیادی موضوع ھے اسرائیل سے سعودی قربت یا اس بارے نرم گوشہ سعودی عوام کیلئے قطعی قابل قبول نہ ہوگا ۔

4 ۔ چوتھا اہم معاملہ سعودی ویزہ پالیسیوں میں سختی کا ھے ، غیر ملکی کارکنان جو سعودی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور نصف صدی سے سعودیہ میں مقیم تھے وہ اور ان کے اہل خانہ پر حکومت کی جانب سے ظالمانہ ٹیکسز عائد کر کے غیر محسوس طریقے سے انہیں سعودیہ بدری پر مجبور کیا جارہا ھے یہ کارکنان سعودی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ظاہر ھے معیشت اور سہولت پسند سعودی عوام کیلئے یہ قطعی خوش آئند اقدام نہیں ھے ساتھ ہی ساتھ
عمرہ اور حج پالیسیوں میں غیر ضروری سختی سے عام مسلمانوں کو سعودیہ سے برگشتہ کیا جارہا ھے ، حال ہی میں عمرہ زائرین پر لاگو کی گئی بائیو میٹرک کی نئی پابندی اور ویزہ سے متعلق نئی پیچیدہ پالیسیاں نہ صرف اس پیشہ سے متعلقہ لوگوں کے معاشی استحصال کا باعث بن رہی ہیں بلکہ اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کا شغف رکھنے والوں کیلئے بھی ذہنی پریشانی کا باعث ہیں اس امر کا تدارک از حد ضروری ھے ۔

5 ۔ سعودیہ کو علاقائی تنازعات میں بری طرح الجھا دیا گیا ھے ، پچھلے تین سال سے سعودیہ اور حوثیوں کی جنگ نے سعودی معیشت کو بری طرح چکرا کر رکھ دیا ھے ، سعودی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا ھے اب تو سعودیہ کا اتحادی متحدہ عرب امارات بھی اس جنگ سے بیزاری کا اظہار کرنے لگا ھے ساتھ ہی ساتھ بحرین اور یمن جو سعودیہ کے ساتھ طویل سرحد رکھتے ہیں ان میں شیعہ اکثریتی آبادیوں کے زور پر ایران مستقل درانداندازی جاری رکھے ہوئے ہے جو سعودیہ کیلئے قطعی خوش کن نہیں
صرف ٹرمپ کی حفاظت کے وعدے پر مدار رکھنا سعودیہ کی سنگین غلطی ہوگی ۔

6 ۔ جہاں دشمن مسلسل سازشوں میں مصروف ہو وہاں علاقائی حلیفوں اور پڑوسیوں سے ناراضی مول لینا قطعی دانشمندی نہیں ہوتی یہی معاملہ سعودیہ قطر تنازع میں صادق آتی ھے کہ اتنے چیلنجز کے باوجود سعودیہ نے قطر سے تنازع کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ھے اور قطر کے خلاف محاذ جاری رکھے ہوئے ھے اسے کسی طور دانشمندانہ اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا یہ سب اقدامات اور پالیسیاں علاقائی استحکام کیلئے کسی طور خوش آئند نہیں ہیں ، ان پالیسیوں کے پس پردہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں جو اپنے والد کی تخت سے ممکنہ دستبرداری کی صورت میں جلد سے جلد سعودی بادشاہ بننے کو بے تاب ہیں اور ان کے بادشاہ بننے سے ایسی پالیسیوں میں مزید اضافہ ہی متوقع ھے جو کہ
مزید انتشار اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کا باعث ہوگا ۔

یاد رکھئے جس ملک کی پالیسیاں بیرونی اشاروں پر تبدیل ہوتی ہوں وہ ملک کبھی مستحکم نہیں ہوا کرتے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے