سعودی عرب میں خوش آئند اصلاحات

سعودی عرب میں اصلاحات کا جو عمل شروع ہوا ہے ، اس پر پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام میں مباحثہ شروع ہو گیا ہے کیونکہ سعودی عرب کو دنیائے اسلام میں مرکزی حیثیت ہے ۔ یہ سرزمین نہ صرف مذہب اسلام کا منبع و ماخذ ہے بلکہ کعبہ شریف سمیت مسلمانوں کے اہم مقامات مقدسہ یہاں ہیں ۔ سعودی معاشرہ کیسا ہو ؟ اس حوالے سے مسلمانوں نے اپنے اپنے طور پر کچھ مثالی تصورات قائم کئے ہوئے ہیں ۔ اسلئے سعودی عرب میں جو بھی اصلاحات خصوصاً سماجی اور قانونی اصلاحات کے حوالے سے مسلم دنیا بہت حساس ہے ۔

سعودی عرب سے یہ بھی خبر ہے کہ شاہ سلمان نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کیخلاف بڑا اقدام اٹھایا ہے۔ کرپشن کے الزام میں موجودہ اور سابق وزرا سمیت 10شہزادوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں اینٹی کرپشن کمیٹی نے کی ہیں جس کے سربراہ ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔ سعودی عرب نے نجی پروازوں پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں تاکہ لوگ ملک سے فرار نہ ہو سکیں۔ کئی وزرا کو ان کے عہدوں سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ نئے سعودی عرب کی تعمیر کیلئے یہ اقدام بہت ضروری تھا۔ سعودی عرب کے علما کا بیان بھی آیا ہے کہ کرپشن سے لڑنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنا، اس کا مطلب یہ ہے کہ کرپشن اتنا ہی بڑا قومی جرم ہے جتنا کہ دہشت گردی۔

حال ہی میں سعودی عرب کی حکومت نے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی ہے ۔ اسکے ساتھ ساتھ خواتین کو کھیل کے میدانوں میں بھی آنے کی اجازت دی گئی ہے ۔

سعودی عرب کی نئی قیادت اس امر سے آگاہ ہے کہ مسلم دنیا سعودی عرب میں سماجی اصلاحات کے حوالے سے کس قدر حساس ہے لیکن سعودی قیادت کویہ چیلنج بھی درپیش ہے کہ اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں سعودی عرب کو مستقبل میں قائدانہ کردار کس طرح دلایا جائے ۔ سعودی عرب کے نئے ولی عہد محمد بن سلمان اگرچہ نوجوان ہیں لیکن انہوں نے بہت تھوڑے عرصے میں اپنے آپ کو ایک بڑے ’’ وژن ‘‘ والے لیڈر کے طور پر نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری دنیا میں منوالیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو شہزادہ محمد بن سلمان کے خیالات کو ’’ لبرل ‘‘ کہنے پر اعتراض ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ نوجوان سعودی ولی عہد لبرل سوچ کے حامل ہیں اور انکے سعودی عرب کے مستقبل کے بارے میں وژن کو سعودی باشندوں خصوصاً نوجوانوں میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور وہاں کے اہل دانش نے بھی انہیں سراہا ہے ۔ 33 سالہ شہزادہ محمد بن سلمان نے کچھ عرصہ قبل برطانوی اخبار ’’ گارجین ‘‘ کو جو انٹرویو دیا تھا ، وہ انتہائی فکر انگیز ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ گزشتہ تین دہائیوں میں سعودی عرب میں جن نظریات کی بالادستی رہی ، وہ 1979 ء کے ایران انقلاب کا ردعمل تھے ۔ گزشتہ 30سال میں جو کچھ سعودی عرب میں ہوا اور جو کچھ اس خطے میں ہوا ، وہ حقیقی مشرق وسطی نہیں ہے ۔ 1979 ء کے ایران انقلاب کے بعد کچھ ممالک اس انقلاب کی نقل کرنا چاہتے تھے ۔ سعودی عرب بھی ان میں سے ایک تھا ۔ لیکن اب یہ عہد ختم ہو چکا ہے اور ہمیں اس صورتحال سے نکلنا ہے ، جو تین عشروں تک رہی ۔ ‘‘ ان چند جملوں میں انہوں نے سعودی عرب اور خطے کے حوالے سے اپنا وژن دے دیا ہے ۔ سعودی عرب نے اسلامی ممالک کی جو مشترکہ فورس بنائی ہے ، اسے ایران کیخلاف سعودی عرب اور اتحادی ممالک کی فورس قرار دیا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی ولی عہد مشرق وسطی کو ایران کے ردعمل میں ہونیوالی سیاست اور نظریات سے نجات دلانا چاہتے ہیں ۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے نوجوان قائد محمد بن سلمان سعودی عرب کو ’’ ملٹری ڈاکٹرائن ‘‘ سے ’’ اکنامک ڈاکٹرائن ‘‘ ( Economic Doctrine ) کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے اپنا وژن 2030 دیا ہے ، جس کے تحت سعودی حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کے شمال مغرب کے صحراؤں میں مستقبل کا ایک نیا شہر آباد کیا جائے گا ، جسے ’’ نیوم ‘‘ ( Neom ) کہا جا رہا ہے ۔ یہ شہر 10231 مربع میل میں پھیلا ہو گا اور موجودہ نیو یارک سٹی سے 33 گناہ بڑا ہو گا ۔ اس شہر کی سرحدیں مصر اور اردن کی سرحدوں سے ملی ہوئی ہوں گی ۔ یہ شہر سعودی عرب کا نیا اکنامک پاور ہاؤس ہو گا ۔ جس کے اپنے قوانین اور اپنے معیارات ہوں گے ۔ یہ ایک لبرل شہر ہو گا ، جس میں خواتین اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ اس شہر کی جو منصوبہ بندی کی گئی ہے ، وہ پہلے صرف ’’ سائنس فکشن ‘‘ کا حصہ تھی لیکن اب لوگ اس حیرت انگیز دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے یہ شہر ایک آزاد تجارتی اور صنعتی زون ہو گا ، جس میں جدید ہوٹل اور تفریح گاہیں ہوں گی ۔ شہر میں، انٹرٹینمنٹ ، انرجی ، بایو ٹیکنالوجی اور جدید مینو فیکچرنگ انڈسٹریز کی تنصیب کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے ۔ سعودی عرب کے تپتے ہوئے صحرا شمسی توانائی کا بہت بڑا وسیلہ بن سکتے ہیں ۔ ایک حالیہ ریسرچ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ سولر ٹیکنالوجی سے سعودی عرب کی صرف تین فیصد زمین پوری دنیا کو 50 فیصد بجلی مہیا کر سکتی ہے ۔

500ارب ڈالر کا ’’ نیوم سٹی ‘‘ کا منصوبہ 2025ءمیں مکمل ہونے کی توقع ہے ۔ کینیڈا نے بھی اسی طرح کے ایک جدید شہر کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے لیکن سعودی عرب کے منصوبے سے بہت چھوٹا ہے ۔ سعودی عرب کا جدید شہر تجارت ، ایجادات اور تخلیق کامرکز ہو گا ۔ اس شہر میں نہ صرف لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ سعودی نوجوانوں کی کھیپ ہو گی بلکہ یہاں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع ہوں گے ۔ نئی سعودی قیادت ایسا کیوں سوچ رہی ہے ۔ اس کا ایک بنیادی سبب ہے ۔ دنیا میں تیل کی معیشت اور تیل کی سیاست کا عہد ختم ہو رہا ہے ۔ تیل کی نہ صرف قیمتیں بلکہ طلب بھی کم ہو رہی ہے ۔ الیکٹرونکس اور متبادل توانائی کے ذرائع کی وجہ سے نئی دنیا تخلیق ہو رہی ہے ۔ اب تک تیل کی دولت کی وجہ سے سعودی معیشت سنبھلی ہوئی تھی اور معاشی استحکام کی وجہ سے وہاں انتشار یا بے چینی نے جنم نہیں لیا ۔ مستقبل میں سعودی عرب سمیت تیل پیدا کرنے والے ممالک کی معیشت کا تیل پر انحصار کم ہو جائے گا اور ان معیشتوں کو دیگر جدید ذرائع پر اپنا انحصار بڑھانا ہو گا ۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا وژن سعودی عرب کی مستقبل میں کوئی جگہ بنانا ہے۔ وہ عالمی سیاست میں نئے visionکے ساتھ بڑی طاقت بن کر ابھرے گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ سعودی عرب میں جو سماجی ، قانونی اور معاشی اصلاحات لا رہے ہیں ، وہ نہ صرف خوش آئند ہیں بلکہ اس سے سعودی عرب ، مشرق وسطی اور عالم اسلام کو طویل المیعاد فائدے حاصل ہوں گے ۔ نئی سعودی معیشت کے لئے نیا سعودی سماج ضروری ہے تاکہ نوجوان جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر اپنا کردار ادا کر سکیں ۔

دنیا کے تمام مسلمانوں کی سعودی عرب سے محبت اور وابستگی فطری ہے ۔ سعودی سماج کے بارے میں انہوں نے جو تصورات قائم کر رکھے تھے، وہ بھی اس عہد میں درست تھے ، جب سعودی عرب ’’ آئل پاور ‘‘ تھا ۔ اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں ۔ سعودی عرب کیلئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ جدید معیشت استوار کرنے کیلئے ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرے ، جو اس معیشت کو سنبھال سکے ۔ نئی سعودی قیادت کے اس وژن پر عہد نو کے تقاضوں کے مطابق اجتہاد کرنے اور اس وژن کے ادراک کی ضرورت ہے ۔ یہ وژن سعودی عرب میں داخلی تبدیلیوں اور خارجی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے