سررہ گزر چور تکے لے نہ سکے

معروف تجزیہ کار انصار عباسی کہتے ہیں:سیاسی جماعتیں بلا امتیاز احتساب کے عزم سے کیوں پیچھے ہٹ گئیں؟ اسلئے کہ آگے کھائی تھی پیچھے پہاڑ تھا، احتساب اگر یہ کہیں کہ نہیں ہو رہا تو غلط ہے، ہو رہا ہے مگر اس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا پہاڑ اور کھائی میں۔ ارباب سیاست ہوں یا صاحبانِ اقتدار و سیاست اب ان کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ اکھاڑے میں کوئی چت ہو تو وہ تالی بجائیں، اور اتنا شور مچائیں کہ کرپشن کے اسموگ میں نہ کچھ دکھائی دے نہ سجھائی دے، بلکہ اب وہ بابا بلھے شاہؒ کے مسلک پر ہیں کہ؎

بلھیا! اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
اور یہ مکتب فکر اب کسی کا نہیں میاں محمد بخشؒ والا کہ؎
دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے
سجناں وی مر جانا

سچ تو یہ ہے کہ ’’کرپشن کردیاں کردیاں اسی آپے کرپشن ہوئے!‘‘ اگر کچھ غور کتابِ حکمت پر بھی کر لیا جائے تو یہ ایک آفاقی نظام کا اصول سیاست ہے کہ انہوں نے مکر کیا، اللہ نے بھی جواب دے دیا، اور وہ بہترین جوابِ آں غزل دینے والا ہے، کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ ریش بابا سے کھیلتا رہے گا، اور بابا کچھ بھی نہیں کرے گا اگر تو کسی نے حقوق العباد پر ڈاکہ ڈالا ہے تو اگلے ہوں پچھلے ہوں یا ’’وچلے‘‘ کوئی بچ نہ پائے گا کہ اس کے بندے، اسکے بندوں کا نوالہ چھین کر دور جا کر کہیں دبا دیں اور مکر کرے کہ اس نے تو کچھ کیا ہی نہیں یہ ہو نہیں سکتا، اگر کوئی تاریخ اٹھا کر دیکھے تو جب بھی کسی فرد یا گروہ نے اکثریت، ہماری مراد لٹے پٹے انسان ہیں کا حق مارا ہے اسے بہت بلندی سے گرایا گیا ہے، گناہوں کی باقی اقسام کے لئے کیا قیامت، کافی نہیں؟ اکثر محروموں کے مجرم بظاہر بچ بھی جاتے ہیں مگر یہ تو وہ مجرم جانتے ہیں کہ انہیں عبرتناک سزا نے بالآخر دبوچ لیا، دولت کے انباروں کو چور تکے لے نہ سکے۔
٭٭٭٭

خان صاحب ! اپنی نیکی برباد نہ کرو
عمران خان2018:ءمیں تبدیلی آ رہی ہے، عوام بھٹو کی جیت بھول جائیں گے، نواز شریف آپ مائنس ہو چکے، آپ کی قبر پر گھاس اُگ چکی ہے، یہ جو کچھ آپ نے فرمایا یہ الٹ بھی سکتا ہے، کامیاب، آس پاس لوگوں کے ہجوم آزمائش ہیں، اگر آپ درست ہیں تو ٹھیک غلط ہیں تو حرف غلط، یہ دنیا دارالمباہلہ ہے جو چڑھ چڑھ کے خلق خدا پر سرعام کیچڑ اچھالے گا، لوگوں کو آگہی ضرور دیں مگر حریفوں کو نیچا نہ سمجھیں، انسان گناہ گار ہو، بے گناہ ہو خالق کی نظر میں معزز ہوتا ہے جو دھرتی پر اصلاح کرنے والے ہوتے ہیں وہ غیر صالح باتیں نہیں کرتے، اسی طرح وہ پردئہ غیب پر بھی دھاوا نہیں بولتے کہ اس کا پلو تو پکڑائی نہیں دیتا، عجز عظمت عطا کرتا ہے، کبیر رسوائیاں، پلس مائنس کا لیور اس کے ہاتھ میں جس کا ہاتھ سب کے ہاتھ پر ہے، وہ ہاتھ مضبوط بنا سکتا، وہ ہاتھ روک سکتا ہے وہ ہاتھ توڑ سکتا ہے، اس کی زمین پر کسی کو اکڑ کر چلنے کی اجازت نہیں، قبریں تو سب کی کھد چکی ہیں اپنے اپنے مقررہ وقت سب اس میں اترتے جائیں گے۔ گھاس اُگنے کی بات تو جن کی عقل گھاس کھائے وہ کرتے ہیں، ایسی ہولناک سیاست نہ کریں، تحمل تدبر اور حسن اخلاق سے کی گئی بات اثر رکھتی ہے، تبدیلی تو ایک ’’فینامنا‘‘ ہے، اسی لئے تو کہا گیا اور یہ سچ ہے کہ؎

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

اب یہ تغیر اچھا ہو برا ہو، منفی ہو مثبت ہو یہ کسی کو خبر نہیں اگر اچھی تبدیلی لانا ہے تو اچھے انداز میں اسے لانے کے لئے بہترین کوشش کریں، ان کے حریف بھی یہ دعویٰ نہ کریں کہ 20کروڑ پاکستانیوں کی اکثریت عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے راضی نہیں، اگر عوام کو عدالت بنانا ہے تو منصفوں کو عوام بنا دیں اور عوام کو منصبِ انصاف پر بٹھا دیں الٹی گنگا مت چلانے کی کوشش کریں کہ ایسا ممکن نہیں، اچھی قومیں اپنی عدالتوں کا احترام یہ کہہ کر کرتی ہیں کہ فیصلہ قبول ہے، اچھا ہے۔
٭٭٭٭

فردِ جرم نہیں فرد جرائم کہئے!
وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے:ملک میں مصنوعی بحران پیدا کرنے کیلئے در پردہ کوشش ہو رہی ہے۔ جب رات چھا جائے، سورج ڈوب جائے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ رات مصنوعی ہے، یہ کسی نے سازش کر کے طاری کر دی ہے، یہ کہنا کہ ملک میں بحران نہیں بھلا یہ بات کون مانے گا، منجدھار والے تو کیا جو دور باہر کے ساحلوں پر بیٹھے ہیں وہ بھی تسلیم نہیں کریں گے، پھر یہ کہ بحران کی بھی ایک عمر ہوتی ہے یہ ستر سالہ بوڑھا کھوسٹ بحران تو جان لے گیا پاکستان کی، یہ کس نے برپا کیا ہے فرد جرم لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ معاملہ فردِ جرائم عائد کرنے کا ہے، ہم حاشا وکلا یہ نہیں کہتے کہ کوئی بھی جرم ن لیگ سے سرزد ہوا ہے، مگر بات وہ کی جائے جسے عقل مان بھی لے، اس وقت ملک کو چلو بحران نہیں کہتے کئی قسم کے چیلنجز کا سامنا ضرور ہے، یہ ظاہر ہے کہ عوام نے تو پیدا نہیں کئے وہ تو ہر بحران کے دشمن ہیں کہ انکے گھر کا بجٹ نہیں چل رہا، جن لوگوں کو 70برسوں سے اللہ تعالیٰ لوگوں کی زمام پکڑاتا آ رہا ہے یہ اگر سازش بھی اور کوئی در پردہ کوشش کر رہا ہے تو وہ اس ملک پر حکمرانی کرنے والے ہی ہو سکتے ہیں، عوام کیوں اب تک قوم نہ بن سکے اور چند لوگ اشرافیہ بن کر کیوں اپنے وسائل سے بڑھ کر امیر ہیں، اور ایک اکثریت اپنے فضائل کے باوجود غم روز گار میں الجھے رہتے ہیں، احسن اقبال صاحب طبعاً شریف النفس عقلمند ہیں، مگر کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ جس سے کوئی بچنا بھی چاہے تو وہ مکالمہ اسکرپٹ سے مٹا نہیں سکتا جس کے باعث اسکی قبا میں کوئی چاک نہیں، اور البتہ سینہ چاکانِ چمن کے غول کے غول وطن پاک کے گلشن میں روش روش یوں چل رہے ہیں کہ جیسے نہیں چل رہے، اقتدار بڑی آزمائش ہے، مقتدر اپنے بچائو کی خاطر در پردہ کچھ نہ کچھ گھڑ رکھتا ہے، کہ میڈیا کو جواب تو دے سکے۔
٭٭٭٭

اسموگ ہے یا ہمارے گناہ
….Oہود بھائی:اسموگ، ہم کیا غلطیاں کر رہے ہیں۔
غلطیاں ہی تو اسموگ کی صورت چھا گئی ہیں۔
….Oبلاول:پیپلز پارٹی صوفی ازم کا تسلسل ہے،
مگر کسی صوفی نے سیاسی جلسے کئے، ووٹ مانگے اور نہ اقتدار کی ہوس پالی، بلکہ وہ تو حکمرانوں کو رعایا کو ہدایت کی تلقین کرتے رہے، بلاول پسند کریں ’’بھٹ شاہ‘‘ میں قشقہ کھینچ کر بیٹھ جائیں، کہ سیاست پر تو اسموگ کا راج ہے۔
….Oمخدوم احمد محمود:غریبوں کی زندگی اجیرن۔
پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے؟
….Oیاسمین راشد:این اے 120:مردہ لوگوں کے ووٹ بھی ڈالے گئے،
آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اس ملک میں ووٹرز زندہ ہیں؟
….Oموٹر بائیک ایمبولینس سروس منصوبہ ناکامی سے دوچار،
کاموں کی ترجیحی ترتیب غلط ہو تو منصوبے کامیاب نہیں ہوتے، ہمیں پہلی ترجیح میں اسپتالوں کے حالات درست کرنا ہے، مگر توجہ مریض ڈھونے کے انتظامات پر ہے، عوام کا پیسہ کس طرح غلط منصوبہ بندی کے باعث ضائع ہو رہا ہے، یا اپنے کام میں لایا جا رہا ہے، الحذر!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے