انسانی خون سے بجلی

کہتے ہیں سارے پرندے اڑتے رہتے ہیں لیکن بٹیر کے اڑنے پر غلغلہ ہو جاتا ہے یا پتنگ تو سب اڑاتے ہیں لیکن کوئی کوئی خوش قسمت ہی ’’ پتنگ باز سجنا ‘‘ کا مرتبہ حاصل کرتا ہے اور

پتنگ باز سجنا سے ، پتنگ باز بلما سے
آنکھوں آنکھوں میں الجھی ڈور

کہ مچ گیا شور، دل ہوا بوکاٹا

مطلب یہ کہ دل تو سب کے ہوتے ہیں لیکن ہر دل ’’بوکاٹا ‘‘ کہاں ہوتا ہے۔ ہماری پاکستان والوں کی بھی کچھ ایسی ہی قسمت ہے کہ نہ جانے پتنگ بازی میں کتنا تجربہ رکھتے ہیں لیکن پھر بھی حرام ہے جو کوئی بوکاٹا کہے ۔ اس شخص کا قصہ تو آپ نے سنا ہوگا جو اپنی بیوی کی نظر میں ’’ بوکاٹا ‘‘ بننا چاہتا تھا، اس کے لیے اس نے کسی بزرگ یا جادوگر سے اڑنا سیکھا اور ایک دن بیوی کو سر پرائیز دینے کی خاطر اپنے گھر کے اوپر خوب خوب اڑا۔ لوٹن کبوتر بن کر بازیگری کی۔ کرتب دکھائے ۔ اور پھر جنگل میں اترکر عام طریقے پر گھر آیا ۔

بیوی سے پوچھا سناؤ کوئی خاص واقعہ تو نہیں ہوا آج ۔ بیوی بولی آج تو کمال ہوگیا کوئی آدمی اوپر ہوا میں اڑ رہا تھا اور کیا پیار ی پیاری کرتب بازی کرتا رہا ۔ شوہر بولا، وہ میں تھا ۔بیوی نہیں مان رہی تھی لیکن اس نے نشانیاں بتاکر منوالیا کہ وہ اڑنے والا تمہارا خاکسار شوہر نامدار تھا لیکن دوسری طرف سے ’’ بوکاٹا ‘‘ کے بجائے یہ سنائی دیا کہ اچھا تب ہی تو میں کہوں کہ اتنا آڑا ترچھا اور اناڑی پن سے کوئی اور کیسے اڑ سکتا ہے ؟

تمہید لمبی ہو گئی لیکن اسے تمہید کے بجائے ہمارے جلے دل کا ’’ پھپھولا‘‘ سمجھ لیجیے جو اس خبر سے پیدا ہو گیا ہے کہ ’’ چین ‘‘ نے انسانی خون کی گردش سے بجلی بنانا شروع کر دی ہے ۔ اب آپ خود سوچئے کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے، انیائے ہے،انرتھ ہے اگر ’’ مہا پرلے ‘‘ نہیں تو کم از کم ’’ پرلے ‘‘ تو ضرور آنا چاہیے تھا ۔ جو کام ہم دو عشرے پہلے سے کر رہے ہیں اور مسلسل ’’ انسانی خون ‘‘ سے بجلی بنارہے ہیں نہ صرف استعمال کر رہے ہیں بلکہ شاید دساور کو بھی بھیج رہے ہیں اس کا نہ کہیں ذکر نہ اذکار نہ خبر نہ اشتہار اور چین والوں نے انسانی خون کی گردش سے بجلی بنالی تو سارے جہاں میں ’’بوکاٹا ‘‘ ہو گیا، بہت نا انصافی ہے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ورنہ ہم یہ مقدمہ سیدھا اقوام متحدہ یا عالمی عدالت انصاف لے جاتے، اگر عمران خان مدد کر ے تو اب بھی بندہ مقدمہ ٹھوکنے کے لیے تیار ہے۔

تم کو بھی ہم دکھادیں کہ مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشاکش غم پنہاں سے گر ملے

اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے، ہم پاکستان والوں اور خصوصاً ہمارے مسلمانوں کے اجداد کے ساتھ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے مثلاً الیکٹرانک دروازہ سب سے پہلے ہم ہی نے علی بابا کی کہانی میں متعارف کرایا تھا جو ’’ سم سم‘‘ کی آواز سے کھلتا تھا۔ وہی دروازہ آج ساری دنیا میں انھی الفاظ کے ساتھ مروج ہے، صرف الفاظ انگریزی کے سم سم بولے جاتے ہیں اور وہ گھڑی کا قصہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا کہ مامون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمین کو تحفے میں ایک گھڑی بجھوائی تھی لیکن انقلاب فرانس کے دوران وہ گھڑی ایک سوئس باشندے نے چرائی اور اس کی بنیاد پر جاکر سوئیڑرلینڈ میں گھڑیوں کی صنعت قائم کی۔ ویسے یہ سوئیڑرلینڈ والے بھی بظاہر معصوم دکھائی دیتے ہیں لیکن اندر سے بڑے خرانٹ ہیں۔ وہ علی بابا والا میکنزم بھی آج کل سوئس بینکوں میں مروج ہے ۔ خیر وہ تو غیر ہیں اگر پورے حساب کتاب پر آئیں تو یورپ، امریکا اور چین و جاپان کے پاس اپنا ککھ بھی نہ رہے اور سب کچھ ہمارے ہاں سے چرایا ہوا نکل آئے۔

خیر یہ تو بڑی لمبی کہانی ہے لیکن چین والوں سے ایسی توقع نہ تھی کیونکہ پورپ امریکا والے تو دشمن ہیں لیکن چین کے ساتھ تو ہماری دانت کاٹی روٹی کا رشتہ ہے۔ٹھیک ہے انھوں نے انسانی خون کی گردش سے بجلی بنانے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے، اچھا کیا ہے لیکن اگر ایک مرتبہ ہمارے ہاں بھی جھانک کر دیکھ لیتے تو کیا برا تھا کہ یہ ایجاد ہم کتنا عرصہ پہلے کر چکے ہیں، اسی لیے تو ہم نے پانی سے ، ہوا سے اور سورج وغیرہ سے بھی بجلی لینا بند کیا ہوا ہے کہ ہمارے عوام وہ گائے ہے جو سب کچھ اپنی کھال سے بنا کر دے دیتی ہے۔ یہ ہمارا ہی شعر ہے کہ

گرچہ گرد آلود فقرم شرم باد ازہمتم
گرد رآب چشمۂ خورشید دامن ترکنم

یعنی اگر میں گدائی وفقیری میں گرد آلود ہوں لیکن یہ میرے لیے از حد شرم کی بات ہوگی اگر ’’ چشمہ خورشید ‘‘ یعنی سورج کی روشنی سے اپنا دامن آلودہ کروں اور ٹیکنیکلی بھی دیکھا جائے تو انسان خون سے بجلی بنانے میں ہماری ٹیکنالوجی چین سے زیادہ آسان اور سستی ہے۔

چین کی اس ایجاد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے ایک ننھا منا سا جنریٹر ایجاد کر لیا ہے جسے کھال کے اوپر کسی رگ وغیرہ پر رکھ کر بجلی کشیدکی جائے گی۔ٹکنیکلی اس طریقہ کار میں ایک ’’ جنریٹر ‘‘ بھی درکار ہوگا، اسے کسی نس یا رگ سے منسلک کرنا بھی ہوگا اور پھر آگے بھی کئی دشواریوں اور اخراجات کا سامنا کرنا ہوگا لیکن ہم نے جو طریقہ سالہا سال پہلے ایجاد کیا ہوا ہے اس میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ نہ خون میں کوئی سوئی وغیرہ لگانا پڑتی ہے نہ جنریٹر کا تکلف اور نہ کوئی اور تردد۔ بس ایک چھوٹا سا کاغذ کا پرزہ ہوتا ہے جو کسی کے بھی آنکھوں کے سامنے کردو، دھڑا دھڑ اس کے خون سے بجلی بننا شروع ہو جائے گی، مرے ہوئے تار زندہ ہو جاتے ہیں، رکے ہوئے جنریٹر اور پلانٹ بلکہ گرڈ تک گڑ گڑانے لگتے ہیں۔

کیا اب یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اس کاغذ کا نام ’’ بل ‘‘ ہوتا ہے۔ ابھی ’’ مردہ ‘‘ لوگوں اور قبروں پر اس کا تجربہ نہیں ہوا ہے لیکن ’’ زندہ ‘‘ آدمی کے جسم میں اگر خون کا ایک قطرہ بھی باقی ہو تو یہ ’’ بل ‘‘ نام کا جنریٹر اسے کھینچ کر قومی گرڈ میں ڈال دیتا ہے اور پھر یہ انتظام اتنا سولڈ اتنا پکا اور اتنا بے عیب ہے کہ آج تک لوگوں نے سوسو طرح سے کوشش کی، تیل کے جنریٹر ،گیس کے جنریٹر، سولر بجلی کیا کچھ نہیں کیا لیکن مجال ہے جو ’’ بل ‘‘ کی اس جونک سے خود کو چھڑا سکیں۔ وہ پیر تسمہ پاکا قصہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ اس کا نام آج کل بجلی کا بل ہے، چاہے آپ بجلی استعمال کریں یا نہ کریں لیکن دوسرے تو استعمال کرتے ہیں نا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے