اذان سے نمازتک

زندگی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔زندگی انسان کو صرف ایک بار ملتی ہے۔اور اس کا اختتام موت ہے۔یہ سب جانتے ہیں۔مگر موت سے پیدائش تک کا سفر طے کرنے کے لیے زندگی عطا کرنے والے کے الگ اصول و ضوابط ،منازل،مقاصد،اور دائرہ کار ہے۔انسان اورزندگی کے طرز عمل میں تضاد کی وجہ سے کسی کے لیے یہ زندگی خار اور کسی کے لیے گلزار بن جاتی ہے۔کوئی زندگی کی آندھیوں اور طوفانوں سے گھبرا کر سقراط کی طرح موت کو گلے لگا لیتا ہے۔تو کوئی اس زندگی کو فرعون کی طرح غرور و تکبر کی سر کشی میں بسر کرتا ہے۔زندگی کے اس سفر میں کوئی کارواں کا لیڈر بنتا ہے تو کوئی صرف مسافر ۔کوئی بادشاہ تو کوئی ناتواں غلام بنتا ہے۔کوئی دنیا میں دولت اکٹھی کرکے قارون بنتا ہے ۔تو کوئی دنیا کی ہر شئے میں خدا کو ڈھوڈتا ہے۔اور پھر کوہ طُور پہ جا کر رب سے ہم کلام ہوتا ہے۔تو کوئی ساری زندگی اس کشمکش میں گزار دیتا ہے کہ کیا واقعی خدا ہے اور اگر ہے تو کہاں ہے ۔کوئی خدا کے وجود کو ماننے سے انکا ر کر دیتا ہے۔ توکوئی مچھلی کے پیٹ میں رب کو پکارتا ہے ، کوئی رب کو منانے کے لیے اتنا روتا ہے کہ آنسوبہنے کی وجہ سے گھاس اُگ آتی ہے

کوئی شرک کرتا ہے تو کوئی جنت کے حصول اور خدا کی رضا کے لیے دن رات عبادت میں مشغول رہتا ہے ۔ کوئی نمرود خود جنت بنا لیتا ہے ۔کوئی چاند پہ کمندیں ڈالتا ہے ،تو کوئی سمند ر کی موجوں کو قابو میں کرتا ہے۔کوئی زیر زمین خزانوں کو نکالتا ہے ، توکوئی پہاڑوں کو تراش کر راہیں ہموار کرتا ہے۔کوئی سمندر کی طے میں غوطے لگاتا ہے تو کوئی بادلوں کو چیر کر سفر کی طوالت کو کم کرتا ہے ۔نیز پیدائش سے پہلے اور موت کے بعد کا مرحلہ سب کا مشترک ہے۔اختلاف ہے تو صرف ماں کی گود سے لے کر قبر تک ہے۔گود سے لحد تک کے سفر میں بعض اوقات بادشاہوں کے قدم بھی لڑکھڑا جاتے ہیں ۔اور کبھی ایک حقیر اور عام سا بندہ بھی ثابت قدم رہتا ہے ۔اس ثابت قدمی میں کچھ خالق کی کرم نوازی اور کچھ انسان کی کوشش اور محنت ہوتی ہے۔زندگی کے اس کارواں میں کس کو خاک میں روندھنا ہر اور کس کو تخت نشین کرنا ہے اس کا فیصلہ رب کریم کرتا ہے۔بیشک وہ جسے چاہیے عزت دے اور جسے چاہیے ذلت دے ۔کسی بھی انسان کی قسمت میں نہ دائمی کامیابی اور نہ ہی دائمی ناکامی ہے ۔عروج و زوال زندگی میں آتا رہتا ہے ۔جیسے کوئی ٹیکنالوجی ،مشینری یا کوئی بھی چیز ہو اسے تیار کرنے کے لیے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے ۔جیسے پتھر کو تراشنے سے ہی نگینہ بنتا ہے۔اسی طرح ایک کامل انسان بننے کے لیے بھی تکلیف ،رنج و ملامت اور ناکامیوں کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ان مراحل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔خوشگوار باعث راحت وسکوں اور نا خوشگوار باعث رنج و ملال اور زوال کا سبب بنتے ہے۔مگر جیسے چوبیس گھنٹے سورج کا راج نہیں رہتا اسی طرح فرحت اور ذلت کے بادل بھی ساری زندگی سایہ فگن نہیں رہتے۔زندگی کے نشیب و فراز سے ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے وہ چا ہیے کسی پس ماندہ علاقے کا غریب ہو یا کوئی اعلیٰ بادشاہ ہو۔

لیکن زندگی کے مصائب اور الجھنوں کا اگر ہمت و استقامت سے سامنا کیا جائے ۔تو مشکل وقت بھی خوش اسلوبی سے گزر جاتا ہے اگر مشکل وقت میں خدا سے مدد اور رحمت کی دعا کرنے کی بجائے شکوہ اور نا شکری کی جائے تو یہ کھٹن راہ نہ صرف طویل بلکہ خاردار بن جاتی ہے۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکا ر نہیں کہ غموں کا سورج جتنا بھی تابناک کیوں نہ ہو آخر وہ خوشیوں کے بادلوں میں گم ہو جاتا ہے۔ہر غم کے بعد خوشی اور ناکامی کے بعد کامیابی ملتی ہے۔
پیدائش سے موت تک کا سفر

آتے وقت اذان اور جاتے وقت نماز
اتنے قلیل وقت میں تو آکر چلا گیا

تو اے انسا ن! اس مختصر دورانیے میں آنے والے نشیب و فراز کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے کی اپنے اندر استقامت پیدا کر۔تقدیر پہ شکوہ اور گریہ زاری کرنے کی بجائے مقام خودی کی پہچان سے تقدیر کا رُخ بدل کر زندگی کو تابناک بنانے کی جسارت پیدا کر۔زندگی کی ہولناکیوں سے گھبرا کر قدم لڑکھڑانے کی بجائے عقابی روح اور فولادی قوت کے ذریعے فلک پہ اپنا نشیمن بنا۔اگرچہ وقت قلیل ہے مگر رب تیرا عظیم ہے ۔تیرا کام آغاز کرنا اور اسے مکمل کرنے کے لیے جستجو اور ثابت قدمی ہے ۔تکمیل کرنا رب جلیل پہ چھوڑ دے ۔

اے ابن آدم! اس قلیل وقت میں تو نے بہت سے کام کرنے ہے ۔زندگی عطا کرنے والے کی بندگی کا حق بھی ادا کرنا ہے ۔آخرت جہاں تو نے ہمیشہ رہنا اس کے لیے بھی ساماں کرنا ہے۔اور اس دنیا فانی میںآنے والے زمانے کو اپنا دنیا میں آکر جانے کا ثبوت بھی دینا ہے۔اے مٹی کے پتلے! زمین پر بوجھ بن کر زندگی نہ گزار بلکہ زمین کے لیے باعث فخر بن۔دوسروں میں چھپے عیب اور برائیاں تلاشنے کی بجائے زمین پر اپنے قدم تراش ۔جسے آنے والا زمانہ چاہ کر بھی نہ مٹا سکے۔زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کتابی بات کو عملی جامہ پہنا کر واقعی ہی زندگی کو اپنے اور دوسروں کے لیے نعمت بنا دے۔پیسے کمانے اور دولت اور شان و شوکت ہونے کو زندگی نہیں کہتے۔زندگی بہت سے عناصر جیسے رضائے الہی،بندگی،سکون،خدمت خلق وغیرہ جیسے عناصر پر مشتمل ہے۔ان میں سے کسی ایک عنصر کو حاصل کر لینے کو کامیاب زندگی نہیں کہتے ۔بلکہ ان سب کا متوازن ہونا کامیاب زندگی ضمانت ہے۔جس کے لیے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قدم سے قدم ملا کر یہ سفر طے کر۔اپنی راہ گذر پہ اتنے مضبوط نشان چھوڑجا کہ آنے والے زمانے کی کوئی قوت بھی مٹا نہ سکے۔اس نعمت کو حقیقت میں نعمت سمجھ۔بے معنی زندگی گزار کر اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی زندگی کو معنی دے کر اپنا نام کرۂ ارض پہ نقش کر تاکہ جب تو دنیا سے رخصت ہو تو صرف تیرا بدن ہو ۔ تیرا وجود زمین میں دفن ہو مگر تیرا نام ہمیشہ زمین پہ زندہ و سلامت رہے۔
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے