فضل الرحمان نائن زیرو کیوں گئے تھے ؟

فضل الرحمان

تحریر : فرنود عالم

اسلام آباد

farnood Alam

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بحث گرم ہے۔ تو کچھ پرانی باتیں دوہرا دی جائیں۔

سنیں۔

مولانا فضل الرحمن صاحب وہ لیڈر ہیں جن کا نظریہ دو سو ڈگری میں اپنے ہم فکر طبقے سے ہی متصادم ہے۔ یہ بجا کہ مولانا صاحب کے اور ان کے کارکنوں کے ایشوز یکساں ہیں، مگر ان ایشوز سے وابستگی کی وجوہات بالکل مختلف ہیں۔

جیسے نفاذشریعت۔
جیسے امریکہ۔
جیسے جھاد۔

مولانا فضل الرحمن اور ان کے وابستگان دونوں ہی امریکہ دشمنی پہ کمر بستہ رہتے ہیں۔ وابستگان کی نظر میں امریکہ دشمنی کا سبب کفر اور اسلام ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن کی اس مخالفت کی وجہ سوشل بلاک اور کیپیٹل بلاک کا وہ تصادم ہے جس کی بنیاد دو سیا سی اور معاشی نظریئے ہیں۔مولانا صاحب ہمیشہ سوشل بلاک میں کھڑے ہوتے ہیں اور یہ چیز انہیں ورثے میں ملی ہے۔ اگر کوئی اکابر کی گردان کو کچھ دیر کیلئے ایک طرف رکھ کر شیخ الھند محمود الحسن اور عبیدا اللہ سندھی کی تحریکوں وابستگیوں کو دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ مولانا صاحب کی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ اور سوشل بلاک سے وابستگی کی بنیاد کیا ہے ۔ اس لیئے میں کہا کرتا ہوں کہ اس وقت دیوبندیت کی سیاسی فکر پہ اپنی ذات میں اگر کوئی شخص کھڑا ہے تو وہ تنہا مولانا فضل الرحمن ہیں۔

بات یہ ہے کہ۔۔

دیوبندی مکتب فکر اپنے آغاز سے ہی ایک سیکولر سیاسی قوت رہی ہے ۔ یہ تو پھر بھلا ہو افغان جھاد کا اور سید ابوالاعلی مودودی صاحب کا کہ جو’’اقامت دین ‘‘ کے ایمرجنسی فلسفے میں پوری دیوبندیت کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئے ۔ آپ اگر غور سے دیکھیں تو مولانا فضل الرحمن صاحب آپ کو ہمیشہ بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ خوشگوار حالات میں نظر آئیں گے۔ ان کی قربتیں اور رومانس ہمیشہ عوامی نیشنل پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں سے رہی ہے اور ہے۔ یہاں تک کہ مولانا صاحب آپ کو ایم کیو ایم کیساتھ بھی کسی قسم کی سیاسی محاذ آرائی میں نظر نہیں آئیں گے ۔ بلکہ سندھ گور نر ہاؤس میں تو ان کا ایک خاص احترام پایا جاتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں سے اگر کسی مذھبی جماعت کو رسم وراہ ہے، تو وہ جے یو آئی ہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ان کا سیاسی تصادم صرف اس بنیاد پہ ہے کہ بد قسمتی سے دونوں جماعتوں کا ووٹ بینک ایک ہی صوبے میں ہے۔ اگر علاقائی سیاست، خطے کے ایشوز اور سیاسی ومعاشی نظریئے کی بنیاد پر کوئی فضا تشکیل پائے تو مولانا صاحب آپ کو اے این پی کے قرب وجوار میں دکھائی دیں گے۔ یہ تو خیر آپ جانتے ہی ہیں کہ مولانا صاحب کی سیاسی تربیت میں نوابزادہ نصر اللہ خان سے بھی زیادہ جس سیاسی بزرگ کا کردار ہے وہ خان عبدالولی خان ہیں۔ مولانا صاحب کو آپ کبھی بھی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ فٹ ہوتا ہوا نہیں دیکھیں گے۔ اگر کبھی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ وہ بیٹھے نظرآبھی جائیں تو مولانا صاحب کے پیج وتاب سے آپ کو واضح نظر آ جا ئے گا کہ اس وقت وہ بلاکی بدہضمی کا شکار ہیں۔ دائیں بازو کے ساتھ ان کا معاملہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسے گھر والوں کی مرضی کا خیال رکھتے ہوئے لڑکے نے اپنے عشق سے دستبردار ہوکر کسی اور سے نکاح کرلیا ہو۔

مزید یوں سمجھ لیں

اگر آپ خطےکی سیاست پہ ایک نظر ڈالیں تو وہاں بھی مولانا صاحب آپ کو لیفٹ ونگ کی بانہوں میں بانہیں ڈالے نظر آئیں گے۔ہندوستان کی کانگریس پارٹی چین کی کمیونسٹ پارٹی اور تاجکستان قا زقستان جیسی ریاستوں کی سوشلسٹ پارٹیوں سے بھی مولانا صاحب کے ہی خوش گوار مراسم ہیں۔ افغانستان میں محض طالبان میں ہی نہیں، بلکہ براہ راست کابل اسٹیبلشمنٹ میں وہ اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ زرداری دور حکومت میں مولانا صاحب انیس روز تک چین میں حکمران کمیو نسٹ پارٹی کے مہمان رہے ۔ مولانا صاحب ہندوستان سمیت خطے کی چھوٹی بڑی ریاستوں کو اہمیت دیتے ہیں ۔ وہ ایران اور روس سے بھی بہتر تعلقات کےخواہاں ہیں۔ کشمیر کی جنگ کو وہ جھاد تسلیم نہیں کرتے۔ ہندوستان کے ساتھ وہ ٹماٹر پیاز سے آگے کی تجارت پہ یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن بائیں بازو کی جماعتوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں ایک بلیک لسٹ سیاست دان ہیں۔ یا یوں کہیئے کہ وہ واحد مذھبی راہنما ہیں،جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کو کھٹکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیفٹ کی جماعتوں کی طرح مولانا صاحب پہ بھی ہمیشہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ والی دفعہ نافذ کی جاتی رہی ہے۔

اس سے بھی زیادہ آسان الفاظ میں ۔۔

زرداری دورحکومت میں اس بات کی سرتوڑکوشش ہوئی کہ ہندوستان کو ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ قرار دیا جائے ۔ حکومت کے چوتھے برس وزارت خارجہ اس پوزیشن میں آگئی تھی کہ ہندوستان کو ’’ایم ایف این‘‘ ڈیکلیئر کر دیا جائے۔ اتنی کامیابی بھی کیسے ملی؟ اس مقصد کیلئے آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمن صاحب کو ہی بروئے کار لائے۔ مولانا صاحب اٹھارہ دن کے طویل مدتی دورے پہ ہندوستان گئے ۔ ان اٹھارہ دنوں میں ان کے پیش نظر صرف ایک چیز تھی کہ کانگریس کے ساتھ معاملات فائنل کر کے وزارت خارجہ کے لیئے راہ ہموار کی جائے۔ مولانا صاحب اس دورے سے کامیابی کیساتھ واپس لوٹے۔اسی دورے کے بعد آصف علی زرداری اور سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے ہندو ستان کے دورے کیئے ۔ دو طرفہ علاقائی ہوائیں اس قدر موافق ہوچکی تھیں کہ وزارت خارجہ نے ’’ایم ایف این’’ کی ڈیکلئیریشن کیلئے باقاعدہ پر تولنا شروع کر دیئے تھے۔

برسبیل تذکرہ

یونہی یاد آیا تو کہتا چلوں کہ اس دورے میں جے یو آئی کے کار کنوں کیلئے دلچسپی کی صرف دو چیزیں تھیں۔

۱ مولانا صاحب کا دارلعلوم دیوبند جا کر تقریر کرنا
۲دوسرا مولانا صاحب کا ’’اکابر‘‘ کے مقابر پہ حاضری دینا۔

یعنی
چیزوں کو دیکھنے کا مضحکہ خیز انداز دیکھیئے۔ اسی لیئے تو میں مولانا صاحب کو ڈسکس نہیں کرتا۔ خود مولانا کا ورکر ہی مولانا سے نا آ شنا ہے۔ کہو کھیت کی، سنتے کھلیان کی ہیں۔

آمدم برسرِ مطلب۔۔

مولانا صاحب اور زرداری حکومت کی ان کوششوں پہ ’’دستِ غیبی‘‘ نے پانی پھیر دیا۔ دفاع پاکستان کونسل کھڑی کردی گئی۔ کیا کالعدم جماعتیں اور کیا کالوجود جماعتیں کیا حافظ سعید اور کیا سمیع الحق سارے ہی محمود وایاز ایک صف میں کھڑے ہوگئے۔ عجب ہی کہیئے کہ جو خدا پرست اپنے خدا کے کہنے پہ بھی اکٹھے نہیں ہوتے، وہ سپہ سالار کے ایک حکم پہ ہجوم در ہجوم سامنے تھے۔ ان مذہبی قوتوں نے ’’دو قومی نظریے‘‘ کا لائف ٹائم گارنٹی والا منجن ملک بھر میں بیچنا شروع کر دیا۔ یوں ’’ایم ایف این‘‘ والے خواب کی تعبیر کہیں راستے میں ہی کچل دی گئی۔

اب اندازہ لگائیں ذرا ۔۔

ایسے میں اگر مولانا صاحب دفاع پاکستان کونسل میں شامل ہوتے ہیں، تو یہ اپنے ہی خلاف اعلان جنگ ہے۔ اگر شامل نہیں ہوتے، تو اپنے ہی عقیدت مند سوال کھڑ اکردیتے ہیں کہ خدا کو اقتدار کی مسند حوالے کرنے کیلئے اتنا بڑا جو مذہبی اتحاد بنا ہے، اس میں آپ کیونکر شامل نہیں ہیں۔ ؟ اب اگر مولانا صاحب اس سوال کا جواب دیں، تو مارے جائیں۔ جواب نہ دیں، تو مارے جائیں۔ یعنی ایک ہڈی کہ جو اگلی جائے نہ نگلی جائے۔ وجہ؟ اس کی وجہ دیو بندیت کا وہ اجتماعی شعور ہے جو اپنی ہی اساس سے مزاحم ہے۔۔۔ جو لوگ مولانا صاحب کی نجی محفلوں سے وابستہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہود ونصاری اور ارباب اقتدار نہیں، مولانا صاحب کیلئے ان کے رومال پوش ھمدرد سب سے بڑا چیلنج ہیں ۔ کیونکہ دیوبندیت کا اجتماعی شعور نادانستہ طور پہ اس وقت اپنی بنیادی فکر سے ہٹ کر جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی فکر سے وابستہ ہوچکا ہے۔ پھر ستم یہ ہے کہ دیوبندیت یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ فکر ہمیں اکابر سے ملی ہے۔ لاحول ولا قوہ۔ اس قدر پسماندگی؟ یہی وہ بنیادی پوائنٹ ہے، جس نے دیوبندیت کو اس وقت بدترین کنفیو ژن کا شکار کیا ہوا ہے۔ اس کنفیوژن میں جب یہ اپنا مقدمہ لڑتے ہیں تو خود کو ہی خونم خون کر دیتے ہیں۔ بے بس ہوجاتے ہیں تو پھر جبڑا توڑ باونسر پھینکنے پہ آجاتے ہیں۔ ہر تحریک کے آخر میں انہیں ایک خاموش احساس ہوتا ہے کہ یہ تحریک تو ہم اپنے ہی خلاف چلا رہے تھے۔ گو مگو کے اس عالم میں کچھ نہ بن پڑے تو بات تشدد کی طرف نکل جاتی ہے۔ آخر میں جب خمار اترتا ہے تو دو باتیں کرتے ہیں

ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا
بات ٹھیک تھی مگر طریقہ کار درست نہیں تھا

دیوبند کے اجتماعی شعور کے مطابق مذھب اور ریاست کا جو خاکہ گزشتہ ربع صدی میں کوکھلے نعروں سے تشکیل پایا ہے وہ اس خاکے سے بالکل مختلف ہے جو مولانا فضل الرحمن کی شاخِ فکر پہ سہم کر بیٹھا ہے۔مولانا صاحب کا خاکہ مائل بہ سوشل ازم ہے جو کہ ٹھیک خاکہ ہے ۔ یہ سوشل ازم کی محبت میں نہیں ہے۔ یہ کیپیٹل ازم کے بغض میں ہے۔

اب۔۔ دو باتیں

عمران خان سے ان کی جنگ کی بنیاد کلچر اور تہذیب نہیں ہے۔ اور نہ یہ کہ عمران خان یہود ونصاری کا ایجنٹ ہے۔ الطاف حسین سے یا لیفٹ کی دیگر قوتوں سے ان کے مراسم کی بنیاد مذھب نہیں ہے۔ سنجیدہ لوگوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ نعروں پہ سیاست کے رخ کا تعین کریں۔ کیا اب یہ سمجھانا پڑے گا کہ نعروں کی سائینس کیا ہوتی ہے۔؟

ایسے میں

نائن زیرو جانے پہ جو حریف مولانا صاحب پہ نکتہ چیں ہیں، وہ وقفے وقفے سے پوگو دیکھ لیا کریں۔
نائن زیرو جانے پہ جو حلیف شرمندہ ہیں، وہ اخبار چھوڑ کر چندہ رسیدوں پہ توجہ دیں۔ یہ آپ کے بس کا روگ نہیں ہے۔

جو مولانا نے کیا، اپنے سیاسی منصب کے عین مطابق کیا

آپ نہ مانیں

مگر ایم کیو ایم پاکستان کی ایک سیاسی حقیقت تھی، حقیقت ہے، حقیقت رہے گی اور اس حقیقت کو رہنا چاہیئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے