سر رہ گزر

دگرد انائے راز آید کہ ناید
شاید کوئی اور دانائے راز آئے نہ آئے

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی ولادت ہو یا برسی، ہر سال نیا جنم لیتے ہیں۔ علم و فکر اور ان پر عمل کو کبھی موت نہیں آتی، نہ ہی یہ فضیلتیں نئی پرانی ہوتی ہیں۔ یہ فقط سدا بہار ہوتی ہیں، علامہ محمد اقبال کا یوم ولادت بظاہر تو گزر گیامگر چاہئے کہ ہر روز ہماری سوچ میں وہ بار دگر پیدا ہوں، فکر اقبال بہ لباس شاعری دانائے کل سید دو عالمﷺ کے اس فرمان کی عملی تفسیر ہے’’وان من الشعر لحکمۃ‘‘ اور کچھ شاعریاں فقط دانائیاں ہوتی ہیں۔ اقبال نے نہ صرف شعروں میں بلکہ انگریزی نثر میں بھی فکر کی شاعری کی ہے، ان کے ساتھ انگریزی لیکچرز بھی رومی مثنوی کے علاوہ ان کی نثری کتاب’’فیہ مافیہ‘‘ کی مثال ہے۔ اپنے ساتوں لیکچرز میں اقبال بہت بلندی پر دکھائی دیتے ہیں، کبھی ان کے اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں نہ نصابی کتب میں ان کا نچوڑ نئی نسل کے سامنے رکھا جاتا ہے ان کی فارسی شاعری کو ایرانیوں نے اپنے اساتذہ شعراء سے کہیں آگے پایا تو ان کی زبان سے فی البدیہہ یہ جملہ نکلا ’’اقبال، اقبال ماست‘‘ اقبال ہمارا ہے، اقبال آفاقی و زمینی دانشور شاعر ہیں، انہوں نے گل و بلبل ا ور زلف و رخسار کے بجائے علم و دانش اور دل بیدار کی شاعری کی، اسلامیان ہند کو جگایا، ایک الگ وطن کا تصور دیا، اسے زمین سے نہیں نظریے سے جوڑا اور آل انڈیا نیشنل کانگریس کے علماء کی اس سوچ کو رد کیا کہ’’ملت از وطن است‘‘ قوم وطن سے یعنی زمین کے ایک ٹکڑے سے بنتی ہے، یہ تھا وہ خیال جو علماء نے پیش کیا اور جس سے ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے نے جنم لیا۔ علامہ نے اپنی ایک رباعی میں اس سوچ کو دفن کردیا، پاکستان یعنی ایک الگ وطن کا تصور دیا جو لااللہ کی بنیاد پر کھڑا ہے یہی وجہ ہے پاکستان مٹائے مٹ نہ سکا اور یہ قائم ودائم رہے گا کہ لاالہٰ الااللہ کے نظریے کو زوال نہیں۔ اقبال کا ایک اندیشہ تھا؎

نسیمے از حجاز آید کہ نہ آید
دگر دانائے راز آید کہ ناید
٭٭ ٭ ٭ ٭

سب ہی زلف اقتدار کے اسیر ہوئے
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے، غریبوں کی کمائی لوٹنے والے زرداری کو کرپشن کے خلاف درس کا حق نہیں۔ ستر سال پر محیط حکمرانی کو بھی یہ حق نہیں لیکن سچ کڑوا ہوتا ہے، اسے ہر کوئی خود نگلنے کے بجائے دوسرے کے منہ میں ڈالتا ہے، اس میں شک نہیں کہ غریب لوٹے جاتے رہے، امیر، امیر تر ہوگئے اور ایک ایسا اشرافیہ وجود میں آیا جس کا ملکی سیاست سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رہتا ہے۔ سیاسی سوجھ بوجھ بعد میں اور دولت پہلے حاصل کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج کوچۂ سیاست سے جب کوئی سیاست کے لئے اہل بندہ مفلس گزرتا ہے تو خریداری کے بجائے یہ گاتا بنجارے کی مانند گزر جاتا ہے؎
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
اورعام آدمی جو غم روزگار سے کبھی دستگار نہ ہوا، دور بیٹھا بے بس تماشائی ہے، مہر و ماہ بھی اسے دیکھ کر نظر ہٹالیتے ہیں کہ وہ دیکھنے کی چیز ہی نہیں، جبکہ چاہئے تھا کہ؎
غربت زدہ غریب کو دیوانہ وار دیکھ
یہ دیکھنے کی چیز ہے اسے بار بار دیکھ
فرق تو بس اتنا ہے کہ اس حمام میں چند لوگ بے نقاب اور اکثریت پردہ پوش ہے، جنہیں تالیف قلب کے لئے سفید پوش بھی کہا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب یہ کرپشن کس نے کی کس نے نہیں کی، یہ ورد بے ثواب ترک کردینا چاہئے، اگر کوئی اس بات سے خوش ہوتا ہے تو ہم کہے دیتے ہیں کہ سارے خط غربت کے نیچے کی آبادی ہی کرپٹ ہے اور اس خط سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر رہنے والے ایسے پرہیز گار کہ دامن نچوڑ دیں تو وضو ٹوٹ جائیں۔ بہرحال اس ملک کو جس مقصد کے لئے بنایاگیا، اس پر ذاتی مقاصد نے ایسا قبضہ کیا کہ آزادی کا لطف ہی جاتا رہا۔ ہم کسی کو الزام نہیں دیتے بلکہ ان کے گناہ بھی بسر و چشم لیتے ہیں۔ اب تبصروں، خبروں، تجزیوں پر کان دھرنا بھی عبث ہے بس کسی بہتر نتیجے کا انتظار ہے، آئے گا تو میڈیا کو بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ خود بخود اس کی ٹھنڈک کانوں کی لو کو چھولے گی۔
٭٭ ٭ ٭ ٭

کاش! کہ تم مرے لئے ہوتے
دوران پرواز شوہر کی بیوفائی پر بیوی کا ہنگامہ، طیارے کی بھارت میں ہنگامی لینڈنگ، یہ قصہ ہے شوہر کی بیوفائی اور بیوی کی مارکٹائی کا۔ شوہر سوگیا بیوی نے اس کے فنگر پرنٹس سے اس کا موبائل کھول لیا، پھر کیا تھا بیوفائی کی ہوشربا داستان کھل گئی، بیوی نے وہ ہنگامہ رستا خیز برپا کردیا کہ سارا جہاز تہہ و بالا ہوگیا شوہر کی پٹائی کے مناظر اور پائلٹ کی بے بسی، اس نے ہنگامے کے جبر کے تحت طیارہ بھارت اتاردیا اور دو گھنٹے کی تاخیر سے جہاز نے پھر اڑان بھری، غالب نےعشق کی ایک خصلت یوں متعارف کرائی؎
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاش! کہ تم مرے لئے ہوتے
بیویاں بالعموم عاشق ہوتی ہیں اور شوہر معشوق، جب ان کا شوہر عاشق بننے کی کوشش کرتا پکڑا جائے تو عدالت عشق سے ایسی سزا ملتی ہے کہ اڑتے جہاز زمین پر آرہتے ہیں۔ دراصل ایک راز کی بات افشا کرنے کے سوا چارہ نہیں اس لئے ہم جملہ بیویوں کو مطلع کردیں کہ تمام شوہر’’پولی گیمی ایسٹ‘‘ ہوتے ہیں جبکہ بیویاں نہیں ہوتیں یہی بائیولوجیکل سروے ہے، اسی لئے تو شوہر کو بیک وقت ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت ہے جبکہ بیوی ایسا نہیں کرسکتی، الغرض ہم یہ بھی عرض کردیں کہ مرد کا عقیدہ محبت یا عقیدہ ازدواج یہ ہے؎
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
وہ تغیر پسند ہے، بیوفا نہیں، بیوی کیا ہے معلوم نہیں مگر وہ تغیر پسند نہیں وہ بیک وقت، بہر صورت خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز ایک ہی بیوی میں پوشیدہ ہے ۔
٭٭ ٭ ٭ ٭

رہزن کون لٹیرے کون؟
٭…مریم نواز احتساب عدالت میں اپنے والد گرامی کو دلاسا دیتے ہوئے کہتی رہیں، میاں صاحب فکر نہ کریں یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا۔
اسی لئے تو کہتے ہیں بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں۔
٭…یاسین ملک کا خاقان عباسی کو مشورہ، انتشار انگیز بیانات سے گریز کریں۔
وہ چاہتے ہیں کہ گریز کریں مگر………
٭…شاعر مشرق کا140واں یوم پیدائش۔
گویا علامہ صاحب140برس کے ہوگئے مگر ہم پھر بھی نہ سدھرے۔
٭…شیخ رشید صاحب سابق وزیر اعظم کی تباہی کی ذمہ دار مریم نواز ہے۔
شیخ صاحب آپ کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟
٭…ن لیگ، ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے،70 برس کے دوران قافلے کیوں لٹے کن رہزنوں نے لوٹے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لٹیروں کو جان گئے ہیں۔
٭…فاروق ستار مصطفیٰ کمال ایک ہوگئے۔
شاید رومی نے کہا تھا؎
تو برائے وصل آمد نے برائے فصل
تو ملانے، ملنے کو زمین پر بھیجا گیا ہے جدائیوں کیلئے نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے