کبوتر با کبوتر باز با باز

دو مختلف طرح کے وہ لوگ ہیں۔ فیصلہ ان کے درمیان سیاست کے کارزار میں ہو گا۔ کوئی قدرِ مشترک ان میں نہیں‘ پرندوں کے جھنڈ الگ ہوتے ہیں… کبوتر با کبوتر باز با باز۔
کہاں کا اتحاد اور کیسا اتحاد۔ یہ بات قابلِ فہم ہی نہیں کہ مصطفی کمال اور فاروق ستار اینڈ کمپنی یکجا ہوں۔ ایک مقصد اور ایک لائحہ عمل پر دل و جان سے متفق ہوں۔ یکسو ہو کر اس کے حصول میں جُت جائیں۔ اول تو ادغام ہوتا نظر نہیں آتا‘ ہوا تو برقرار نہ رہے گا۔ بالفرضِ محال متحد دکھائی بھی دیئے تو کوئی مشرق کی طرف دیکھے گا‘ کوئی مغرب کی طرف۔ متحدہ مجلسِ عمل کے پرچم تلے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے حکومت تک بنا لی تھی۔ بلدیاتی الیکشن کا مرحلہ آیا تو جوتیوں میں دال بٹی۔ اقبالؔ نے یہ کہا تھا:ع
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
اتحاد ان میں ہوتا ہے‘ جن کی ترجیحات ایک ہوں‘ منزلِ مراد ایک۔

پروفیسر احمد رفیق کی خدمت میں اشفاق احمد حاضر ہوئے۔ اپنے دور کے ایک نثر نگار کا ذکر چھیڑا۔ جواب میں پروفیسر صاحب نے جو کچھ کہا‘ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ صوفی نہیں‘ وہ متصوف ہیں۔ اہل صفا سے متاثر۔ پھر ایک اور نکتے کی وضاحت کی: ادبی جمالیات ایک چیز ہے اور علم دوسری۔ ہمیشہ دونوں یکجا نہیں ہوتے۔ کہا کہ راہِ سلوک کے کامران مسافر وہ ہوتے ہیں‘ موزوں عمر میں‘ ایک پختہ عزم کے ساتھ‘ اس راہ پہ جو چل نکلیں۔ یہ ایک طویل سفر ہے‘ حصولِ علم اور پھر عمل کے ساتھ اسے ہم آہنگ کرتے چلے جانا۔ دوسروں کو درویش دائم رعایت دے سکتا ہے‘ خود کو کبھی نہیں۔

مصطفی کمال نے ایک فیصلہ کیا اورخوب سوچ سمجھ کر۔ سینیٹر کا منصب چھوڑ کر‘ دو برس جس میں باقی تھے‘ خاموشی کے ساتھ وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ ہر طرح کے رابطے‘ الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں سے منقطع کر دیئے۔ منصب ہی نہیں‘ سینیٹر کی حیثیت سے‘ اپنی تنخواہ اور مراعات سے بھی دستبردار ہوئے۔ چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ لگ بھگ ایک برس بیت چکا تھا۔ نصف شب کو فون کی گھنٹی بجی‘ کہا: میں مصطفی کمال ہوں۔ آپ ان لوگوں سے میں سے ہیں‘ جن سے ہم نفرت کیا کرتے۔ یہاں دبئی میں قیام کے بعد‘ آپ کے کالم پڑھنا شروع کیے تو اندازہ ہوا کہ بہت سی باتیں آپ کی درست بھی ہیں۔
اپنائیت اس آدمی کا شیوہ ہے۔ اپنے حالات کی تفصیل بیان کی‘ بے تکلفی کے ساتھ پوچھا کہ کیا کروں۔ عرض کیا: ایسے میں اولین ترجیح خوف سے نجات ہونی چاہیے۔ ایسے ہی ایک خوفناک مرحلے سے گزر چکا تھا۔ مشورہ دیا کہ قرآن کریم کی آیت کا ورد کیا کیجئے ”انا ربی علیٰ کل شیئٍ حفیظ‘‘۔ ایک سو بار روزانہ۔ درویش کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ تسبیح تجویز کریں۔ ایک تربیت کے ساتھ‘ اسمائِ ربانی پڑھنے کی انہوں نے تلقین کی۔
اللہ نے اس کی مدد کی۔ رنج و خوف سے اس نے نجات پا لی۔ خود ترحمی سے اوپر اٹھا اور فیصلہ کر لیا۔ مضطرب کی وہ دعا سنتا ہے اور فرمان اس کا یہ ہے کہ اس کے مخلص بندے نجات سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ مصطفی کمال کی سیاست پہ اعتراضات ہیں۔ بعض درست بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعض ساتھیوں پر تحفظات ہیں۔ ایک چیز مگر پوری طرح واضح ہے۔ جیسا کہ فیض نے کہا تھا:

آ جائو میں نے درد سے بازو چھڑا لیا
آ جائو میں نے نوچ دیا ہے بے کسی کا جال

توکل جب عطا ہوتا ہے تو یکسوئی اس کے ساتھ آتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام‘ سرکارؐ کے بعد‘ سب سے بڑے جلیل القدر پیغمبر ہیں۔ کتاب یہ کہتی ہے ” ابراہیم حنیفا‘‘۔ ابراہیم یکسو بہت تھے۔ درجہ بدرجہ اس کے عام بندوں پہ بھی یہ نعمت ارزاں ہوتی ہے؛ اگرچہ باقی انہی میں رہتی ہے جو رحمتِ تمام سے رہنمائی کے آرزومند ہوں۔
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ وہ کتنا مخلص اور کتنا متوکل ہے۔ خود وہ نہیں‘ خلق خدا اس کا فیصلہ کرے گی۔ فرمایا: لوگوں کے دل‘ اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ فرمایا: لوگوں کے دل دشت میں پڑے ہوئے پَر کی مانند ہیں‘ ہوا جسے الٹاتی پلٹاتی ہے۔ اللہ کا‘ جس پہ کرم ہو‘ حالات اس کے لیے ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔
ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کرنے یا ایم کیو ایم پر قبضہ جمانے کے لیے‘ وہ نہ آیا تھا بلکہ اپنا مؤقف بیان کرنے۔ جب اس نے فیصلہ کر لیا تو انیس قائم خانی سے بات کی اور قائل کر لیا۔ جان ہی اگر دینی ہے تو خوف اور ذلت کی موت کیوں مرا جائے۔

دبئی سے جب وہ روانہ ہوا تو اس کی شریکِ حیات غم زدہ تھی اور اندیشوں میں مبتلا۔ چودہ سالہ فرزند کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُن سے اُس نے یہ کہا: رو نہیں مرنا ہی ٹھہرا ہے تو یہ شہادت کی موت ہونی چاہیے‘ اللہ کو منظور ہوا تو جیتے رہیں گے‘ ورنہ موت کا فرشتہ دبئی میں بھی نازل ہو سکتا ہے۔ اسے ویزہ درکار نہیں ہوتا۔
مارچ 2016ء میں‘ تین بجے سہ پہر کراچی میں پریس کانفرنس سے اس نے خطاب کیا۔ شام چھ بجے شریکِ حیات نے اس سے کہا: مجھے تم پہ فخر ہے۔ خوش بخت ہے وہ آدمی‘ جس کے مقصدِ حیات کی جستجو میں‘خاندان اس کے ساتھ کھڑا ہو۔ باقی تاریخ ہے۔

پارٹی اس نے خلق خدا کے اصرار پہ بنائی‘ اپنا فرض ادا کرنے کے بعد ورنہ وہ لوٹ جاتا۔ ایک ایک کرکے‘ لوگ اس سے ملتے گئے۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے 12 سابق ایم پی اے اور ایک عدد ایم این اے‘ اب اس کے رفیق ہیں‘ ڈپٹی میئر ارشد بوہرہ بھی۔

کارکنوں کی کل تعداد کتنی ہے‘ کل شب میں نے اس سے پوچھا۔ اعدادوشمار اس کی انگلیوں پر تھے۔ کراچی میں اٹھارہ ہزار کارکن‘ حیدرآباد میں سات ہزار‘ میرپور اور سندھ کے دوسرے دیہات و قصبات میں پانچ ہزار۔ الطاف حسین نے اسے مغلظات بکیں۔ اس پر یلغار کی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ان کے چار عدد کارکن شہید کر دیئے۔ میرپور میں اس کے قافلے پر حملہ کیا مگر وہ بچ نکلا اور اس کے رفقاء بھی۔ اس کے باوجود ہر روز نئے لوگ چلے آتے ہیں۔ اس کا اور اس کے ساتھیوں کا خیال یہ تھا کہ 22 اگست 2016ء کو ایم کیو ایم کی بساط لپیٹ دی جاتی‘ اور الطاف حسین کی سیاست دفن ہو جاتی‘ جب اس نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا تھا‘ رینجرز کی قیادت نے مگر غلطی کی۔ فاروق ستار اینڈ کمپنی کو معاف کر دیا اور موقع دیا‘ جب الطاف حسین سے لاتعلقی کا انہوں نے چکما دیا۔ عشرت العباد کا ہاتھ اس نے جھٹک دیا‘ جسے وہ رشوت العباد کہتا ہے۔ پرویز مشرف کو لیڈر کے طور پر وہ قبول نہیں کرتا۔ کہنا اس کا یہ ہے کہ قیادت کا فیصلہ ان کارکنوں کو کرنا چاہیے‘ میدان میں جو دادِ شجاعت دیتے ہیں۔ اپنی زندگیاں اور اپنی عاقبت جنہوں نے خطرے میں ڈالیں۔

ایرانی شاعر سے شہنشاہ ہمایوں نے پوچھا: تمہارا بادشاہ بڑا ہے یا ہم۔ اس نے کہا: آپ تو بدرِ کامل ہیں‘ وہ محض ہلال۔ ایرانی دربار میں باز پرس ہوئی تو شاعر نے جواب دیا: بدر زوال پذیر ہوتا ہے اور ہلال نمو پاتا چلا جاتا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی متاع لٹ رہی ہے اور لٹتی جائے گی۔ ایک اور طرح کی زندگی کے وہ عادی ہیں۔ ٹھیکے اور مراعات‘ راتوں کی خاموشی میں لین دین۔ زبان کے نام پر عصبیت فروشی۔ بیک وقت اسٹیبلشمنٹ‘ نواز شریف اور جنابِ زرداری سے ساز باز۔ امریکی قونصل جنرل اور برطانوی کارندوں کے علاوہ‘ خود الطاف حسین سے نامہ و پیام کہ اب بھی اس کے ماننے والے بہت ہیں۔ نفرت اندھی ہوتی ہے۔ کوئی طبقہ اس دلدل میں اتر جائے تو جلد باہر نہیں نکلتا۔ پھر یہ کہ ایم کیو ایم کی صفوں میں اتحاد نہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں‘ طرح طرح کے مفادات۔ لسانی سیاست کا مصطفی کمال قائل نہیں۔ فاروق ستار اینڈ کمپنی‘ اس کے سوا کوئی اثاثہ رکھتے ہی نہیں۔

دو مختلف طرح کے وہ لوگ ہیں۔ فیصلہ ان کے درمیان سیاست کے کارزار میں ہو گا۔ کوئی قدرِ مشترک ان میں نہیں‘ پرندوں کے جھنڈ الگ ہوتے ہیں… کبوتر با کبوتر باز با باز۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے