نواز شریف،خواص و عوام کیا سوچتے ہیں؟

نواز شریف کے اثاثوں کا تو پتہ نہیں مگر پاکستان کا اثاثہ نواز شریف ہے۔ بہت مدت کے بعد قوم کو ایک لیڈر ملا ہے کیونکہ لیڈر آرڈر پر تیار نہیں ہوتے۔ یہ وہ پھل ہے جو شاخ پر نمودار ہوتا ہے، پہلے کچا ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ پکتا ہے، کئی لیڈر ’’پکنے‘‘ سےپہلے شاخ سے جھڑ جاتے ہیں یا ’’کچے‘‘ اتار لئے جاتے ہیں، ہماری سیاست میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے، چنانچہ اس وقت بھی شاخ سے کچے اتارے ہوئے سیاستدان ہمارے درمیان موجود ہیں جنہوں نے اپنی کرتوتوں سے ساری فضا کو متعفن کیا ہوا ہے۔ نواز شریف بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح موسم کے گرم سرد برداشت کرنے کے بعد لیڈر بنے مگر مسلم امہّ کو کچھ چیزیں صدیوں سے ورثے میں ملی ہیں، منیر نیازی کا ایک مصرعہ ہے؎

میں جس سے پیار کرتا ہوں
اسی کو مار دیتا ہوں

چنانچہ ہم اپنے پیاروں کو ہمیشہ سے مارتے چلے آرہے ہیں، ہماری سپریم کورٹ نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کو مار دیا، نواز شریف کو ان کے پہلے دور حکومت میں سخت اذیتیں دینے کے بعد جلا وطن کردیا گیا اور اب وہ پھر ایک اذیتناک دور سے گزر رہے ہیں۔ ہماری عدالتیں ان کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ سنانے سے پہلے ان کے بارے میں جو زبان ا ستعمال کرتی ہیں اور پھر جو فیصلے کئے جاتے ہیں اسی پر قانون کے ماہرین بے شمار سوال اٹھاچکے ہیں۔

میں کچھ ٹی وی چینل ایسے بھی دیکھتا ہوں اور وہاں نواز شریف کے بارے میں جو زبان استعمال ہوتی ہے، اگر مسلسل یہ یکطرفہ تماشا دیکھتا رہوں تو بعض’’معزز‘‘ اور’’مقدس‘‘ ہستیوں کی طرح میں بھی یہی سمجھوں گا بلکہ دوستوں میں اسی طرح کے’’فیصلے‘‘ سنائوں گا جو میرے یہ’’چول‘‘ قسم کے دوست سنارہے ہوتے ہیں جبکہ صورتحال اس سے بہت مختلف ہے۔ اب تو وہ لوگ بھی نواز شریف کے بارے میں کلمہ ٔ خیر کہہ رہے ہیں اور عدالتی نظام پر انگلیاں اٹھارہے ہیں جن کا مسلم لیگ(ن) سے کبھی دور کا بھی تعلق نہیں رہا اور نہ اب ہے۔ عاصمہ جہانگیر، امتیاز عالم، مسرت جاوید، مطیع اللہ جان، بین الاقوامی شہرت کے حامل ناول نگار محمد حنیف، سہیل وڑائچ اور اسی سوچ کے دوسرے دانشوروں کا نواز شریف یا مسلم لیگ(ن) سے کیا ذہنی تعلق ہوسکتا ہے؟ مگر وہ جانتے ہیں کہ موجودہ نواز شریف کا ذہنی زاویہ کم از کم1997ء سے بدل چکا ہے، اس نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئےبےپناہ کام کیا ہے بلکہ اب وہ اپنے اقتدار کے دوام کیلئے کسی تحریص و ترغیب کا شکار ہونے والا نہیں۔ وہ 1999ء میں بھی یہ ثابت کرچکا ہے اور اب ایک بار پھر اپنا سب کچھ دائو پر لگانے پر تلا ہوا ہے۔ وہ 1997ءمیں بھی کالی کوٹھڑیوں میں رہا، مگر بقول برادر جنرل محمود نے ان کی کپنٹی پر پستول رکھ کر اپنی بات منوانے کی کوشش کی مگر نواز شریف نے کہا’’ایسا میری ڈیڈ باڈی پر ہی ہوگا‘‘اور وہ آج بھی اسی عزم کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔

میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جتنا بڑھتا چلا جارہا ہے عوام اور خواص دونوں کے دلوں میں ان کے لئے جگہ بنتی جارہی ہے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ انصاف نہ ملنے کے یقین کے اظہار کے باوجود انہوں نے کسی مرحلے پر بھی عدالت میں پیشی سے فرار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ان کے پاس بہت سے راستے تھے مگر یہ وہ راستے تھے جن کی وجہ سے آج ملک و قوم بند گلی میں آنکلے ہیں۔ میں عوام و خواص کے رجحانات کی بات کررہا تھا، میں سوشل میڈیا پر جاتا ہوں تو حیران ہوجاتا ہوں کہ کیسے کیسے لوگ موجودہ صورتحال کی سنگینی کے مدنظر افراد اور جماعتوں کی وابستگیاں بھول کر خالص قومی نقطہ نظر سے اپنے تاثرات رقم کررہے ہیں۔ ان کی یہ رائے سامنے آرہی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور یہ کہ بقول سیاستدانوں کا قلع قمع کرنے کا دیرینہ رویہ اب ختم ہوجانا چاہئے۔ یو کے میں رہائش پذیر میرے کالم نگار دوست طارق احمد جمہوریت کی بقاء اور استحکام کے لئے سوشل میڈیا پر سرگرم عمل نظر آتے ہیں اور بےشمار دوسرے ناموں کی طرح ایک نام عباس بیگ کا ہے۔ وہ بھی پاکستان کو مضبوط اور مستحکم دیکھنے کے لئے بہت تیکھے جملوں سے اپنے موقف کی وضاحت کرتا دکھائی دیتا ہے، میں نے کالم نگار مصطفیٰ بیگ کی ایک تحریر سوشل میڈیا پر دیکھی، اس کا ایک ا قتباس آپ بھی دیکھ لیں:’’کیا آپ کو اس بات کا احساس ہے کہ نظر ثانی کے بعد جو آپ نے کیا اس طرح تو کوئی چھابڑی فروش بھی نہیں کرتا کہ گاہک سے لڑنا شروع کردے، سودے پر نظر ثانی کی درخواست لے کر آنےوالے کو گالیاں دینا شروع کردے، گلے سڑے پھل کی شکایت کرنے والے کو الٹا برا بھلا کہہ کر اگلے پچھلے سارے حساب بےباک کرنے پر تل جائے… کیا آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ سے سودا خریدنا بند کردیں۔

کیا آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کے بارے بلند آہنگ آواز میں اور اسی لہجے میں بات کرنا شروع کردیں جو آپ کا وطیرہ بن چکی ہے؟…بیس سال تک یاد رکھنے والے فیصلوں میں ناولوں اور شاعری کے حوالے دینے والوں کو کیا یہ نہیں معلوم کہ اگر رویے سے بدبو آنا شروع ہوگئی تو آپ کی دہلیز کے باہر لگے ترازو میں لوگ آلو پیاز تولنے کے لئے بھی تیار نہ ہوں گے!
یہ کڑوی کسیلی باتیں صرف مصطفیٰ بیگ نہیں کررہا، اب یہ آواز خلق ہے جسے نقارۂ خدا کہا جاتا ہے، خدا کے لئے آنکھیں کھولیں یہ کسی فرد کا معاملہ نہیں، ملک و قوم کے مستقبل کا معاملہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے